گوشہ اردو

فکرو نظر – من آنم کہ من دانم

زندگی بھی کتنی عجیب چیز ہے پَل بھر میں گزر جاتی ہے۔ جہاں گزشتہ سال کے گزر جانے پہ دُکھ ہے تو وہاں نئے سال کی آمد پہ خوشیاں کیا ہم نے کبھی سوچاکہ اِس ایک سال کے گزرجانے سے ہماری عمریں بھی ایک سال کم ہوں گی؟ زندگی جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ اذان سے نماز تک کا وقفہ ہے۔ پیدائش کے وقت کان میں اذان دی جاتی ہے لیکن نماز نہیں پڑھی جاتی جبکہ موت کے وقت نماز (نمازِ جنازہ) پڑھی جاتی ہے لیکن اذان نہیں دی جاتی۔ سو، ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ زندگی اذان سے نماز تک کا ایک مختصر وقفہ ہے، اذان ہوچکی ہے، کسی بھی وقت نمازِ باجماعت ہوسکتی ہے۔ اِس لئے ہمیں اپنی اِس چھوٹی سی زندگی میں وہ کام کرنا چاہئیے جس میں دوسروں کا بھلا ہو۔ اِسی جذبے کے تحت گزشہ ایک سال سے ہماری کاوش رہی کہ سہ ماہی ”فکرونظر“ غذر/گلگت بلتستان و چترال کے پلیٹ فارم سے ہم اِن علاقہ جات کی اُن عظیم اَدبی، علمی اور صحافتی شخصیات کو ایک جگہ اَکھٹا کرسکےں، جن کی اَدبی و علمی خدمات کے ہم سب معترف ہیں۔

الحمداللہ ادارہ ”فکرونظر“ غذر/گلگت بلتستان و چترال نے جب بھی، جہاں بھی اِن شخصیات سے رابطہ کیا۔ اُنہوں نے دِل کھول کر ہماری علمی مدد فرمائی۔ یہ اَرضِ بلتستان کے پروفیسرکمال الہامی، حسن حسرت، احسان دانش، ذیشان مہدی، انور بلتستانی، اسلم سحر و قاسم نسیم ہوں یا محترمہ ڈاکٹر عظمیٰ سلیم صاحبہ ہوں یا گل زمین گلگت کے جناب پروفیسر عثمان، جناب دکھی، جناب تاج، جناب ضیا، جناب طارق، جناب برچہ، جناب سلیمی، جناب ناز، جناب مشتاق، جناب یاد و جناب شاکر ہوں، چترال کے جناب عنایت اللہ فیضیو ذاکرزخمی ہوں یا چلاس کے جناب عنایت اللہ شمالیو امیرجان حقانی ہوں، مانسہرہ کے جناب رستم نامی ہوں یا نگر کے جناب اِسماعیل ناشاد و شاہ رئیس سیفی اور اُن کی انجمن کے دیگر احباب ہوں، ہنزہ کے جناب فدا علی ایثار و عبداللہ جان ہنزائی ہوں یا کراچی کے جناب ڈاکٹر عزیز اللہ نجیب و کریم خان عاجز ہوں، غذر کے ڈاکٹر عبدالعزیز دینار، سید شفا جان، محمدجان و سید رشید الدین سنان ہوں یا لاہور کی مایہ¿ ناز سفرنامہ نگار محترمہ سلمیٰ اعوان صاحبہ ہوں، اِن تمام احباب نے ”فکرونظر“ کے صفحات کو نہ صرف اپنی شاہکار تحریروں سے زینت بخشی بلکہ اپنے قیمتی مشوروں سے بھی نوازا۔
قارئین! فکرونظر صرف ایک رسالہ ہی نہیں یہ ایک فکر اور ایک سوچ کا نام ہے ایک تحریک کا نام ہے ایک جذبے کا نام ہے ایک انقلاب کا نام ہے جی ہاں ایک علمی و ادبی انقلاب کا نام ہے ایک سال کے مختصر عرصے میں اِس رسالے نے سرزمین شمال و چترال میں جو ادبی انقلاب برپا کرنے کی کوشش کی، اِس کا معترف ”نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر“ کے بمصداق کراچی کے ساحل سے لے کر قرمبر جھیل و شندور ٹاپ تک ہمارے معزز قارئین کے وہ خطوط ہیں، جن سے اِس رسالے کی مقبولیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ پھر اِس کی پہلی سالگرہ پر خصوصی اشاعت میں شامل وہ مضامین اور طرحی غزلیں ہیں جو اِس کا قد کاٹھ بڑھانے کے لئے کافی ہیں۔ جہاں سکردو کے جناب پروفیسر کمال الہامی یوں کہتے ہوئے نظر آتے ہیں
خوشا! اہلِ قلم کا یہ سفر ہے
اَدب اور شاعری ہی کی سحر ہے
کمالِ ذوق کی پرواز دیکھو!
بلندی پر رواں ”فکرونظر“ ہے
تو وہاں گل زمین گلگت کے جناب جمشید خان دُکھی یوں کہتے ہیں
غذر والوں کی محنت کا ثمر ہے
”بلندی پر رواں ”فکرونظر“ ہے“
نہ ہو مشہور کیونکر یہ رسالہ
کریمی جس کا چِیف ایڈیٹر ہے
جہاںدیامر رائٹرز فورم چلاس کے جناب عنایت اللہ شمالی کہتے ہیں
کریمی! تجھ پہ مولا کا کرم ہے
تمہارا منتظر باغِ اِرم ہے
بلند پرواز سے ”فکرونظر“ سے
اَدب کا آپ نے رکھا بھرم ہے
تو وہاں اَنجمن فکروسخن نگر کے جناب اکبر حسین نحوی کہتے ہیں
اَدب کا آسماں ”فکرونظر“ ہے
ستاروں کا جہاں ”فکرونظر“ ہے
کریمی سے لکھاری ہیں تو جانو
کتابِ کاملاں ”فکرونظر“ ہے
خلوص و محبت کے سچے جذبے سے کہے ہوئے یہ اَشعار میرے اور ادارہ¿ ”فکرونظر“ کے لئے متاعِ زیست کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مجھے اُمید ہی نہیں بلکہ میں یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ آپ سب کی محبت شاملِ حال رہی تو انشاءاللہ العزیز سہ ماہی ”فکرونظر“ سرزمین شمال و چترال میں وہ ادب تخلیق کرے گا جس کا ملک کے دیگر حصوں میں تصور بھی نہیں کیا جاسکے گا۔ شمال و چترال کے اِن بلند و بالا پہاڑوں میں ہمارے پاس اِن پہاڑوں کی طرح بلند حوصلے والی شخصیات موجود ہیں۔ آئیں 2011ءکو خدا حافظ اور 2012ءکو خوش آمدید کہتے ہوئے یہ عہد کریں کہ ہم اپنے قلم کے ذریعے باسیانِ شمال و اَہالیانِ چترال کو پھر ایک پلیٹ فارم پر لانے کی کوشش کرےں تاکہ ہمارا یہ خوبصورت علاقہ ایک دفعہ پھر امن و امان کا گہوارہ بن جائے۔
آپ کو یہ بتاتے ہوئے خوشی محسوس ہورہی ہے کہ آئندہ سہ ماہی ”فکرونظر“ ارضِ شمال و چترال کی اہم اَدبی و علمی شخصیات کے حالاتِ زندگی پر ”خصوصی نمبر“ شائع کرتا رہے گا۔ اِس سلسلے میں محفلِ مشاورت کے معزز ممبران کی مشاورت سے ”فکرونظر“ اپنے آئندہ شمارے میں راقم کی اَدبی خدمات پر ”کریمی نمبر“ شائع کرے گا۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ مجھ سے اِس سلسلے کا آغاز کیا جائے مگر اَحباب کے پُرزور مطالبے پر اِس سلسلے کا آغاز مجھ سے کیا جا رہا ہے۔ ورنہ اَدبی دُنیا میں میرا مقام و مرتبہ اِن احباب کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔ یہ اِن کی محبت ہے، میں تو صرف یہ کہہ سکتا ہوں۔ من آنم کہ من دانم۔
گلگت بلتستان کے انقلابی شاعر اپنے دوست جمشید خان دُکھی کے اِن دُعایہ اَشعار کے ساتھ آپ سے اِجازت کا خواہاں ہوں۔ زندگی نے وفا کی تو انشاءاللہ العزیز آئندہ شمارے میں ”کریمی نمبر“ کے ساتھ ایک دفعہ پھر آپ کی خدمت میں حاضر ہوں گے۔ اپنا بہت سارا خیال رکھئیے گا اور ہمیں اپنی دُعاو¿ں میں یاد کیجئیے گا۔
بُلبُل کبھی چمن میں نہ غم سے نڈھال ہو
یارب! مرے وطن کا خصوصی خیال ہو
ایسی ہوائے اَمن و محبت چلے یہاں
جس کی کہیں مثال نہ ہو بے مثال ہو
بٹ بٹ کے ٹولیوں میں یہ مخلوق تھک گئی
یکجا اَب اِک مقام پر آدم کی آل ہو
ظالم کے ظلم حد سے بڑھے ہیں مرے خدا!
حق کا عروج‘ دُشمنِ حق کا زَوال ہو
جو حال2 مئی و سلالہ میں ہوگیا
دُنیا میں دُشمنوں کا بھی ایسا نہ حال ہو
آئین تو بحال نہیں ہو سکا مگر
بس اب دُعا یہی ہے کہ بجلی بحال ہو
نفرت مرے چمن کے نہ آئے کبھی قریب
میرے خدا! یہ سال محبت کا سال ہو

Related Articles

Back to top button