گوشہ اردو

کیا وزیر بیگ صاحب ٹھیک کہتے ہیں؟

وزیر بیگ صاحب گلگت اسمبلی کے اسپیکر ہیں۔ میری دانست کے مطابق اسپیکر صاحب موجودہ گلگت اسمبلی میں سب سے زیادہ سیاسی بلوغت رکھنے والے آدمی ہیں۔میں کئی سیاسی رہنماو¿ں سے مل چکا ہوں اور کئی سے انٹرویو بھی کرچکا ہوں، جب بھی ان کی باتوں کو سنتا ہوں تو دل گرفتہ ہوتا ہوں۔بعض تو فقط ”سیاسی بونے“ کہلانے کے مستحق ہیں اور بعض صرف اور صرف اخباری بیانات کی حد تک مقبول و معروف ہیں۔ وہ اخباری صنعت کا خوب استعمال کرتے ہیں اور ایسی بھڑکیں اور ٹامک ٹوئیاں مارتے ہیں کہ الامان والحفیظ۔ حقیقی دنیا سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان کی عوامی ساخت اتنی کمزور ہے کہ وہ اپنے محلے کے ووٹ بھی نہیں لے سکتے ، یہ الگ بات ہے کہ وہ اعلی ترین عہدوں پر براجمان ہیں بلکہ براجمان کئے گئے ہیں تاکہ ضرورت پڑنے پر ان سے اپنی ناجائز خواہشات کی تکمیل کا سامان کیا جا سکے۔ تاہم وزیر بیگ صاحب کا معاملہ ان سیاسی بونوں اور ٹامک ٹوئیاں مارنے والوں سے مختلف ہے۔
اس میں دو رائے نہیں کہ قوموں کی زندگی میں نشیب و فراز کے منازل آتے رہتے ہیں، پوری انسانی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ زوال آمادہ اقوام نے اپنی کوتاہیوں اور نااہلیوں کے درست تجزیے اور بروقت اصلاحی تدابیر اختیار کرکے دوبارہ عروج حاصل کیا ہے اور مثالی اصول زندگی اپنا کر زندگی کوقابل رشک بنانے میں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ اپنے ارگرد گرد نظریں دوڑانے سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ بہت سے ممالک جو کبھی غلامی، بدامنی،کرپشن، قتل و غارت، بے راہ روی اور جرائم کی پستیوں اور خوں ریزیوں میں سر تک ڈوبے ہوئے تھے آج ان کا شمارترقی یافتہ اقوام اور ریاستوں میں ہوتا ہے۔ ہمسایہ ملک چین اس کی واضح مثال ہے جوبلند ہمت اور تیز رفتار اور خود دار ملک کے طور پر جانا اور مانا جاتاہے۔مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں یہ ماحول اور سوچ نہیں ہے۔ ہم میں یہ روش سرایت کر گئی ہے کہ ہم تمام خرابیوں اور برائیوں کا ذمہ دار دوسروں کو ٹھہراتے ہیں اور حقیقت سے چشم پوشی کرتے ہیں۔جب تک اس اجتماعی بیماری سے نجات نہ پایا جائے تب تک امن و ترقی کی امید کرنا اونٹ کو رکشے میں سوار کرنے کے مترادف ہے۔
تین اپریل کے اتحاد چوک کے بم دھماکے کے بعد اگر قومی رہنماو¿ں اورسیاسی بونوں کے اخباری بیانات اُٹھا کر دیکھے جائیں تو انسان حیرت میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ قوم کیا سوچتی ہے ، زمینی حقائق کیا ہیں اور لیڈران کے بیانات کس بات کی غمازی کرتے ہیں۔ہر آدمی سچ بولنے سے گریز کرتا ہے، کچھ سیاسی مقاصد کے حصول کی خاطر، کچھ ذاتی مفادات کی خاطر، کچھ معتدل رہنے کی زعم میں، کچھ وقتی عہدوں کی لالچ کی خاطر۔ سچ کہا وزیر بیگ صاحب نے کہ ”اس حمام میں سب ننگے ہیں“۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ جو باتیں اہل تشیع اور اہل سنت سے تعلق رکھنے والے سیاسی و حکومتی رہنماو¿ں کو کرنی چاہیے تھیں آج وہ اسماعیلی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے وزیر بیگ صاحب کرتے ہیں۔دل کرتا ہے کہ دل سے انہیں مبارک باد دیا جائے۔ان کے چند ایک حقائق پر مبنی بیانات پڑھ لیں اور ٹھنڈے دل و دماغ سے غور کریں کہ انہوں نے کتنی سجیدگی اور جرا¿ت کے ساتھ سچ بولنے کی ہمت کی ہے۔مثلاََ ”حکومت ناکام ہوچکی ہے، فوج آخری امید ہے۔میں وزیر اعلی سے بار بار کہتا رہا کہ گلگت کے حالات خراب سے خراب تر ہو رہے ہیں، بڑے نقصان سے بچنے کے لئے ٹھوس اقدامات کئے جائیں۔بدقسمتی سے انتظامیہ اور پولیس میں افسروں کے ساتھ ساتھ اہلکاروں میں میں تعصب ہے اس لیے و ہ قانون اور میرٹ کے تحت کام نہیں کرتے ہیں اور جانبداری سے کام لے رہے ہیں۔گلگت میں ریلی پرگرنیڈ(دستی بم) سے حملہ کیا گیا اور اس کے رد عمل میں چلاس کا سانحہ رونما ہوا، پولیس اہلکاروں نے لوگوں کی حفاظت کے بجائے انہیں قاتلوں کے حوالے کیا اور خود بھی ان پر گولیاں برساتے رہے“ بحوالہ روزنامہ کے ٹو۸۱ اپریل ۲۱۰۲ئ)۔
یو م مزدور سے سٹی پارک گلگت میں عوامی اجتماع سے کئی حقائق پر مبنی ایک غیر جانبدار خطاب میں کہا کہ” سانحہ چلاس سانحہ گلگت کی وجہ سے پیش آیا،آدھے سے زیادہ سرکاری ملازمین جعلی ڈگریوں سے بھرتی ہوئے ہیں، میں نے وزیر اعلی سے کہا ہے کہ ان کے بارے میں تحقیق کروایا جائے۔ہم ایک ایسی قوم ہے جو آزادی کو پسند نہیں کرتی بلکہ آزادی کی نعمت کا غلط فائدہ اٹھا رہے ہیں۔لوگ ملازمتوں بلکہ تبادلہ کے لئے بھی ملا و شیخ کے پاس جاتے ہیں۔سیاسی قیادت نااہلی کا مظاہرہ کررہی ہے۔ بحوالہ روزنامہ کے ٹویکم مئی اپریل ۲۱۰۲ئ)۔
وزیر بیگ صاحب کی حقائق پر مبنی چند باتیں آپ نے ملاحظہ کیا۔تنگیِ داماں کی وجہ سے ان کی تمام باتیں درج نہیں کی جا سکتی ہے تاہم حکومتی رٹ اور گڈ گورننس کا چہرہ اسپیکر محترم کی باتوں سے واضح نظر آتا ہے۔ کاش ! غریب لوگوں کے فنڈ کو ہڑپ کرنے والے اور جھوٹے وعدے اور دعوے کرنے والے ارباب اقتدار بالخصوص وہ لوگ جو اسلام آباد میں بیٹھ کر نرم گرم بیانات جاری کرکے قوم کے غم و الم میں اضافہ کرنے والے وزیر بیگ صاحب کی طرح اپنی کوتاہیوں اور کمزوریوں کا کھلے دل سے برملا اظہار کریں اور آئندہ درست و راست اقدامات کرنے کے لئے کمر بست ہو جائیں تو میں دعوے سے کہتا ہوں کہ قوم کو بہت جلد اذیت اور تکلیف سے نجات دلا جا سکتا ہے۔
ہماری موجودہ حکومت دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے دینے کے اعلانات اور اس کے لئے ناکارہ کوششیں توکر رہی ہے، مگر وہ حقیقت کا ادراک نہیں کر پارہی ہے یا نہیں کرنا چاہتی ہے۔میری دانست اور مشاہدے کے مطابق سیاسی لیڈر اور حکومتی احباب خود وہ تمام روٹس مہیا کر رہے ہیں جن سے بد امنی اور دہشت گردی پیدا ہوجاتی ہے۔ اور پھلتی پھولتی ہے۔ میرٹ کا قتل عام، بے انتہا کرپشن، اقربا پروری، مسلک پروری،مذہنی و علاقائی سیاست، ناانصافیاں،رول اینڈ لا ءکی دھجیاں اڑانا،سیاسی بنیادوں پر نوازنا اور مسلکی آقاو¿ں کو سر پر چڑھانا، ٹیلنٹ کی بے قدری، لوٹ کھوسٹ، کھوکھلے سیاسی بیانات ، اداروں کو پامالی، یک طرفہ سیاسی و مذہبی فیصلے اوران جیسے بے شمار وہ مسائل ہیں جو روز بروز قوم اور علاقے کو لاقانونیت کے دلدل کی طرف دھکیلنے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔
ہمارے علمائے کرام کو معاشرے میں پھیلائے ہوئے پروپیگنڈوں اور غلط باتوں کا ادراک کرکے اتفاق رائے سے ان مغالطوں اور گمراہیوں کی نشان دہی کرنی چاہیے ۔ اسلام کی اصل روح اور حقیقی تعلیمات کو عوام تک پہنچانا ہوگا اور اس کے لئے علمی اور تحقیقی مکالمے کی اشد ضرورت ہے۔ہمیں اپنے نوجوانوں بالخصوص ناراض نوجوانوں کو علمی اور فکری کاموں اور کاوشوں میں شامل کرنا ہوگا اور معاشرتی رویوں اور دینی واسلامی فہم و تدبر کو احسن طریقے اور دلیل کے ساتھ سمجھانا ہوگا۔ایک مضبوط عمرانی معاہدے کو تشکیل دینا ہوگا۔کم سے کم وزیر بیگ صاحب کی تسلیم کردہ خرابیوں کو درست کرنا ہوگا اور از سر نو امن اور ترقی کے راستے ڈھونڈنے ہونگے۔ کاش ہمارے سیاسی لیڈران، ارباب اقتدار، مذہبی علماءو دانشور اور سرکردہ افراد تمام مسلکی نمائندوں، سیاسی رہنماو¿ں اور علاقائی و وفاقی حکومت کا منظور کردہ امن معاہدہ پر عمل درآمد کروانے میں کامیاب ہوجاتے۔ اے کاش
دل نا امید تو نہیں ناکام ہی تو ہے
لمبی ہے شام غم مگر شام ہی تو ہے

Related Articles

7 Comments

  1. Dear Haqqani, I am impressed of your writings which give a true-to-type demonstration of the situation, issues and challenges, this region is facing currently and fueled for the last couple of months.

    Although appreciating Speaker GB for his truths and indifferent analysis is a welcome move, I am afraid this may put his duty and life into much vulnerable position, as such leaders are very few, that you have already identified. Unfortunately, degrading and destructive elements are now much much stronger than the constructive ones, and those elements are joined by groups of ill-fated politico-religio-lingual (pseudo) leaders equipped with undiminished wealth of shortsightedness.

    Mr. Speaker has gone through a mill which produced him to this quality not in years but spread over the decades of test. His simplicity in life, balance in approach, untiring stamina for service to humanity, struggle for merit, sacrifices for the noble cause, are but a few of qualities he is blessed with. In short, only leaders of such merits, caliber and stature should be the successors of the great heroes of the GB who got freedom 64 years back.

    Let me join you to salute such leaders in a distant hope that our mothers now onwards start upbringing future generations, teachers educate the youth, institutions and the society train the nation, only keeping in focus the truest values, norms and teachings our beloved Prophet Hazrat Muhammad (SAWW) expressed and practiced himself. Let me try to quote his heavenly words that would never ever perish from the minds of people “ae logo! yad rakhna, merey ba’d gumrah na hona ke aik doosray ki gardeney kartey raho”. I hope now you join me to pray that May Allah Almighty bless our region and the nation.

  2. Well done Mr. Haqqani! you have rightly mentioned the services and heroic role of Mr. Wazir Baig in a difficult situation.

    We would appreciate if Mr. Baig had taken such a stance for the real miseries of his jurisdiction i.e. Hunza-Nagar; especially the people of Gojal are facing since last two and half years due to the blockade of KKH near Attabbad.

  3. well good artical … the youth of GB must play thr role in coming elections … assist the real and educated leaders to lead us …

  4. Respected All,

    I am not impressed because Mr. Ameer Jan highlighted the impartial statements of an Individuals from the Council of GB.

    I am impressed from a YOUNG Son of Gilgit-Baltistan, whom shared with us the difference of words and deeds or saying & doing. Our generation is in a tragedy of this duality in our actions and deeds. We are observing in our homes to office to friends, society, country and leader ship. We are devising different rules for our own and the same we are interpreting different for others. Our parents not prepared us a country lover and neither we are preparing our kids as a NATION as a mother land lover.

    The essence of the message of Mr. Ameer is; wants to convey is to own the values of the Humanity, religions and be a good human being for the HUMANITY of GOD. Speak the truth try to express the facts with larger prospects of the society.

    I am really impressed of the article by expressing and acknowledging the facts. This shows the light which gives hope to the people like me a ray of Hope, that Inshallah one day Gilgit-Baltistan would be again GULGASHT—the old name of Gilgit.
    In conclusion a single line from IQBAL the great National poet of this great country:
    “ZERA NUM HO TO YE MATEE BOOHOT ZAKHEZ HA SAQEE”

    –CHANGING IS IN THE HANDS OF YOUTH FOR THE YOUTH –TO THE COMING GENERATIONS———–

  5. We must appreciate Mr Wazir Baig for his courage & commitment to peace in GB, ppl from all sects must support Mr Baig to ensure lasting peace in the region, Let us get rid of temporary solutions & work for a permanent solution which is in the interest of all of us.

  6. وزیر بیگ صاحب کے لئے
    صرف یہ کہنا کافی نہیں کہ حکومت امن و امان کے قیام میں ناکام ہوئے ہیں۔ بلکہ اس ناکامی کا احساس کرتے ہوئے ان کو مستفعی ہونا چاہیے۔وزیر بیگ صرف یہ کہ کراپنے آپ کو اس حالات سے بری زمہ قرار نہیں دے سکتے ہیں

Back to top button