گوشہ اردو

بیٹی

فکرونظر کی نشست میں ایک ایسے عنوان کو لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوں جس کے بارے میں اگر ہم انسانی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو لرزہ خیز انکشافات دل و دماغ میں گردش کرنے لگتے ہیں، یہ بات سچ ہے کہ اس کائنات کے خالق نے کائنات میں کوئی چیز بے مقصد یا بے فائدہ پیدا نہیں کی، خواہ اس کا تعلق حیوانات، نباتات اور اشرف المخلوقات ”انسان“ سے ہو۔ خالق کائنات اپنی تخلیق کی افادیت اور اہمیت سے خوب واقف ہے، زمانہ جاہلیت سے یہ وطیرہ چلا آرہا ہے کہ انسان بیٹے کی پیدائش پر خوشی اور بیٹی کی پیدائش پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتا ہے۔
قرآن مجید میں اس پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا ہے:
”جب ان میں سے کسی کو لڑکی کی پیدائش کی خوشخبری دی جاتی ہے تو غصے کی وجہ سے اس کا چہرہ سیاہ ہو جاتا ہے اور وہ لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے کیا اسے ذلت کے ساتھ رکھے گا یا مٹی میں چھپا دے گا، سن لو وہ کیسا برا فیصلہ کرتے ہیں۔“ (سورة النحل)
اسلام سے پہلے نہ جانے کتنی معصوم بچیاں جزیرہ نما عرب کے صحرا میں دفن کر دی گئیں جن کی تعداد کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے کیونکہ زمانہ جاہلیت کے باپ کی نظروں میں بیٹی خاندان پر ایک بوجھ شمار ہوتی تھی جو کھاتی پیتی تو تھی مگر اپنے خاندان اور قبیلے کے لئے لڑ نہیں سکتی تھی اور اگر لڑائی میں دُشمن اسے قیدی بنا لیتا تو وہ سب کے لئے بدنامی اور رسوائی کا ذریعہ بن جاتی اور دشمن اس کے ساتھ زور و زبردستی یا اس کی مرضی اور خوشی سے اس پر قابو پا لیتا اور اس کے باپ اور قبیلہ والوں کو عار دلاتا۔ مگر جب اسلام کا ظہور ہوا تو زمانہ¿ جاہلیت کے اس قبیح فعل کی مذمت کرنے کے لئے خداوند لایزال کا یہ قول نازل ہوا:
(مفہوم): ”اور جبکہ زندہ دفن کی ہوئی لڑکی سے سوال کیا جائے گا کہ وہ کس گناہ پر قتل کی گئی۔“ (القرآن: ۹۔۸ /۱۸)
زمانہ جاہلیت میں عربوں کے اس سنگدلانہ اور وحشیانہ طرزِ عمل سے تو ساری دنیا ہی واقف ہے کہ وہ بیٹی کو زندہ دفن کیا کرتے تھے اور اس پر فخر بھی کیا کرتے تھے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں آج تک لڑکی کے حوالے سے منفی رویہ پایا جاتا ہے، لڑکی کی پیدائش پر خوشی اور مسرت کے وہ جذبات نظر نہیں آتے جو لڑکے کی پیدائش پر ہوتی ہے۔ عالم، فاضل اور جاہل سبھی کم و بیش اسی مرض میں مبتلا ہےں، ذرا غور کیجئے کہ بیٹی کی پیدائش میں عورت کا کیا قصور ہے؟، جو چیز اس کی قدرت میں نہیں، جس پر اسے اختیار نہیں، اسے اس کا مجرم کیوں قرار دیا جاتا ہے، بلکہ وہ تو نو ماہ کی مدت تک پیدا ہونے والے بچے کی خاطر مشقت اور تکلیف برداشت کرتی ہیں، مرد تو نو ماہ تک بلکہ نو گھنٹے تک یہ تکلیف برداشت نہ کرسکے۔ پھر بھی ہمارا طرز عمل ایک ماں کے ساتھ ظالمانہ اور بے رحمانہ ہوتا ہے، ہم لڑکی کی پیدائش پر ناراض ہوجاتے ہیں، ہماری تیوری پر بل آجاتا ہے بلکہ کئی کئی روز تک شوہر اپنی بیوی سے بات تک نہیں کرتا، اس کے ماں باپ اور بہن بھائیوں کا الگ منہ بنا رہتا ہے، بعض باپ اپنی بیٹی کا چہرہ تک نہیں دیکھتا، ساس نندیں اس ماں کے ساتھ بدکلامی اور بدزبانی سے پیش آتی ہیں، یہاں تک کہ اپنے لڑکے کی دوسری شادی کرنے کی دھمکی دے کر اس کا دل دکھاتی ہیں، ایک مسلمان ہونے کے ناطے ہمارا یہ طرز عمل انتہائی ناپسندیدہ ہے بلکہ یہ کفرانِ نعمت ہے، اس کی عطاءکی ناقدری ہے، انسانیت کے ناطے بے قصور کو قصور وار ٹھہرانا ظالمانہ طرز عمل ہے۔
بیٹی خدا کی رحمت بھی ہے اور نعمت بھی۔ نبی کریم کا ارشاد ہے:
”جس نے دو لڑکیوں کی پرورش کی اور انہیں حسن تربیت سے مالامال کیا، یہاں تک کہ وہ سنِ شعور تک پہنچ گئیں، قیامت کے دن میں اور وہ اس طرح ساتھ ہوں گے جس طرح میرے ہاتھ کی یہ دو انگلیاں۔“
صحیح مسلم میں حدیث مبارکہ ہے کہ حضور نے ارشاد فرمایا:
”جس کی دو لڑکیاں ہوں یہ لڑکیاں اس کے لئے روزِ قیامت دوزخ سے آڑ ہوں گی۔“
اس کے علاوہ متعدد احادیث مبارکہ میں لڑکیوں کی پرورش اور حسن تربیت پر نویدِ بخشش ہے اور ان کے فضائل بیان کئے گئے ہیں اسی لئے کہا گیا ہے کہ بیٹی نعمت بھی ہے اور رحمت بھی۔ اولاد ہونے کی وجہ سے نعمت اور بخشش کا سبب ہونے کی وجہ سے رحمت۔
اسلام نے عورت کو بڑے مراتب عطا کئے ہیں، عورت کو ماں، بہن اور بیٹی کے مقدس رشتے سے سرفراز کیا ہے، آج کی پیدا ہونے والی بیٹی کل کی ماں کے مقدس رشتے کی حامل ہوگی کہ اس کی رضا بخشش کاسبب، اس کی دعا قبولیت کا ذریعہ، اس کو عزت و احترام سے دیکھنا حج کا ثواب اور اس کی خدمت جنت میں داخل ہونے کا راستہ بنے گی، یہ بیٹی ہی تو ہے جو اس مقدس رشتے کی حامل بنی۔
ان احادیث مبارکہ کی روشنی میں کیا ہمیں یہ بات زیب دیتی ہے کہ ہم بیٹی کی ولادت پر رنج و غم، نارضگی کا اظہار اور خدا کی نعمت کی ناشکری کریں اور ایک ماں کو جس کا اس معاملے میں کوئی قصور نہ ہو، اس بے قصور کو قصور وار ٹھہرائیں، ہمارا یہ طرز عمل جہاں ظالمانہ ہے وہیں نعمت خداوندی پر ناشکری بھی ہے جو غضب الٰہی کو دعوت دینے کا سبب ہے، روزمرہ زندگی میں یہ تجربہ ہے کہ بیٹے کے مقابلے میں بیٹی زیادہ وفادار، محبت کی مظہر، شریک غم اور دکھ درد میں شامل رہتی ہے، ہمیں اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ اس نعمت کی قدر کرنی چاہئے۔

Related Articles

3 Comments

  1. An excellent articulation, Karimi.
    No doubt, messages and teachings of the Qua’an and Prophet Muhammad (SAWW) about this segment of humanity are universal.
    Although we claim to be staunch followers of Islam and leave all others miles far behind in proclaiming love for Prophet Muhammad (SAWW), but when time comes for practice on those teachings, we demonstrate otherway. Like in all other spheres of life, we’ve forgotten love for all four profiles of women; mother, sister, daughter and lifepartner, let alone allowing her live a respectable life, guranteed by Islam. Marriage with Qur’an, honour killing, depriving her of basic rights, education, health, social life, etc, all these injustices done to her serve only ulterior motives – grabing her economic rights and that too in the name of religion.
    In more recent past couple of years, in Baluchistan 5 women were buried alive, and when the issue was raised in Senate, the highest house of lagislature, the Deputy Chairman (a Baloch) who chairing the session snubed the member not to touch his culture, for that he was always proud of. Wasn’t that 21st century version of pre-Islamic Arabic culture “Jahilyia” ?

  2. Really daughter is a great blessing of Almighty Allah. If there were no daughters, there would not have humanity itself- We also believe that educating a boy is educating an individual and educating a daughter is educating a nation. Karimi U have articulated your point of view well from Islamic perspectives. keep your good work up!

  3. You may be right Karimi Sb. But in our society ground realities are somehow different. People prefer sons as they have to be their supporters in future while daughters are to be married in other families. In Pakistani society we see that the parents with sons have a prosperous life in old age than parents with daughters. You will also notice it in 90% families of our society. No doubt everyone loves his daughters very much but sons are generally given more preference due to above fact in our society. What is your opinion on it???

Check Also
Close
Back to top button