گوشہ اردو

اس سے پہلے کہ دیر ہوجائے

تحریر ۔عبدالحفیظ شاکر
“انسان کو زمین کی طرح عاجز اور ہوا کی طرح دستیاب ہونا چاہیے”۔جاوید چوہدری کے ایک کالم میں درج یہ جملہ دراصل اُن لوگوں کی زبان سے ادا ہوتاہے جن کی روح زندہ اور توانا ہوتی ہے۔ میں جب اپنے اردگرد پھیلے معاشرے پر نظر ڈالتاہوں تو مجھے گوشت پوست کے مجسمے متحرک تو ضرور دکھائی دیتے ہیں مگر اُن کا “اندر “مرا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ میری طرح کے انسان ہیں۔ نہ تو اُن میں عاجزی اور فروتنی ہے نہ ہی وہ ہرکسی کو دستیاب ہیں۔انا کی دیمک ہمارے معاشرے کو اندر سے چاٹ چاٹ کر کھوکھلا کر چکی ہے اور ہر شخص اپنی ذات کے کوکون میں بند ہے۔ جب بھی کوئی معاشرہ اس کیفیت کا شکار ہوجائے تو آفات ِ سماوی و ارضی اُسے اپنی لپیٹ میں لے لیتے
ہیں۔ خوف ،بھوک ،حرص، طمع،لالچ، کینہ ، بغض اور حسد کے جراثیم ٹڈی دل کی طرح اُس پر حملہ آور ہوتے ہیں۔
گلگت بلتستان کا خطہ دنیا کے حسین ترین خطوں میں سے ایک ہے۔فطرت کی صناعی اس خطے میں درجہ کمال کو پہنچی ہوئی ہے۔ جتنا حسین یہ علاقہ ہے اتنے ہی من کے سچے یہاں کے لوگ تھے۔ “لفظ تھے”لکھتے وقت مجھے جس کرب سے گزرنا پڑرہا ہے اُس کا اندازہ گنتی کے وہ چند احباب لگا سکتے ہیں جو اپنے لوگوں کی حالتِ زار پر خون کے آنسوروتے ہیں۔جن کی زبانیں بول بول کر تھک چکی ہیںاور قلم لکھ لکھ کر سوکھ چکے ہیں۔ مگر لوگوں کے دل بنجر ہوچکے ہیں۔ اُن کی سوچ پر انا کے پہرے ہیں۔ آنکھوں میں بغض اور کینے کا پردہ چڑھ چکا ہے۔ کانوں کے پردے تعصب میں لتھڑے ہوئے نعروں کے علاوہ کچھ بھی سننے سے قاصر ہیں۔تین دہائی قبل یہاں کے باسی فرشتوں سے بھی زیادہ معصوم اور محبت کرنے والے تھے مگر آج اُن کی معصومیت درندگی اور محبت نفرت کی آگ میں بدل چکی ہے۔
بقول شاعر
بشر کی وحشتوں کا ذکر سن کر
درندے منہ چھپائے پھر رہے ہیں
ایسا اس لیے نہیں ہوا کہ لوگ خدانخواستہ دین سے بیزار ہوکر دہریت کے سانچے میں ڈھل گئے ہوں۔المیہ یہ ہے کہ یہ سب کچھ پرچم ِاسلام کے سائے میں انجام پا رہا ہے۔ نفرت کی یہ چنگاریاں ممبرومحراب سے اُڑ کر آتی ہیں اور خرمن ِملت کو خاکستر کررہی ہیں۔ ہر انسانیت کش عمل کو قرآن اور حدیث کے خول میں لپیٹ کر پیش کیا جاتا ہے۔ مسلکوں کی تختیوں پر اسلامی تعلیمات کی بوٹا کناری کی جاتی ہے اور پھر بے گناہ انسانوں کے خون سے کوچہ وبازار رنگین کرنے کے بعد اُسے اسلام اور کفر کے مابین معرکہ ثابت کیا جاتا ہے۔ معصوم بچے کے سامنے باپ کو گاڑی سے اُتار کر خون میں نہلا دینا ، بہنوں اور ماﺅں کے سامنے نوجوان بھائیوں کو بسوں سے اُتار کر گولیوں سے بھون دینا ہمارے نزدیک اسلام ہے۔ معصوم بچوں، عورتوں اور مسافروں کو بربریت کا نشانہ بنانا دین کی عین خدمت ہے۔پتھروں اور ڈنڈوں سے بے بس انسانوں کا قیمہ بنادینا عین جہاد ہے۔ اگر یہ اسلام ہے تو وہ کیا تھا جو چودہ سو سال پہلے سرزمین عرب میں پیش کیا گیا؟؟
گلگت بلتستان کی سرزمین میں دو بڑے مسالک کے لوگ اکثریت میں ہیںاور دونوں کا دعویٰ ہے کہ وہ قرآن ا ورسنت کے علمبردار ہیں ۔اور ہر دو فرقوں سے تعلق رکھنے والوں کا ایک ایک فعل جو تقریباً تیس برسوں پر محیط ہے، تاریخ کے اوراق پر نقش ہوچکا ہے۔ آئیے ذرا ہم اپنے قول وعمل کو قرآن وسنت کی تعلیمات سے موازنہ کرکے دیکھتے ہیں اور ضمیر کے آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر اپنے آپ سے یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا ہمارا کردار قرآن وحدیث سے میل کھاتا ہے۔
قرآن کہتاہے”جو غصہ پی جاتے ہیں اور دوسروں کے قصور معاف کرتے ہیں ایسے نیک لوگ ہی اللہ کو پسند ہیں”(سورة نمبر 16آیت 25) اگر ہم غصہ پی جاتے اور دوسروں کے قصور معاف کرتے تو آج سینکڑوں گھروں میں ماتم بپا ہوتا ؟ یتیم بچے سڑکوں پر رُلتے ؟ بیوہ عورتوں کے بین سنائی دیتے؟ پھر بھی ہم اپنے آپ کو اللہ کے پسندیدہ لوگوں میں شامل سمجھتے ہیں۔
قرآن کہتاہے”اور شہادت ہرگز نہ چھپاﺅ”(سورة توبہ آیت 93)سرعام لوگ قتل ہوتے ہیں ۔ لوگ اس منظر کودیکھتے ہیں مگر اُن کی زبانوں کے تالے عدالت کے روبرو نہیں کھلتے ۔یوں بے گناہ انسانوں کے قاتل سب کے سامنے دند ناتے پھرتے ہیں۔ اس جرم عظیم کے مرتکب ہونے کے باوجود ہم نہایت ڈھٹائی سے جھوم جھوم کر قرآن پاک کی صبح وشام تلاوت کرتے ہیں،گویااپنے ہر عمل کی نفی کا گلا پھاڑ پھاڑ کر اعلان کرتے ہیں۔
قرآن کہتا ہے “جو کام نیکی اور خداترسی کے ہیں اُن میں سب سے تعاون کرواور جو گناہ اور زیادتی کے کام ہیں اُن میں کسی سے تعاون نہ کرو”(سورة مائدہ آیت 2)کسی مسافر ، مزدور،بیمار اور کمزور شخص کو جان سے مار دینا اگر خداترسی اور نیکی کا کام ہے تو پھر تو واقعی ہم سب قرآن کے پیروکار ہیں ۔اگر ایسا نہیں ہے تو پھر زبانی دعوے اور خود فریبی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔
قرآن کہتا ہے”اے لوگو!جو ایمان لائے ہو اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کر دے کہ انصا ف سے پھر جاﺅ۔عدل کرو،یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔”(المائدہ آیت نمبر8) ہمارا انصاف یہ ہے کہ ہم نگر والے کے خون کا بدلہ چلاس والے سے اور چلاس والے کے خون کا بدلہ سکردو والے سے لیتے ہیں۔پھربھی خود کو عدل وانصاف کے آسمان پر براجمان تصور کرتے ہیں۔ اور حلقوم سے بنا سنوار کر “اور تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاﺅ گے”کی
صدائے مستانہ بھی بلند کرتے ہیں۔
میرے بھائیو!یہ تو تھیں ہماری قرآن پاک کے ساتھ نسبت کی چند جھلکیاں ۔ ہمارا دوسرا بڑا دعویٰ یہ ہے کہ ہم پروانہ شمع رسالت ہیں ۔محبوب ِ ربِ کائنات کے جانثار اور پیروکار ہیں ۔کیایہ محض دعویٰ ہے یا پھر ہمار ادعویٰ عمل کے سانچے میں بھی ڈھلا ہوا ہے۔ تو آئیے احادیث کے آئینے میں اپنے عمل کو جانچتے ہیں ۔”تم ایک دوسرے کے ساتھ بغض نہ رکھو۔ایک دوسرے سے پیٹھ نہ پھیرو اور اللہ کے لیے بھائی بھائی بن جاﺅ”(الحدیث)کیا بغض سے عاری اور آپس میں بھائی بھائی بن جانے والے ایک دوسرے کا گلا کاٹ سکتے ہیں؟ ایک
دوسرے پر گولیاں برسا سکتے ہیں؟
ایک اور جگہ ارشاد نبوی ہے”خدا کی قسم وہ مومن نہیں جس کے شر سے اُس کا ہمسایہ محفوظ نہیں۔ “کیا ہمارا ہمسایہ ہمارے شر سے محفوظ ہے ؟ کیا وہ ہمارے پڑوس میں سکون کی نیند اور چین کی زندگی گزار رہا ہے؟ کیا اُس کی عزت ، جان اور مال کے ہم محافظ ہیں ؟ اگر ہیں تو پھر لوگ ہجرت پر مجبور کیوں ہیں؟ گھر بار چھوڑ کر جائے پناہ کی تلاش میں مارے مارے کیوں پھر رہے ہیں؟ دربدر کی ٹھوکریں اُن کا مقدر کیوں بن جاتی ہیں؟ یہ سوال نہیں ہم سب کے منہ پر طمانچہ ہیں۔یہ وہ تلخ حقائق ہیں جو ہمارے دعوﺅں کی قلعی کھول دیتے ہیں۔
میرے بھائیو! میں مانتا ہوں کہ ہمارا یہ خطہ اپنی جغرافیائی محل وقوع کے طفیل عالمی طاقتوں کی نظر میں ہے۔ یہ وہ خطہ ہے جو چار ایٹمی قوتوں کا سنگم ہے ۔ یہ دنیا کی دوسری سپر پاور چین کے لیے تجارتی راہداری ہے۔ یہاں سے وسط ایشا ءکی تیل وگیس سے مالا مال ریاستوں کا دروازہ کھلتاہے۔ یہاں سے انڈیا ، پاکستان ، روس اور چین پر کڑی نظر رکھی جاسکتی ہے اور عسکری میدانوں میں انہیں یہاں سے قابو کیا جاسکتا ہے۔اس نیت کو عملی جامہ پہنانے کے لیے دور ِ حاضر کی اکلوتی سپر پاور یعنی امریکہ بہادر بھی مختلف بہروپ بھر کر یہاں اپنی بساط بچھا چکا ہے۔مگر غور طلب بات یہ ہے کہ اس بساط پر دھرے ہوئے مہرے کون ہیں؟عالمی طاقتوں کے مقاصد کی تکمیل کا ذریعہ کون بن رہا ہے؟
ایک عام آدمی بھی جانتا ہے کہ اس نظر نہ آنے والی جنگ کا ایندھن یہاں کے لوگ بن رہے ہیں ۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ چائنا پل کے ٹوٹنے کے ساتھ ہی عطا آباد جھیل کا وجود میں آنا ہماری آنکھیں کھول دیتا۔ہم یہ سوچتے کہ یہ واقعات صرف شاہراہ ریشم پر ہی کیوں ہورہے ہیں ؟سکردو یا غذر میں کوئی پہاڑ کیوں نہیں گرتا ؟ گانچھے یا داریل میں کوئی پل کیوں نہیں ٹوٹتا ؟ لوگ سکردو اور استور کے جاں بحق ہوتے ہیں مگر کرفیو گلگت میں لگتاہے۔ردِعمل نگر میں ہوتاہے۔حملے چلاس میں ہوتے ہیں۔سڑک وہ بند ہوجاتی ہے جس میں سے چائنا کی مصنوعات نے گوادر تک جانا ہے۔کیا ان چیزوں پر ہم غور نہیںکرتے ؟ شہر پرآشوب گلگت کا بچہ بچہ جانتاہے کہ سانحہ جلال آباد بھی امریکہ کے اشارے پر ہوا تھا ۔مگر بدقسمتی ہماری یہ ہے کہ اغیار کے منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا ذریعہ ہم ہی بنتے ہیں۔ ہماری مثال کبوتر کی سی ہے جو بلی کو سامنے دیکھ کر آنکھیں بند کر لیتا ہے۔
عزیزان من! ہم وقت کے نازک ترین مرحلے میں داخل ہوچکے ہیں ۔ آنے والے حالات وواقعات اس خطے کو مزید اضطراب کی دلدل میں دھکیل دیں گے ۔ عالمی طاقتوں کی بساط بچھ چکی ہے۔ ہر قوت اپنی چال چل رہی ہے۔ اور ہم جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں، قرآن کے پیروکار ،حکمت و دانائی کے وارث، محض پیادوں کی طرح عالمی شطرنج کے کھلاڑیوں کے اشاروں پر حرکت کررہے ہیں۔
میں دست بستہ عرض گزارہوں علمائے کرام سے کہ خدار اہوش کے ناخن لیجیے۔ اس قوم کے آپ قائدین ہیں ۔ لوگ آپ کی زبان سے نکلنے والے ایک ایک لفظ کو حکم ِ خداوندی سمجھتے ہیں۔ اور اُس پر لبیک کہتے ہیں۔ اپنے فرض منصبی کو کماحقہ ادا کیجیے۔ یاد رکھیے قائد اور رہنماوہ ہوتا ہے جو اپنی قوم کو فرعونوں کے عتاب سے بچانے کے ساتھ ساتھ حالات کی بے رحم موجوں سے بھی بچا کر منزل ِ مراد تک پہنچا دیتا ہے۔ خدارا انا کے کھول سے نکل کر زمین جیسا عجز اختیار کیجیے اور سنگینوں کے سائے میں کالی گاڑیوں میں آندھی اور طوفان کی طرح گزرنے کی بجائے سب کے لیے دستیاب رہیے۔تاکہ آپ کو احساس ہو کہ ایک عام آدمی کتنا غیر محفوظ اور خوفزدہ ہے۔ آپ جن ہستیوں کی پیروی کا دعویٰ کرتے ہیں وہ تو حالتِ جنگ میں بھی ہاتھوں کا تکیہ بنائے سوئے ہوئے مل جاتے تھے۔ جن کو ایک عام یہودی بھی قاضی ِ وقت کی عدالت میں لا کھڑا کردیتا تھا۔
عزیز بھائیو! میں نے حالِ دل الفاظ کی مالا میں پروکر آپ کی خدمت میں پیش کردیاہے۔ میں نہ عالم ہوں نہ دانشور نہ ہی بازارِ سیاست سے میرا کوئی تعلق ہے۔ میں اس شہر کے چند سرپھروں کے ساتھ اُٹھتا بیٹھتا ہوں ۔انسانیت ہمارا مسلک اور اسلام ہمارا دین ہے۔ ہم جب گھروں سے نکلتے ہیں تو اپنے اپنے فرقوں کی تختیاں گلے سے اُتار کر گھروں میں ہی چھوڑ آتے ہیں۔ آئیے ہم سب ملکر سوچیں کہ ہم کیا کررہے ہیں؟ ہماری منزل کیا ہے؟ ہمارا انجام کیا ہوگا؟ ہم خدانخواستہ کسی کے ہاتھوںکا کھلونا تو نہیں بن رہے ہیں؟ یاد رکھیے !کھلونے ٹوٹنے کے لیے بنتے ہیں۔اس سے پہلے کہ کوئی ہمیں توڑ کر پھینک دے۔
آﺅ مل کر سمیٹ لیں خود کو
اس سے پہلے کہ دیر ہوجائے

Related Articles

Back to top button