گوشہ اردو

گلگت بلتستان اور کشمیر

ہدایت اللہ آختر
ایڈمنسٹریٹر نارتھ لینڈ پبلک سکولز گلگت
جب بھی گلگت بلتسان کے بارے کچھ لکھنے بیٹھ جاتا ہوں تو ذہن میں ایک دم سے کشمیر کا مسلہ ابھرتا ہے ایسے میں خیالات کا تانا بانا گلگت بلتستان کے مسائل سے ہٹ کر اس الجھن میں کھو جاتا ہے کہ یا الہی یہ ماجرہ کیا ہے ۔ میں جس کو اپنا سمجھتا ہوں وہ مجھے اس لئے گلے سے لگانے کے لئے تیار نہیں کہ وقت آنے پر ایک مہرے کی طرح اس خطے کے ووٹ اپنے حق میں استعمال کرنے میں اسے آسانی رہیگی دوسری طرف کشمیری قیادت نے کبھی بھولے سے بھی اس خطے کی طرف توجہ نہیں دی انہوں نے عملی کام کے بجائے زبانی جمع خرچ سے کام لیا جس کے باعث آج یہاں کشمیریوں کے لئے کوئی اچھی رائے نہیں پائی جاتی ہے اور مزید اس پہ طرح یہ ہوا کہ کشمیر کے مسلے کو کچھ اس انداز سے پیش کیا گیا کہ اگر یہ علاقے کشمیر سے ملا دئے گئے یا کشمیر میں ان علاقوں کو نمائندگی دی گئی تو گلگت بلتستان کی حثیت کمزور ہو جائیگی یا ان کا وجود ختم ہوجائیگا ۔۔گلگت بلتتان کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ یہاں کے لیڈر ابھی تک اس کے بنیادی مسلے کو سمجھ ہی نہیں سکیں ہیں یا وہ اس مسلے کو سمجھنے سے قاصر ہیں یا وہ جان بوجھ کر اس کو سمجھنا نہیں چاہتے ۔۔اگر کبھی کوئی محقق یا لکھاری اس مسلے کو اجاگر کرتا ہے ہے تو گلگت بلتستان کے مفاد پرست اور چڑھتے سورج کی پوجا کرنے والے اس کو قسم قسم کے القابات سے نوازتے ہیں ۔۔۔۔1947کے داتا کھیل اپریشن جس کو یہاں کے لوگ آزادی کی تحریک کے نام سے یاد کرتے ہیں اپنے اندر بہت سے سوال سموئے ہوئے ہیں داتا کھیل اپریشن کے نتیجے میں آزاد ہونے والے اس خطے میں شروع دن سے ہی مذہبی منافرت کی داغ بیل ڈالی گئی اور ایک سازش کے تحت آسمان سے گرا اور کھجور میں اٹکا کے مصداق اس خطے کی آ ئینی حثیت کو لٹکتی تلوار کی طرح لٹکا کر رکھ دیا گیا اور ایک پاکستانی پولیٹیکل ایجنٹ کے تسلط میں دے دیا گیا اور کہا یہ گیا کہ یہاں کے عوام کی مرضی کے مطابق اس علاقے کو پاکستان سے الحاق کیا گیا ہے لیکن اس کا کوئی دستاویزی ثبوت کہیں بھی موجود نہیں ۔۔۔1947 کے اپریشن کے بعد گورنر گھنسارا سنگھ کی گرفتاری اور راجہ شارئیس خان کو ایک آزاد ریاست کے صدر بنائے جانے کے اقدام کو اس وقت کی برطانوی حکومت نے پسند نہیں کیا تھا اور اس وقت کے برطانوی کمانڈنگ آفیسر میجر برون کی سرزنش بھی ہوئی تھی ۔۔۔اس چپقلش میں اس ریاست نے بڑی مشکل سے پندرہ دن گزارے ان تمام سازشوں کا عوام کو معلوم ہی نہیں ہوسکا ۔وہ جس دلیری اور بہادری سے اپنے اس خطے کو دشمن سے آزاد کرانے پر تلے ہوئے تھے اس سے زیادہ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار میجر برون میتھی سن درانی مجید جلد سے جلد اپنے عزائم کی تکمیل کرانے کے چکروں میں جتھے ہوئے تھے ۔۔یوں تراگبل اور کارگل تک پیش قدمی کرنے والے قبائلوں اور جان نثاروں کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت تراگبل سے آگے جانے نہیں دیا گیا اور ان کو وہاں پر لغویات میں مصروف رکھا گیا اور یوں ایک جیتی ہوئی جنگ کو جان بوجھ کر ہار میں تبدیل کیا گیا۔۔۔۔ اب آئیں موجودہ دور اور صورت حال پر 1947 سے لیکر اب تک پاکستان نے ان علاقوں پر خوشی سے مہربانیاں نہیں کی ہیں بلکہ مجبوری کے تحت مختلف اوقات میں عوام کو بیوقوف بناتے ہوئے مختلف اصلاحات اور تجربوں کے ذریعے ٹال مٹول سے کام لیتے ہوئے ایڈھاک ایزم پر آقا اور غلام کا رشتہ قائم رکھا ہوا ہے۔
2009 میں ایک اور غیر آئینی پکیج کے تحت ایک صوبائی طرز کا سیٹ اپ دیا گیا ہے لیکن در پردہ صورت حال اسی طرح سے ہی ہے جیسے پہلے تھی اب بھی یہ خطہ ایک انجنسی کی صورت میں برطانوی حکومت کے بجائے پاکستان کی نگرانی میں ہے جیسے یہاں کے قدیم حکمران برطانوی آقاﺅں کے اشاروں پہ ناچتے تھے اب موجودہ حکمران پاکستانی آقاﺅں کے کٹھ پتلی بنے ہوئے ہیں اس فرق کو جاننے والے ہی جان سکتے ہیں لیکن مفاد پرست ٹولہ اس بات کو جانتے ہوئے بھی میں نہ مانوں کی رٹ لگاتے ہوئے پاکستانی آقاﺅں کی غلامی کو اپنے لئے اعزاز سمجھتا ہے ۔بظاہر دیکھا جائے تو صوبہ کا نام بہت پیارا لگ رہا ہے اور چند احمقوں کی جنت میں رہنے والے یہ کہتے ہیں چلو کچھ نہ ملنے سے کچھ تو ملا ہے ۔اب ان کو یہ بات کون سمجھائے کہ صوبہ تو یہ پہلے سے تھا اور آئینی صوبہ جس کی پانچ سیٹیں کشمیر اسمبلی میں مخصوس تھیں جس کو جان بوجھ کر ایک پر ی پلان منصوبے کے تحت جس کا ذکر پہلے کیا گیا ہے اس کو بھنور میں ڈالا گیا ۔ جہاں سے اب نکلنا بہت مشکل نظر آتا ہے ۔گلگت بلتستان کا المیہ یہ ہے کہ اب تک آئینی حق کی سب سے بڑی رکاوٹ کی طرف کسی نے دھیان نہیں دیا ہے اور جب تک اس رکاوٹ کو دور نہیں کیا جائیگا پاکستان کا رویہ اس خطے کا ساتھ ایسا ہی رہیگا چاہئے اسلام اباد میں کسی کی بھی حکومت ہو ۔سیاسی لیڈر بنا سوچے سمجھے سیاسی بیانات سے عوام کو سبز باغ دکھاتے ہیں لیکن اس خطے کی جغرافیائی اور تاریخی حقیقت سے کسی کو آگاہ ہی نہیں کیا جاتا اور جب وہ بر سر اقتدار آتے ہیں تو مختلف حیلے بہانوں سے کام لیتے ہوئے اوپر اوپر سے اس خطے میں انتظامی لیپائی کی جاتی ہے اور اصل مسلہ وہی کا وہی رہ جاتا ہے ۔یعنی پولیٹکل ایجنٹ سے ریذیڈنٹ ریذیڈنٹ سے کمشنر، پھر چیف سکریٹری اور اب وزیر اعلی اور گورنر اب دیکھتے ہیں کہ آگے کون سا سیٹ اپ اس خطے کے نصیب میں آتا ہے اور اس کی کیسی لیپائی ہوتی ہے ۔کیا ہمارے یہ کہنے سے کہ ہم پاکستانی ہیں ہمیں پاکستانی بنایا جائے ۔ یا اس خطے کے عوام کو آئینی حق دیا جائے ، ان مطالبات پر پاکستانی حکمران مسلہ کشمیر اور یو این او کی قرارداد کے ہوتے ہوئے یا پاکستان کے آئین میں ترمیم کر کے اس خطے کو مکمل طور پر پاکستان میں شامل کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ اس کا سادہ جواب ایک عام آدمی بھی یہی دے گا نہیں ایسا پاکستان کے لئے ممکن نہیں ۔۔اور یہی گلگت بلتستان کا بنیادی اور مرکزی مسلہ ہے جس کو حل کئے بغیر ہماری چیخ و پکار بے سود اور بے کار ہے ۔۔اب ایسے میں یہ کہنا کہ نہیں ہمارا تعلق کشمیر سے نہیں ہماری الگ پہچان ہے ہمیں پاکستان میں شامل کیا جائے اپنا وقت برباد کرنے کے سوا کچھ نہیں ۔کیا یہ نہیں ہوسکتا کہ ہم ان تمام مطالبات کو چھوڑ کر اقوام متحدہ اور عالمی انصاف کے اداروں سے یہ مطالبہ کریں کہ اس بات کا فیصلہ کیا جائے کہ گلگت بلتستان کی شناخت کس سے ہے ۔کیا ہم کشمیری ہیں یا پاکستانی اور جب تک ہم مسلہ کشمیر سے اپنی جان نہیں چھڑائینگے ہم غلامی کی ہی زندگی بسر کرتے رہئنگے اور مفاد پرستوں کا ٹولہ اس خطے کی قسمت اور مستقبل سے کھیلتا رہیگا اور اپنی تجوریوں کو بھرتا رہیگا ۔۔۔۔

Related Articles

Check Also
Close
Back to top button