گوشہ اردو

وادی چپورسن – چہ پر سان

حیدر علی گوجالی 
آج کی اس برق رفتاری سے ترقی کرتی ہوئی دنیا میں انسانی سوچ اور عقل نے ایسا انقلاب برپا کر دیا ہے جو ایک عام آدمی کی سوچ اور سمجھ سے بالا تر ہے۔ سائنسی ایجادات نے انسان کی معیار زنددگی اور رہن سہن کے طرز کو یکسر بدل کر رکھ دیاہے ۔کہاں وہ پتھر کا زمانہ جہاں انسانی زندگی میں خوراک کی تلاش کے علاوہ کوئی اور مصروفیات نہیں تھیں ۔ لوگ صرف زندہ رہنے کی فکر کرتے تھے ©۔مگر آج کے اس جدید سائنسی دنیا میں سائنسی ایجادات اور نت نئے مشاہدات میں انسانی زندگی میں بہت سے اسائشات اور آسانیاں پیدا کی ہے ۔ ان ایجادات کی بدولت دنیا کے کسی بھی کونے میں رونما ہونے والے حالات و واقعات کو چند لمحوں میں گھر بیٹھے اپنے ٹیلی ویژن اسکرین پر دیکھ سکتے ہیں ۔ مواصلات کے نظام کو موبائل اور انٹرنیت جیسے ایجادات نے جتنا آسان بنایا ہے یہ کسی کے سوچ سے بالا تر ہے ۔ انٹرنیٹ نے پوری دنیا کو لا کر ایک ڈیسک ٹاپ میں سمو دیا ہے ۔ پوری دنیا ایک گلوبل ویلیج بن گئی ہے ۔ اورسیاست ، تجارت ، صنعت ، ثقافت ، محبت اور نفرت سب کچھ موبائل فون اور انٹرنیت کی بدولت بہت آسان ہو گئی ہے ۔
مگر آج کے اس جدید دور میں دنیا میں ایسے لوگ بھی بستے ہیں جو ان سائنسی ایجادات سے بالکل ناواقف ہیں ۔ اس کی کئی وجوہا ت ہو سکتی ہیں ، یا تو حکومت وقت نے ان علاقوں کے لوگوں کو ان سہولیات زندگی سے محروم رکھی ہے یا یہا ں کے عوام یا عوامی نمائندے نہیں چاہتے ہیں کہ یہ علاقے ترقی کریے اورجدیدآسائشات سے آشنائی ہو ۔
میرا اشارہ گلگت بلتستان کے ضلع ہنزہ نگر کے انتہائی شمال میں واقع وادی چپورسن کی طرف ہے ۔پانچ ہزار کے لگ بھگ آبادی پر مشتمل یہ وادی بھی اس جدید دور کے سہولیات زندگی سے محروم ہیں ۔ اور یہ علاقہ ہر دور حکومت میں ہمیشہ محرومی کا شکار رہا ہے ۔ کسی بھی حکومتی نمائندہ نے اس کی ترقی اور خوشحالی کے لئے کوئی قدم اٹھا نا غنیمت نہیں سمجھا ۔یہاں کے باشندے پہلے سے ہی بہت سے مسائل میں گرے ہوئے تھے، اور سانحہ وعطاءآباد کی وجہ سے ان کی پریشانﺅں میں مذید اضافہ ہو گیا ہے مہنگائی کی بڑھتی ہوئی شرح ، قوت خرید اور آمدن میں کمی ، مارکیٹ سے دوری اور زرائع آمدورفت بہتر نہ ہونے کی وجہ سے اشیاءخوردونوش و دو دیگر زروریات زندگی کے حصول بہت مشکل ہو گیا ہے ۔ یہا ں لوگوں کے آمدنی کا انحصار آلو کے کاروبار پر تھا لیکن عطاءآباد جھیل بننے کے بعد یہ کاروبار با لکل ختم ہو چکا ہے۔
اسی طرح ذرئعہ آمدنی میں کمی کی وجہ سے یہا ں کے تعلیم اور صیحت کے شعبوں پر گہرا اثر پڑا ہے ۔
قدرتی حسن سے مالا مال چپورسن وادی سیاحت سے محروم ہے

جدید سہولیات کی اگر بات کی جائے تو وادی چپورسن میں ایک ٹیلی فون لائن بھی موجود نہیں ہے، موبائل فون اور انٹرنیٹ تو یہاں کے لوگوں کے خواب و خیال میں بھی نہیں ہے۔ ایک فون کال کرنے کے لئے چالیس سے پچاس کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے سوست آنا پڑتا ہے جس میں زر مبادلہ کے ساتھ ساتھ وقت کا بھی ضیاں ہوتا ہے۔ چپورسن سے سوست تک ایک طرف کا کرایہ ڈھائی سو سے تین سو روپے ہے، اسی طرح ایک فون کال کے لئے تقریبا©© ایک ہزار روپے خرچ ہو جاتا ہے ان اخراجات کو اگر مہینوں اور سالوں کے حساب سے دیکھا جائے تو لاکھوں کا سرمایہ خرچ ہو جاتا ہے ۔

اسپیشل کمیونیکیشن آرگنائزیشن (SCO) نے تقریبا چار سال پہلے چپورسن میں موبائل فون سروس فراہم کرنے کی منظوری دی تھی موبائل فون کے ٹاور کے لئے جگہ کا بھی انتخاب کیا جا چکا ہے ۔مگر یہ منصوبہ نا معلوم وجہ سے تا حا ل التوا کا شکار ہے ۔چپورسن سے کئی وفود ایس کام کے حکام سے ملے، لیکن انکی طرف سے تا حال کوئی مثبت پیشرفت نہیں ہو رہی ہے۔ اگست ۲۱۰۲ ءکے مہینہ میں ایس کام نے اس منصوبہ کے لئے تقریبا ساڑھے تین کروڈ روپے کا بجٹ بنا کر خود اور بذرئعہ چپورسن کے وفد، گلگت بلتستان اسمبلی کے اسپیکر اور حلقہ ءہٰذا کے نمائندہ وزیر بیگ صاحب کے خدمت میں پیش کیا ۔ لیکن حکومت اور حکومتی نمائندوں کی طرف سے اس پر تا حال کوئی پیش رفت نہیں ہو رہی ہے ۔ اس سلسلے میں چپورسن سے کئی وفود بارہا اسپیکر صاحب اور ٹیکنو کریٹ مطابعت شاہ صاحب سے ملے ، مگر ان کی طرف سے یقین دہانیوں کے علاوہ کوئی مثبت جواب نہیں ملتی ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ اس دور حکومت میں بھی چپورسن کے عوام صرف یقین دہانیوں پر گزارہ کر یں گے ۔
چپورسن عوام کےلئے ایک اور پریشان کن بات یہ ہے کہ سیاحت کے شعبے سے جو آمدنی حاصل ہوتی تھی ، حکومت وقت نے اس پر پابندی لگا دی ۔ وہ لوگ جو سیاحت کے شعبے سے منسلک تھے ان کے روزگار ختم ہو گئے ۔ اب کسی بھی غیر ملکی سیاح کو نا معلوم وقت تک چپورسن کے حدود میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے ۔ وادی چپورسن کو انتہائی حساس علاقہ قرار دے کر یہاں سیاحت پر پابندی لگانے کی وجہ بھی معلوم نہیں ہے ۔ حکومت اور دیگر خفیہ ادارں کی ملی بھگت سے اس علاقہ کو انتہائی حساس قرار دینا اور سیاحت پر پابندی عائد کرنا یہاں کے لوگوں کو مزید غربت اور افلاس کی طرف دھکیلنے کے مترادف ہے ۔حکومت نے اگر اس وادی کو انتہائی حساس علاقہ قرار دیا ہے تو یہاں کمیونیکیشن ، ذرائع آمدورفت اور تعلیم و صحت کی بہترسہولیات بھی فراہم کرنی چاہئے ۔تا کہ یہاں کے باشندے اس حساسیت کا شکار نہ ہو ۔ مگر الیکشن کے بعد کسی بھی حکومتی نمائندہ نے اس وادی کا دورہ نہیں کیا ہے تاکہ یہاں کے لوگوںکے پریشانیوں اور مصیبتوں کو محسوس کر سکیں۔
پابندیوںکا سلسلہ یہاں تک ختم نہیں ہوتا، یہاں کے لوگوں کے روزگار اور آمدنی کا ذرئعہ معدنیات کے شعبے سے منسلک تھیں ۔ ملکی اور غیر ملکی کمپنیاں اس وادی میں معدنیات کی تلاش اور مائننگ کے لئے سرمایہ کاری کے خواہش مند ہیں ۔چند کمپنیوں کے ساتھ محنت مزدوری کر کے یہاں کے لوگ اپنے بچوں کی تعلیم اور صحت کے علاہ دیگر ضروریات زندگی پورا کرتے تھے ۔ لیکن حکومت وقت نے اس پر بھی پابندی لگا کر ان سے آمدنی اور روزگار کا ذرئعہ چھین لیا ۔ بقول حکومتی نمائندوں کے”اس وادی میں کئی قیمتی معدینیات موجود ہیں ، جو کسی کے ہاتھ میں نہیں جانا چاہئے ۔۔۔مگر انہیں یہ شاید معلوم نہیں ہے کہ ، ہیاں کے بچے آمدنی نہ ہونے کی وجہ سے تعلیم اور صحت جیسے قیمتی زیورات سے کس طرح محروم ہوتے جا رہے ہیں ۔ اگر یہاں کے غریب عوام کو اس شعبہ میں روزگار کے مواقعے دئے جائیں تو یہ بہتر طریقے سے اپنے بچوں کی پرورش کر سکیں گے ، ان کو بہتر تعلیم اور صحت دے سکیں گے جو ان معدنیات سے کئی گنا قیمتی ہیں ۔
وادی چپورسن کو ایک کچی رابطہ سڑک شاہراہ قراقرم سے ملاتی ہے ۔ اس کی تعمیر 1986 میں ہوئی ، اس کی لمبائی تقریبا ۵۶ کلومیٹر کے لگ بھگ ہے ۔ اس سڑک کی دیکھ بھال کے لئے قلیوں کی ۵۳ سینکشن پوزیشن ہیں جن میں سے صرف ۹کو بھرتی کیا گیا ہے اور باقی اسامیاں خالی ہیں ۔ یہ جیپ ایبل روڈ سردیوں کے موسم میں برف باری اور گرمیوں میں آس پاس کے نالوں سے بہنے والے پانی کی بدولت ہمیشہ شدید موسمی حالات سے متاثر ہوتی ہے ۔ اس سڑ ک کے مرمت اور کشادہ کرنے کے لئے سرکار کی طرف سے کئی منصوبوں کی منظوری دی گئی ، مگر ٹھیکہ دارں اور نمائندوں کہ ملی بھگت سے یہ فنڈ خرچ ہونے کی بجائے تقسیم در تقسیم جیبوں میں چلے گئے ۔ اور یہ منصوبہ تا حال نا مکمل ہیں ۔ ان ٹھیکہ دارں سے بھی کوئی پرسان نہیں ہے ، جو یہ فنڈز کھا کر بھاگ گئے۔ چپورسن روڑ پہ مختلف نالوں پر چھوٹے چھوٹے پل تعمیر کرنے کے لئے بھی کئی اسکیموں کی منظوری ہوئی لیکن نمائندوں کی غفلت اور ٹھیکہ داروں کہ خرد برد کی وجہ سے ان منصوبوں پر کام نہیں ہوا ۔ بلآخر مجبور ہو کر چپورسن کے عوام نے اپنی مدد آپ کے تحت ان نالوں پر پل تعمیر کئے۔اس کی مثال پچھلے سال سیکر کے مقام پر پل بنانے کے لئے حکومت کی طرف سے تقریبا گیارہ لاکھ روپے کی منظوری ہوئی ، اور اس کا ٹھیکہ نگر سے تعلق رکھنے والے ٹھیکہ دار اسماعیل کو دیا گیا ۔ اس نے بھی روایت کو برقرار رکھتے ہوے اس رقم سے اپنے جیب بھر دئے۔ اور اس منصوبہ کا آغاز بھی نہیں ہو سکا۔ اسی طرح چپورسن عوام اور والنٹیرز نے مل کر یہا ں پل تعمیر کیا ۔
سڑک کی اچھی طرح مرمت نہ ہونے کی وجہ سے یہاں کئی حادثات رونما ہوتے ہیں، ان کی وجہ سے کئی قیمتی جانیں ضائع ہو چکے ہیں ۔
چپورسن کے عوام کی طرف سے کئی وفود متعلقہ حکا م کی خدمت میں حاضر ہوئیں ، مگر تا حال یہاں بھی یقین دھانیوں کے علاوہ کوئی عملی اقدامات نظر نہیں آرہی ہے ۔
الیکشن کے دنوں میں تمام سیاسی پارٹیوں کے نمائندے حقدار بن کر ووٹ کے حصول کے لئے جب وادی چپورسن میں جگہ جگہ شایان شان اجتماعات کا انعقاد اور شعلہ بیان تقاریر کرتے ہیں ، تو یہاں کے سادہ لوح لوگ تالیاں بجانے اور داد دینے میں کوئی کثر باقی نہیں چھوڑتے ، رنگا رنگ پٹیاں باندھ کر ، جھنڈے لہرا کر اور پوسٹرز لگا کر اپنے اپنے پارٹیوں سے اس طرح دلی وابستگی کا اظہار اس طرح کرتے ہیں کہ ، بھائی بندی اور رشتہ داریاں بھی بھول جاتے ہیں ۔ اسی طرح وادی کی فضا ء سیاسی نعروں سے گونج اٹھتی ہے۔ سیاسی نمائندے اپنے اپنے منشور اس طرح چمکا چمکا کر پیش کرتے ہیں ایسا لگتا ہے تمام مسائل حل ہو گئے ۔
مگر جب الیکشن کے دن گزر جاتے ہیں اور کسی نمائندہ کی جیت ہو تی ہے تو چند لوگ مہینوں تک اپنے پارٹی کے امیدوار کی کامیابی کی خوشیاں منانے میں اپنا وقت ضائع کرتے ہیں ، تو ہارنے والے پارٹی کے کارکنان غم اور ناکامی کے اسباب ڈھونڈنے میں اپنے قیمتی وقت کا ضیا ں کرتے ہیں۔ کامیاب ہونے کے بعد یہ ووٹ کے حقدار امیدوار اپنے کئے گئے وعدے قسمیں سب بھول جاتے ہیں ۔ انہیں عوام کا خیال آتا ہے نہ ہی ان کے مسائل کے۔ واپس اس علاقے کا دورہ کرکے پارٹی کے وفاداروں کے حالت زار دیکھنے اور الیکشن کے دوران کئے گئے اخراجات کو ان جذباتی کارکنوں کو ادا کرنا تو دور کی بات ہے ، بلکہ ان کارکنوں کو ان اخراجات کے پیسے لینے اور ان کامیاب امیدواروں سے ملنے کے لئے بھی کئی مہینے انتظار کرنے پڑتے ہیں ۔
آخر میں مایوس ہو کر آئندہ انتخابات اور نئے حکومت کی آمد کے منتظر ہوتے ہیں کہ شاید کوئی ایسی حکومت یا عوامی نمائندہ آ کر یہاں کے لوگوں کے مسائل حل کریں ۔
پرانے تجربے اور تلخیوں کہ وجہ سے اب چپورسن کے نوجوان طبقوں میں کچھ شعور آنے لگا ہے کہ آئندہ الیکشن میں اپنے قیمتی ووٹ کا کس طرح استعمال کرنا ہے ۔ اگر چپورسن میں ترقی آ سکتی ہے تو وہ صرف اور صرف نوجوان طبقے کی کوششوں سے ہو ممکن ہے ۔
ضرورت اس امر کہ ہے کہ وادی چپورسن کے نوجوان طبقے ہوش میں آئیں اور دیگر تعصبات سے پاک ہو کر اس دور افتادہ اور پسماندہ وادی میں معاشی ،معاشرتی اور سب سے بڑھ کر سیاسی تبدیلی لانے میں اپنا مثبت کردار ادا کریں ۔
لیکن آئندہ آنے والے الیکشن میں جھوٹے وعدے اور جذباتی تقاریر سے عوام کو بے وقوف بنانے کا پرانا طریقہ شاید کارگر ثابت نہ ہو ۔۔
E- mail : haidertajik@gmail.com

Related Articles

7 Comments

  1. chalye derr ahyed durst ahyed wali batt a //kamse kam khyalat me tabdily ahne lage a ap k statement bohat acha a well done

  2. Thanks dear zaqyor, hamaray masayil ko ujagar karney ka,

    youth ko is pr bhar poor ghour karnay ki zaroorat hai…..

  3. Dear Haider, well done we need to raise our voice in every appropriate forum to make the concerned authorities know what sort of difficulties we are facing although being in this era. Keep it up.

Back to top button