گوشہ اردو

گلگت بلتستان پر ثقافتی یلغار – حصہ دوئم

تحریر: مولامدد قیزل

 یہ کوئی نیا اندازِ واردات نہیں بلکہ صدیوں سے چلا آیا ہے اور یہ انداز اہل مغرب اور اہل مشرق دونوں نے ہم پر خوب آزمایا ہے۔ اہل مغرب اپنے جدید وسائل سے اپنی ثقافت ہم پر مسلط کرنے کی منظم کوشش میں ہیں، جبکہ اہل مشرق (عرب اور ہند) عقائد کے نام پر ہماری ثقافتی پہچان، ہمارے تشخص ہم سے چھین لینے میں مگن ہیں۔

 ہم اہل مغرب کی رنگا رنگ دنیا میں کھو گئے ہیں۔ ہم نے خود ہی Modernism یعنی جدیدیت کے نام پر ان کی ثقافت کو اپنانا شروع کیا ہے۔ ہم اپنی ثقافت سے کوسوں دور بیٹھ کر یہ سمجھتے ہیں کہ مغربی طرز زندگی اور ان کی ثقافت و تہذیب اپنا کر دنیا میں سرخرو ہوں گے ، کامیاب ہوں گے، مگر اس احساس سے یکسر عاری ہوچکے ہیں کہ ہم وہ غلام بن چکے ہیں جو سمجھتا ہے کہ اگر اس کا مالک اسے آزاد کرے تو اسے محنت و مشقت کرنا پڑے گا، پھٹے پرانے کپڑے پہننے پڑیں گے، کچے گھر میں رہنا پڑے گا، گویا وہ عقاب سے گر کر کرگس بن جاتا ہے جو حرام جانور یعنی مردار پر زندگی بسر کرتا ہے۔ اہل مغرب کے دلدادہ اس بات سے بے خبر ہیں کہ جب کسی قوم کی ثقافت زوال اور انحطاط کا شکار ہوجاتی ہے یا وہ اپنا ثقافتی تشخص گنوا بیٹھیں تو اغیار سے ملنے والی خوشی انہیں ان کا حقیقی مقام نہیں دلا سکتی۔ کیونکہ جب کوئی ثقافتی و تہذیبی غلبہ حاصل کرتا ہے تو اس معاشرے کے تشخص پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔ اور یوں اس کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ آج ہم اپنے آباو اجداد پر فخر اس لیے کرتے ہیں کیونکہ انہوں نے کسی بھی قیمت پر تہذیب و ثقافت کا سودا نہیں کیا۔ اس لیے وہ باوقار ، قوی و توانا، عالم و دانشور ، فنکار و ہنرمند اور عالمی سطح پر محترم اور بامشرف ہیںاور ذرا ہم اپنی حالت حاضرہ کا مطالعہ کریں تو ہم مذہب، عقیدہ،زبان، نسل اور علاقے کے نام پر ایک دوسرے کے نہ صرف دست وگریبان ہیں بلکہ ہم میں درندگی، حیوانیت اور دہشت گردی جیسے منفی صفات کے حامل ہو چکے ہیں ۔

 ہمیں تحقیق کرنے کی ضرورت ہے، سوچ و فکر کی ضرورت ہے کیونکہ جہاں ہم اہل مغرب کی رنگارنگی میں کھو گئے ہیں، وہاں ہمیں اہل مشرق نے مذہب اور کلچر کی بحث میں الجھا دیا ہے۔

ثقافت اور دین کا آپس میں کیا تعلق ہے؟

ہم نے دین اور مذہب کے نام پر جہالت میں اپنے تشخص کو بگاڑ دیا ہے۔ نوجوان نسل کو اس پہلو پر غوروخوض کرنے کی ضرورت ہے اورآواز بلند کرنے کی جرات پیدا کرنی چاہئے۔ اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے ، اس کو کسی مخصوص قوم یا کسی نسل کے ساتھ مخصوص نہیں کیاجاسکتا۔ دین ہمارے معاشرے کا باطنی پہلو ہے اور دین ہمارے کلچر کے بہت سے اجزا ءکو متعین نہیں کرتا۔ اس لیے مختلف اسلامی ممالک کی تہذیبیں یا کلچر ایک دوسرے سے نمایاں طور پر الگ الگ ہیں۔ مثال کے طور پر ایرانی کلچر یا تہذیب وہ نہیں جو مصر کی تہذیب یا کلچر ہے۔ یا انڈونیشیا یا سوڈان کی ہے۔ عربی کلچر وہ نہیں جو دوسرے اسلامی ممالک کا ہے۔ ثقافت اور تہذیب کے ان حصوں میں مذہب یا دین کا کوئی تعلق نہیں، جن کا تعلق قومیت سے ہے۔

 دین اسلام اس گونا گونی (Diversity)کی قدرکرتاہے ۔ اس لیے ہم کسی ایک ملک کی تہذیب یا ثقافت کو اسلامی تہذیب یا ثقافت نہیں کہہ سکتے۔ گلگت بلتستان کے کسی بھی طبقئہ فکر کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی ایک مخصوص انداز فکر کو اسلام سے منسوب کریں۔مذہب ایک انفرادی اور باطنی سوچ و فکر کا نام ہے جو بندہ اور اس کے مالک یعنی خدا کے ردمیان کا معاملہ ہے۔ آج اگر ہم بکھرے ہیں، تو اس کی ایک اہم وجہ یہ مذہبی سوچ ہی ہے جس کو ہم نے ایک دوسرے پر مقدم جاں کر اغیار کے بتائے ہوئے احکام اور انکے تہذیب و ثقافت کے رنگ میں رنگنے کی کوشش ہے.

 گلگت بلتستان ایک منفرد تہذیب و ثقافت کا حامل خطہ ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہم اپنے ثقافتی تشخص سے نکل کر اغیار میں گم ہوتے جار ہے ہیں۔ وہ معاشرے ، قوم ، افراد یا گروہ گمنام ہوجاتے ہیں جو دوسری قوموں کی شناخت اور تہذیب کو اپنا کر ہستی اور بقاءکی کوشش کرتے ہیں، ان کی مثال ایسے درخت یا سوکھے ہوئے درخت کی شاخوں کی طرح ہے جن کو گلگت بلتستان کے لوگ عموماً انگور کے درخت کے نیچے کھڑا کرتے ہیں جن کے کاندھے اور سروں پر انگور کا درخت پھل دیتا ہے۔ گویا یہ سوکھی ہوئی لکڑیوں کی مانند ہوتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے آپ کو بھی دھوکہ دیتے ہیں اور دوسروں کے مذاق کا نشانہ بھی بنتے ہیں۔ ثقافت تباہ کب ہوتی ہے؟ جب کوئی گروہ ، سسٹم ، ایک مخصوص طبقہ، سیاسی، ذاتی اور انفرادی مقاصد یا مفادات کے لیے کسی قوم کو اسیر بنائے۔ اس کی ثقافتی بنیادوں کو نشانہ بنائے۔ ان کی ثقافت کو قدیم اور پرانا ظاہر کرکے ترمیم کے نام پر اپنی ثقافت، نئی چیزیں او ر افکار متعارف کروائے اور انہیں وقت کے ساتھ ساتھ مستحکم کرنے کی کوشش کرے۔اورلوگ اسے بغیر سوچ و فکر کے قبول کرتے ہیں۔ اس کو ثقافتی یلغار کہتے ہیں۔ یہ سقوط ، بربادی اور زوال کی نشانی ہے۔ اگر ایسے موقعوں پر اہل علم ، دانشو ر اور نوجوان خاموش رہیں تو ان کی آنے والی نسل غلام اور بے نام رہ جاتی ہے۔

—- جاری ہے ۔۔۔۔۔۔

Related Articles

5 Comments

  1. dear I am appreciating to interlink such a modern and applicable word diversity to our society…..we need to understand and feel it among us…….

  2. آپ ایک لحاظ سے بالکل ٹھیک بات کہ رہے ہیں کہ ہمیں اپنے اندر سے پر اعتماد ہونا چاہئیے اور اپنی ثقافت کو آگے لانا چاہئیے۔ مثال کے طور پر سندھی ثقافت، ان کے کپڑے، میوزک اور ڈانس وغیرہ ایک قدیم دنیا سے ہمارا رابطہ ہیں۔ مزاہب کو سیکھنا چاہئیے سمجھنا چاہئیے۔ ان کو خود پر لاد کر دنیا میں آگے بڑھنے کی کوشش کرنا ایک بے وقوفی ہے۔ یہ اس وقت کی حقیقت ہے کہ مغرب ہم سے آگے ہے اور وہ اس لئیے کہ انہوں نے اپنی غیر ضروری پرانی چیزوں کو پیچھے چھوڑ دیا۔ پہلے مغربی خواتین پتلون نہیں پہنتی تھیں اس کو بہت برا سمجھا جاتا تھا۔ خواتین ووٹ بھی نہیں ڈال سکتی تھیں 1921 سے پہلے امریکہ میں۔ تو انہوں نے خود ترقی کی اور آگے بڑھے۔ مغرب کی یہ خوبی ہے کہ وہ مشرق سے چیزیں لینے کے لئیے تیار ہے اور انہوں نے لی ہیں جب بھی ہم آگے تھے۔ مثلا” سائنس اور طب وغیرہ۔ اس وقت وہ ہم سے آگے ہیں تو ہمیں بھی ان سے سبق سیکھنا چاہئیے۔ یہ صرف ہماری روشن خیالی ہی ہوگی۔

  3. میرے خیال میں آپ یہ غلط سمجھ رہے ہیں کہ ہمارے آباؤ جداد ایک فوٹو گراف کی طرح مستقل تھے حالانکہ ایسا ناممکن ہے۔ لوگ بدلتے رہے ہیں اور اسی طرح دنیا غاروں سے نکل کر یہاں تک پہنچی ہے۔ زبانوں کے ماہر بتاتے ہیں کہ کس طرح کون سی زبان کہاں سے شروع ہوئی اور کس طرح بدلتی گئی۔ اسی طرح جنیٹکس کی سٹڈی سے پتہ چلتا ہے کہ دنیا میں 30 ملین لوگ چنگیز خان کی اولاد ہیں۔ جین یہ بھی بتاتے ہیں کہ کہاں سے انسان کہاں پہنچے۔ اردو صرف پانچ سو سال پرانی ہے۔ اب کیالے کر چلا جائے اور کیا پیچھے چھوڑ دیا جائے تو نہایت مشکل سوال ہے۔ یہ فیصلہ اگر لوگ اپنے حالات کے مطابق ہی کریں تو بہتر ہے۔ اور حالات تو ہر انسان کی ذاتی صورت حال پر مبنی ہیں۔

  4. مشہور چینی کہاوت ہے کہ جب ہوا چلتی ہے تو کچھ لوگ اپنے گھروں کے گرد دیوار اونچا کرتے ہیں اور کچھ ہوا پر چلنے والی چکی لگا دیتے ہیں۔
    فرق صاف ظاہر ہے۔
    تبدیلی سے خوفزدہ معاشرے جمود کا شکار رہتے ہیں یا پھر قدامت پرستی میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ آج جسے ثقافتی ورثہ کہا جاتاہے کل تک وہ فقط ایک ضرورت، معاشی وسائل کا اظہار اور اس وقت موجود ٹیکنالوجی کا مظہر تھا۔ لیکن آج وہ قدیم، عام عادات اور اشیا ہمارے بہت سارے دوستوں کے لیے مقدسات کی شکل اختیار کرگئے ہیں۔
    میں نہیں کہتا کہ نوجوان اپنے روایات سے مکمل طور پر ہٹ جائے لیکن روایت پرستی بھی قدامت پسندی اور اجتماعی قنوطیت کی ایک شکل ہے۔
    یہ ایک حقیقت ہے کہ آج ٹیکنالوجی کی بدولت جو اشیا اور اجناس موجود ہے انکا تصور بھی کسی کے لیے ممکن نہیں تھا، حتی کہ مغربی ممالک بھی ان کا ادراک نہیں کر پاتے ہیں۔ کیا یہ ایک حقیقت نہیں ہے کہ موجود دور میں ایجادات بھلے دنیا کے کسی بھی کونے میں ہو رہی ہے، ان کے اثرات پوری دنیا میں ایک ساتھ نمایاں ہوتے ہیں، یا پھر پھیل جاتے ہیں۔
    ثقافت کو اجناس اور اشکال میں دیکھا اور پرکھا جائے گا تو زیاں کا احساس ہو گا، لیکن اگر ثقافت کو اقدار کی کسوٹی پر پرکھا جائیگا تو بہتر تجزیہ کاری ممکن ہو سکے گا۔
    اگر دیکھا جائے تو گلگت بلتستان کے لوگوں کے لیے اردو زبان بھی “ثقافت کی زبان” نہیں ہے، لیکن چونکہ گلگت بلتستان میں زبانوں کی بہت بڑی تعداد بولی جاتی ہے اسلیے لوگوں نے اپنی آسانی کی خاطر اردو اور انگریزی کو رابطے کی زبان کے طور پر قبول کر لیاہے۔ یہ تکثیریت اور ثقافتی لچک کی ایک زندہ مثال ہے اور صاحب مضمون کی یہ تحریر اس حقیقت کا آئینہ دار ہے۔
    اس طرح کے مباحثے لازمی ہیں تاکہ معاشرتی اصلاح کی گنجائش نکل سکے۔ پامیر ٹائمز کا اور اس مضمون کے خالق کا مشکور ہوں کہ انہوں نے قومی زبان کو گلگت بلتستان کی انٹرنیٹ صحافت میں اجاگر کرنے اور پروان چڑھانے کی بھر پور کوشش کی ہے۔

Back to top button