گوشہ اردو

راجہ حسین خان مقپون کی خدمات

محمدجان رحمت جان

دو عشرے پہلے گلگت بلتستان کی صحافت کا حال آج سے قدرے مختلف تھا۔ قارئین ہفتہ روزہ اخبارات و رسائل کے انتظار میں رہا کرتے تھے۔ کوئی بھی خبر کتنی ہی ضروری کیوں نہ ہو ڈاک اور فکس سے ہوتے ہوئے ہاتھ لگنے تک ہفتے لگ جاتے تھے۔ ہم اگر کچھ اور پیچھے جائیں تو حالات اس سے بھی ابتر تھے۔ جب میں پانچویں چٹھی جماعت کا طالب علم تھا اس وقت گاؤں کی لائبریری میں لائبریرین تھا۔ یہ کوئی صدی پہلے کی بات نہیں بلکہ 1995-96کی بات ہے۔ اُس زمانے ہم ہفت روزہ K-2کو اپنی لائبریری میں منگواتے تھے۔ ایک دن ہم نے ایک پڑے لکھے آدمی کو K-2لانے کو کہا توبولنے لگے یہ کیا چیز ہے؟ گلگت سے انہوں نے فون کیا کہ’’ یہ دو کلو(2KG)کا کوئی چیزہے کیا؟‘‘

M Janیعنی لوگ اس قدر اخبار وجرائد سے بے خبر تھے۔ اس قدر مشکل حالات میں مقپون صاحب نے ہمیں اپنے ہفت روزہ کے زریعے اخبار کی دنیا سے اگاہ کیا۔ نامصائب حالات‘ پرنٹ سے مطلق مسائل کے باوجود اپنی قوم کو شعور دنیا ان کا سب سے بڑا کارنامہ ہے۔ گلگت بلتستان کا علاقہ عرصے تک ذرائع آمدرفت اور مواصلاتی رابطے سے محروم رہا ہے جس کی وجہ سے یہاں کے عام لوگوں کی صحافت تک رسائی بھی دیر سے ہوئی۔ زیادہ تر لوگ شہر سے اخبار لیکر آتے تھے اور ہم پرانے اخبارات بڑے شوق سے پڑھتے تھے۔ اس ہفت روزہ اخبار کے سپیشل ایڈیشنز کو ہم ہفتوں تک پڑھتے تھے۔ گلگت بلتستان کی صحافت میں دیگر اخبارات نے بھی بہت بڑا کردار ادا کیاہے لیکن آج ہم صرف کے ٹو پر لکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مقپون صاحب اور اس کی ٹیم نے مشکل وقت میں اس علاقے کی جو نمائندگی کی ہے وہ قابل رشک اور قابل ستائش ہے۔ اخبار سے نہ صرف گلگت بلتستان کے طول وعرض میں اگاہی ہوئی بلکہ پاکستان کے دیگر شہروں کے لوگ اور پردیسی سب اِس علاقے کے مسائل اور وسائل سے بھی اگاہ ہوتے رہے۔ یورپ اور ترقی یافتہ ملکوں کی تاریخ میں اخبار کا بڑا کردار ہے۔

تاریخ کی کتابوں میں عموماََ بادشاہوں اور شہنشاہوں کی باتیں ہوتی ہے لیکن اخبار وہ واحد ذریعہ ہے جہاں عام لوگوں کے مسائل کو بھی زیر بحث لایا جاتا ہے۔ اِس طرح اخبار میں نہ صرف مسائل لکھے جاتے ہیں بلکہ دن بدن کی داستان بیان کی جاتی ہے۔ علاقائی امن‘ تعلیم و ترقی‘ سماجی حالات‘ معاشی حالات‘ صحت و صفائی‘ کھیل کھود‘ سیاحت‘ کاروبار‘ فلم کی دنیا‘ جرائم اور دیگر خبریں ایک محقق کے لئے آنے والے دنوں میں معاشرے کی آئینہ بن جاتی ہے جس میں ماضی کا ایک ایک چیز نظر آنے لگتا ہے۔ صحافی ہر اُس مسئلے کا ذکر کرتے ہیں جو عام سے لیکر خاص تک کی ضرورت ہوتی ہے۔ صرف سیاسی لوگوں کے بیانات شہ سرخیوں میں بیان کرنا صحافت نہیں۔ غریب عوام اور عام معاشرے کی اچھائیوں اور برائیوں کو سامنے لانا بھی صحافی کا فرض بنتاہے۔ موجودہ تعلقات عامہ کی دور میں بعض اخبارات اشتہار کی خاطر صرف چند اداروں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ایسا رویہ اخبار کی حقیقی ترجمان نہیں۔ اخبار کی سب سے بڑی خوبی یہ ہوسکتی ہے کہ یہ عام و خاص کے وسائل ومسائل کی داستان بیان کرتاہے۔ ان کو معاشرے کے سامنے پیش کرتا ہے جو نہ صرف حکمرانوں کو معاشرتی مسائل و اسائل سے اگاہی دیتا ہے بلکہ تمام لوگ بھی اپنے معاشرتی مسائل سے روشناس ہوتے ہیں۔

اُس دن سے اب تک اِس اخبار کی فتوحات سے ہم اگاہ ہے۔ مقپون صاحب کی محنت رنگ لے آئی ہے۔ آج روزنامہ کی حیثیت سے یہ اخبار ہر صبح اپنے دامن میں تازہ ترین خبریں اور تجزیں لئے گلگت بلتستان کے علاقے میں پہنچ جاتا ہے۔ جس پودے کی آبیاری کسی بیانان میں ہوئی تھی وہاں آج ہر طرف سبزہ ہی سبزہ اور جنگل نظر آتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اب اس جنگل میں اپنی شناخت کو پہچانا جائے اور اپنی حقوق کی تحریک کو کانٹے دار اور چھپکنے والے بری چیزوں سے محفوظ کیا جائے۔ کے۔ ٹو سمیت تمام علاقائی اور قومی اخبارات کی اب ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے بانی سرپرستوں کے مقاصد اور اہداف کے ساتھ اُن کی فلاسفی کو زندہ رکھنے کی کو شش کریں۔ یہ کام اُس وقت ہوسکتا ہے کہ جب برابری اور انصاف کے ساتھ ہر علاقے‘ قوم ‘ نسل‘ رنگ‘ زبان‘ اور مذہب و فرقہ سے ہٹ کر انسانیت کی فلاح و بہبود کے لئے کام کیا جائیے۔ اس کار خیر میں جن لوگوں کی حصہ داری ہے ہمیں اُن کی حوصلہ افزائی کرنی ہوگی۔ مقپون صاحب کو نہ صرف ملکی بلکہ ہمارے صوبائی لیول پر بھی یاد کیا جانا چاہئے۔ صحافتی اداروں کو ملکر تمام ان تمام عظیم لوگوں سلام پیش کیا جانا چائیے جن لوگوں نے اس دنیا میں ہماری قیادت کی۔ کے۔ٹو اخبار کے انتظامیہ سے امید کرتے ہیں کہ وہ ہفتہ وار سپیشل اشاعت کا اہتمام کرے جس میں اس علاقے کے محسنوں کو باری باری یاد کیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ جمعہ شریف اور اہم قومی اور مذہبی تہواروں پر بھی خصوصی اشاعت کیا جائے تاکہ مذہبی ہم آہنگی کے ساتھ ساتھ قومی یکجہتی کو بھی فروغ دیا جائے۔ ہم امید کرتے کہ تمام اخبارات اس علاقے کی بہتری میں ماضی سے زیادہ وسیع قیادت فرمائیں گے۔ اس کالم کے آخر میں ایک بار پھرجناب حسین مقپون صاحب کی روح کی اصال ثواب کے لئے ہم سب دعاگو ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو اس کار خیر کا صلہ اُس دنیا میں نوازیں اور اُن کو اولاد کو اقوم و ملک کی خدمت میں استقامت عطافرمائیں۔

Related Articles

Check Also
Close
Back to top button