گوشہ اردو
عوامی مقامات پر چاکنگ
تحریر: محمدجان رحمت جان
ترقی پزیر ممالک اور ترقی یافتہ ممالک میں بنیادی فرق صرف ترقی کی وجہ سے نہیں بلکہ بہت بنیادی قدریں بھی مختلف ہیں۔ دنیا کے کئی ترقی یافتہ ممالک اور ترقی یافتہ بڑے شہروں میںجانے کے بعد اپنے ملک کے بارے میں بہت حسرتیں لیکر آنا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر کاش! ہمارے شہر میں بھی ایسے عوامی مقامات (Public Places) ہوتے جہاں صفائی اور نظم وضبط کی اعلیٰ مثال قائم ہو۔ پبلک مقامات سے مراد شہر کے سڑکوں اور چوراہوں پر موجود وہ ثقافتی و تاریخی مینار یا علامات ہیں جو کسی قوم یا ملک کی ترقی خوشحالی اور تہذیب کی علامت ہواکرتی ہیں۔ ہم اسلام آباد کے چوراہوں پر موجود خوبصورت مناظر کی مثال دیں یا شہر قائد ‘ لاہور‘ پشاور‘ کوئٹہ‘ مظفر آباد اور گلگت کے بڑے بڑے چوراہوں پر لگے میناروں اور مجسموں کی۔ تمام کو دیکھ کر دل خوش ہونے کے ساتھ ساتھ دُکھی بھی ہوتے ہیں.
خوش اس لئے کہ ہم بھی دوسرے قوموں کی طرح مہذب ہیں ہماری روایات ‘ رواج اور سماجی اقدار ہیں جن کی عکاسی ان علامات سے ہوتی ہے۔ اسلامی آرٹ سے مزیں خطاطی اور فن پارے بھی ہماری اسلامی تاریخ و عقائد کے ساتھ ہماری اخلاقی بنیادوں کی ترجمانی کرتے ہیں۔ دکھ اس بات کی کہ ان پبلک مقامات کو سیاسی وسماجی تنظیموں نے سائین بورڈ کے طورپر اپنے اشتہارات لگا رکھے ہیں جس کی وجہ سے نہ صرف اُن کی شناخت کھو گئی ہے بلکہ بہت بُرا لگتا ہے۔ مثلاََ گلگت شہر میں گھڑی باغ کی گھڑی ہو یا یادگار چوک کا مینار‘ اتحاد چوک کا مینار ہو یاگھوڑا چوک سب خوبصورتی کے ساتھ ساتھ ایک پیغام دیتے ہیں لیکن آج کل اُن پر مذہبی‘ سیاسی اور سماجی تنظموں کی اشتہارات اس حد تک لگے ہیں کہ اُن کی شناخت ختم ہوکر رہ گئی ہے۔ سالانہ ان کی صفائی اور مرمت کے باجود لوگ ان پر چاکنگ اور اشتہارات لگاتے ہیں۔ اس طرح اسلام آباد‘ کراچی‘ لاہور‘ پشاور‘ کوئٹہ اور مظفر آباد سمیت دیگر شہروں کے بھی پبلک مقامات محفوظ نہیں۔ اب اگر ہم دبئی یا لندن کی مثال دے چوراہوں پر موجود تاریخی اور ثقافتی علامات نہ صرف خوبصورت ہیں بلکہ دیدہ زیب بھی۔ ان پر کوئی اشتہار بازی اور چاکنگ نہیں ۔ مین روڈ پر موجود مجسمیں اُن کی تاریخ کی عکاسی کرتے ہیں۔ اُن کے بڑے بڑے لیڈران کی خدمات کا ذکر کیا گیا ہے۔ چلتے چلتے اُس ملک کے بارے میں معلومات بڑ ھتی جاتی ہیں۔ اب ہمارے ملک میں بھی عوامی مقامات ہے۔ وہ نہ صرف اسلام بلکہ علاقائی تہذیب کی نمائندہ ہے۔ مثال کے طورپر ایبٹ آباد سے قراقرم ہائی پر بنے اسلامی فن تعمیر کے مینار اور علاقائی علامات کو لے لیں دیکھ کر خوشی ہوتی ہے۔ سائین بورڈ کسی بھی علاقے یا ادارے کی علامتی شناخت ہوتی ہیں اُن کی مدد سے لوگوں کو مطلوبہ اداروں کے دفاتر تک رسائی ہوتی ہے۔ لیکن جب اُن پر بھی مختلف اشتہارات ہو چاکنگ ہو تو نہ صرف بڑا لگتا ہے بلکہ غیر ذمہ دارانہ فعل بھی ہے۔ اس طرح سڑک کے کنارے دیواروں کی بات کر یں تو بالکل یہی سماں نظر آتا ہے۔ عجیب وغریب نعرے‘ بیانات‘ تصویریں اور خامخواہ کی چاکنگ۔ یہ چیزیں سڑکوں ‘ پلوں اور عمارتوں کی شان کے خلاف ہے۔ سیاح اور غیر ملکی لوگ جب اِن چیزوں کو دیکھتے ہیں تو کیا سوچیں گے۔ ترقی یافتہ ملکوں کے سائین بورڈ بالکل ڈیجیٹل اور مناسب جگہ پر ہوتے ہیں۔
ہمارے یہاں کوئی قائدہ قانون نہیں۔ ایک کمپنی کا اشتہار ہوتا ہے اور ایک قومی ثقافتی مینار ان میں فرق ہونا چاہئے۔ ہماری قوم اس معاملے میں نابالغ لگتی ہے۔ مسجد اللہ کا گھر ہوتا ہے۔ اس طرح دوسری عبادت گاہیں بھی قابل احترام ہیں لیکن ہمارے لوگ اشتہار لگاتے وقت سوچتے بالکل نہیں ہے۔ بعض ایسے مقامات پر مقدس کلمات لکھے جاتے ہیں جو کہ مناسب نہیں۔ ہمیں دینی اسماءاورکلمات کا خیال داری کے ساتھ لکھائی کرنا چاہئے۔ اب شاہراہ قراقرم کی مثال دیکھیں چٹانوں اور پتھروں پر نعرے‘ علاقائی اور حساس دینی معاملات درج ہیں جن کو چوبیس گھنٹے لوگ دیکھتے ہیں ۔ ان سے کسی بھی مسلک یا گروہ کی دل آزاری یا ملکی اور قومی اتحاد کو ٹھیس پہنچ سکتی ہے۔ گلگت بلتستان کے مختلف اضلاع کی بات کریں تو بالکل اِسی طرح کا رجحان ہے جو کہ مناسب نہیں۔ اس طرح کے معاملات میں احتیاط سے قومی وقار اور علاقائی امن برقرار رہ سکتی ہے۔ اب آپ سوچئے کہ ایک غیر ملکی سیاح یا غیر علاقائی فرد کو کیا پتہ کہ آپ کے اندونی معاملات کیا ہیں اور کیا کیا اختلافات ہیں لیکن ہماری علاقوں کے دیواروں‘ چٹانوں‘ سڑکوں‘ پلوں اور دیگر پبلک مقامات پر لکھے نعرے‘ بیانات‘ کلمات ہمارے جذبات کی ترجمانی کرتے ہیں اور ہر ایک مسافر بلا تعامل اُس علاقے کے بارے میں جان کاری کر سکتا ہے۔ سیاسی جماعتیں اِس معاملے میں بہت آگے گئی ہیں۔ ایک دوسرے کے خلاف نعرے اور جملہ بازی سے ہمارے سیاسی جماعتوں کی بلوغت کا اندازہ ہوتا ہے۔
بحرحال بعض دفعہ چلتے چلتے یہ تمام چیزیں دیکھ کر بہت دکھ ہوتا ہے۔ آج کل کے اِس ڈیجیٹل زمانے میں بھی اشتہار بازی کا یہ حال رہا تو ہمارا کیا ہوگا۔ ایک مسلمان کی حیثیت سے ہمیں آیات مبارکہ‘ احادیث شریف اور دیگر کلمات کی قدر اور تقدس کا خیال رکھنا چاہئے۔ پیغمبروں اور آئمہ کے اسماءگرامی لکھتے وقت صاف ستھری جگہ کا انتخاب کر نا چاہئے۔ ایک موبائل کمپنی اپنی شناخت کا خیال رکھ کر پہلے اشتہار کی جگہ کو دیکھتی ہے صفائی اور دیگر انتظامات کے بعد اپنا اشتہار لگاتی ہے تو بحیثیت مسلمان ہمیں بھی اپنے عقائد‘ جذبات‘ احساسات اور اسماءالحسنیٰ لکھتے وقت اسلامی اخلاقیات کا خیال رکھنا چاہئے۔ حکومت وقت اور سیکورٹی ایجنسیوں کو بھی اِن چیزوں کے بارے میں دیکھنے اور سوچنے کی ضروت ہے۔ اشتہارات لکھنے والے فخر کے ساتھ اپنے نام اور موبائل نمبر بھی لکھتے ہیں پھر بھی حکومت اُن کو کچھ نہیں کہتی ہے۔ پبلک مقامات پر لکھنے اور اُن کو خراب کرنے والوں کے خلاف سخت ایکشن لینا چاہئے تاکہ شہر اور سڑکیں غیر ضروری طور پر لکھے جانے والے چیزوں سے بچ سکیں۔ مزید اس بات کو سمجھنے کے لئے ایک اور مثال پیش ہے۔
مارخور‘ گھوڑا‘ چکور اور دیگر علامات ہماری قومی شناخت ہیں ایک آدمی اُن کو توڑ کر اپنا اشتہار یا نعرہ لکھتا ہے۔ یا غیر قانونی ادارے اپنی تشہیر سستے طریقے سے کرنا چاہتے ہیں اُن کو گرفتار کرنا چاہئے تاکہ بد آمنی اور ماحول خراب نہ ہو۔ کسی کو اپنے ادارے کی تشہیر کرنی ہے تو باقاعدہ حکومت سے منظوری کے بعد اشتہار لگانی چاہئے یا خود اپنے انتظام سے اپنا اشتہار پیش کر نا چاہئے نہ کی کسی قومی علامتی شناخت کو تھوڑ کر۔ آج ہم اس قسم کے نازک چیزوں کے بارے میں نہیں سوچیں گے قانون سازی نہیں کرینگے تو ہر ایک کی مرضی ہوگی اور راتوں رات وہ کچھ کر سکیں گے جو کوئی سینکڑوں سال میں نہیں کر سکتا۔ تعلیمی یا سماجی ادارے ہیں تو اپنا کردار مناسب طریقے سے کریں نہ کہ دیواروں پر لکھ کر۔ گلگت بلتستان میں اور خاص کر گلگت اور دیگر اہم مقامات پر اس قسم کی چیزوں پر حکومت کی نظر ہونی چاہئے۔ بلکہ اس کالم میں ہم یہ تجویز دیں گے کہ صوبائی حکومت اس حوالے سے کوئی اقدامات کریں قانون موجود ہے تو عمل درآمد کریں اگر نہیں ہے تو نئی قانون سازی کریں۔ ہمارے لیڈر بھی شاید اخبار پڑھتے ہیں یا اُن کے نمائندے پڑھتے ہونگے۔ ہمیں اس طرح کے حساس معاملات پر جلدی سوچنا چاہئے۔ آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا کبھی آپ نے پبلک مقامات پر لگے نعروں اور بیانات یا مذہبی کلمات پر نظر ڈالی ہے جو تاریخی لحاظ سے کسی گروہ کی دل آزاری کرتے ہیں؟ نہیں تو آج سے دیکھ دیکھ کر سوچیں۔ تاکہ ہم کہہ سکے ‘ بہت خوش دل ہوا حالی سے ملکر— ابھی کچھ لوگ باقی ہے جہاں میں۔