گوشہ اردو
“سرزمین غذر” – میری نظر میں
نوجوان قلم کار جناب محمد جان کی کتاب ”سرزمین غذر – ماضی اور حال کے آئینے میں“ میرے سامنے ہے۔
شہیدوں کی سرزمین ضلع غذر جو چار تحصیلوں (پونیال، اشکومن، گوپس، یاسین) پر مشتمل ہے جو خوبصورتی، دلکشی اور دلفریبی کا حسین شاہکار ہے۔ ہر طرف اُبلتے اُچھلتے چشمے، کاجل و رخسار کو چومتی بکھری بپھری ہوائیں، گرتی مچلتی آبشاریں، ہر چہار سو جھومتے جھولتے چیڑ و چنار کے درخت، سبزہ سے لدی ہوئی وادیاںاور حسن و خوبصورتی کی شہزادیاں قدرت کے وہ عطایا ہیں جہاں ہر طرف حسنِ فطرت کی دیوی اپنے جلوو¿ں کی خیرات تقسیم کر رہی ہے۔ دِل کو سرور اور سکون بخشنے کے سبھی سامان وافر مقدار میں موجود ہیں۔ قرمبر جھیل اور دریائے اشکومن کی دھیرے دھیرے انداز میں بہتی ہوئی لہریں اور پھر پتھر سے ٹکرا کر رقص کرتی ہوئی واپس لوٹتی ہوئی موجوں میں خوابیدہ دِلوں کو بیدار کرنے کا کونسا سامان نہیںہے؟ اس کے ٹھنڈے پانی میں ذرا پاو¿ں ڈبو کر تو دیکھیں، رگ رگ میں ٹھنڈک و تازگی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ دریائے اشکومن، قرمبر جھیل، خلتی لیک یا شیر قلعہ دریا کے کنارے کھڑے ہوجائےں تو ساون کی بکھری بپھری ہوائیں بالوں کو چھیڑتی، لب و رخسار سے کھیلتی، نینوں کو میچتی، کپڑوں سے اٹھکیلیاں کرتی اور دامن کو اُڑاتی دل اُڑا لے جاتی ہے۔ شاعر نے شاید اس لئے کہا ہے
چھیڑتی ہیں مجھ کو ہوائیں بہار کی
سمجھاتی ہیں دل کو یہ راہیں فرار کی
سورج جب شرما کر بادلوں کی اوٹ میں چلا جائے اور ذرا سایہ ہوجائے اور ہوائیں تیز ہوجائےں تو موسم اور بھی تیکھا ہو جاتا ہے۔ ٹھنڈے پانی میں ہاتھ دھو کر، پاو¿ں ڈبو کر ذرا لاہور ، ملتان اور کراچی کی چلچلاتی دُھوپ، اُڑتی ہوئی دُھول اور سر تا پا پسینے سے شرابور انسان کا تصور کریں تو انسان کے یخ بستہ احساسات اور تخیّلات میں قدرے تلخی کی لہر دوڑ جاتی ہے اور انسان بزبان حال و قال ربِ کریم کا شکر ادا کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ اے اللہ! تو نے ہمیں کیا ملک عطا فرمایا جو بیک وقت متنوع اوصاف اور مختلف نعمتوں سے بھرا پڑا ہے۔ اگر اس ملک کے ایک حصے میں سخت سردی ہے تو لوگ شب کو رضائیاں اوڑھنے پر مجبور ہیں تو دوسری طرف اس قدر گرمی کہ پنکھے، ائیر کولر اور اے سی کے بغیر چارہ نہیں۔ قربان جایئے اپنے وطن پر کہ قدرت نے جہاں اسے کراچی کے خوبصورت ساحل و سمندر دیا ہے تو وہاں کے ٹو اور ہمالیہ کی فلک بوس چوٹیوں اور طویل پہاڑی سلسلوں سے بھی نوازا ہے، جہاں اسے بلوچستان کا وسیع و عریض ڈیزرٹ عطا کیا ہے تو وہاں پنجاب کا اجناس اور میوہ جات سے لدا ہوا میدانی علاقہ بھی دیا ہے۔
جب انسان ان علاقوں کو چھوڑ کر واپس آتا ہے تو گاڑی آگے کو بڑھتی ہے مگر دِل پیچھے کو کھینچا چلا جاتا ہے اور فراق میں آنسو بہاتے چشمے نظر آتے ہیں اور چیڑ و چنار کے خاموش کھڑے درخت اس حسینہ کا نقش پیش کرتے ہیں جو اپنے ہرجائی کو دِل پر پتھر رکھ کر رخصت کرتے ہوئے بے بسی کے عالم میں صرف یہ کہہ پاتی ہے۔”پھر کب آو¿ گے؟؟؟“
بات طول پکڑ گئی۔ اصل میں مجھے میرے دوست محمد جان نے اپنی کتاب ”تاریخ سرزمین غذر“ کی نظرثانی اور اس پر اظہار نظر کے لئے کہا تھا۔ مگر میں نے تاریخ سے زیادہ اس کی خوبصورتی کو زیر بحث لایا۔ ارے بھائی شاعر جو ٹھہرا۔ یہ حقیقت ہے کہ انسان چاہے جتنی بھی ترقی کرے بلند و بالا فلیٹوں کے ائیر کنڈیشنڈ کمروں میں رہے یا تیز رفتار زندگی کے گھن چکر میں گھومتا رہے مگر جب وہ ان برفانی وادیوں کے دور دراز حصوں میں پہنچے گا اور اسے ندی کنارے کسی درخت کے سائے میں پھولوں کی خوشبو محسوس ہو گی، گہرے نیلے پانی میں سونے کے ذرات چمکتے دکھائی دیں گے تو اسے میدانی علاقے کی ہر آسائش جھوٹ لگنے لگے گی۔ حیرت یہ ہے کہ دور دراز ملکوں کے سیاحوں کو علم ہے کہ قراقرم کے دامن میں ایسی حسین و جمیل جگہیں بکھری ہوئی ہیںمگر خود پاکستانی ان سے نا آشنا ہیں۔ اگر کسی پاکستانی کو جو اپنے شہر سے کہیں باہر نہ گیا ہو، ان علاقوں میں لاکر یہ وادیاں دکھائی جائےں تو وہ ہرگز یقین نہیں کرے گا کہ یہ بھی پاکستان کا حصہ ہیں۔ یہاں پہنچ کر وہ اپنے تصور کو ٹوٹتا ہوا دیکھے گا کیونکہ اس کے لئے پاکستان ٹوٹی ہوئی سڑکوں، گٹر اُبلتی گلیوں، پیچ در پیچ غلیظ بازار اور بے ڈھنگی عمارتوں کا نام ہے جن میں رہنے والے لوگ یہ نہیں جانتے کہ پاکستان ہی میں ہمالیہ اور قراقرم کے سائے ہیں اور ہندو کش یا دیامر، غذر میں وہ لوگ رہتے ہیںجو اس دور میں بھی لالچ، جھوٹ، مکاری اور فریب سے کوسوں دور ہیں۔ وہ کم آسائشوں پر زیادہ خوش ہیں جو محض بجلی چلی جانے پر لڑتے نہیں، فائرنگ نہیں کرتے، وہ جلسے جلوس اور ہڑتالیں نہیںکرتے۔صرف اس لئے کہ وہ خدا کا شکر ادا کرنا جانتے ہیں۔ انہیں علم ہے کہ یہاں بجلی کے بلب نہیں تو کیا ہوا مگر سورج کی توانائی تو ہے۔ گاڑیاں نہیں مگر حسین سنہرے گھوڑے ہیں۔ پیپسی‘ سیون اپ‘ مرنڈا اور ڈیو نہیں تو کیا ہوا لسی تو جی بھر کر پیا جاسکتا ہے۔
میرے لئے اس کتاب سے اتنا لطف اُٹھانے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ جن جن خوبصورت جگہوں کے بارے میں مصنف نے لکھا ہے۔ ان میں سے بیشتر جگہوں پر ہم ساتھ رہے ہیں اور اس پاک دھرتی کی مٹی کو چومنے کا شرف ہم دونوں کو حاصل رہا ہے۔ ہم نے گلگت بلتستان کے دیگر علاقوں کی طرح غذر میں پونیال، اشکومن، گوپس، پھنڈر، یاسین، شیرقلعہ، سنیگل، بوبر، چٹورکھنڈ، ایمت، سندھی، خلتی اور قرمبر جھیل کے نظارے دیکھنے اور چند ایام وہاں خیمہ زن رہنے کا اشتیاق پورا کیا ہے۔
سرزمین غذر کے بارے میں جتنی تحقیقی کاوشیں ملکی و غیر ملکی محققین نے اب تک کی ہیں وہ ابھی نایاب ہیں۔ جو دستیاب ہیں وہ زیادہ تر یہاں کی سیاسی، معاشی، معاشرتی و ثقافتی اور کچھ فکری احوال سے متعلق ہیں۔ جبکہ مقامی قلم کار اب تک اس انتہائی اہمیت کے حامل ضلع پر قلم اُٹھانے سے قاصر رہے ہیں۔ محمد جان صاحب اس لئے مبارک باد کے مستحق ہیں کہ اُنہوں نے اس تحقیق کے دوران جو کچھ بھی مواد جہاں کہیںسے بھی دستیاب ہوا ہے۔ اسے تاریخ وار مراحل میں ترتیب دینے اور علاقہ جاتِ غذر کو یکساں کوریج دینے کی بے حد اچھی کاوش کی ہے۔ سب سے اہم بات یہ کہ اِس اوّلین کاوش میں عہد قدیم کے تاریخی پس منظر کو ان علاقہ جات کی مستند زبانی روایات اور تاریخی سندات و مسودات کے ذریعے اور خصوصاً ملکی و بین الاقوامی تاریخ دانوں اور سیاحوں کی مستند کتابوں کے حوالہ جات سے بیان کیا ہے۔
اِس ابتدائی کاوش کے ذریعے ان قدیمی اور پُرانی تہذیبوں اور تنگ و تاریک وادیوں میں نظام حکومت اور راجوں اور رعایا کے بارے میں عدم معلومات کا جو احساس باسیانِ غذر میں بالخصوص اور اہالیانِ گلگت بلتستان میں بالعموم پایا جاتا رہا ہے وہ احساسِ تشنگی اس کتاب کے مطالعے سے بہت حد تک کم ہو جائے گا۔
یہ کتاب حال ہی میں منصہ شہود پر آئی ہے۔ 260 صفحات پر مشتمل اس کتاب پر پروفیسر ڈاکٹر شاہد احمد راجپوت، شیر باز علی برچہ، راجہ محمد ناصر، محمد کمال اور راقم نے اپنے اپنے تا¿ثرات قلمبند کرتے ہوئے مصنف کو مبارک باد پیش کیا ہے۔ کتاب کی اہمیت و افادیت اپنی جگہ، لیکن اس کی پبلشنگ میں نہایت تعجیل سے کام لیا گیا ہے۔ پروف ریڈنگ چونکہ راقم نے خود کیا تھا باجود اس کے کتاب میں ٹائپنگ کی غلطیاں ہنوز باقی ہیں۔ اُمید کی جاتی ہے کہ دوسری اشاعت میں ان غلطیوں کو دور کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ یہ کتاب 300 روپے کی قیمت پر گلگت بلتستان کے تمام کُتب خانوں سے دستیاب ہے۔
میں اپنی اور کاروانِ فکرو ادب کے تمام اراکین کی جانب سے محمد جان کو ایک تحقیقی کتاب کی اشاعت پر دلی مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ مجھے اُمید ہے کہ یہ کتاب تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے احباب میں انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھی جائے گی اور بعد میں لکھنے والے مورخین اِس سے بھرپور استفادہ کریں گے۔
”صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لئے“
wah karimee sahab saven up nahi tou kia howa Lasi tou jee bher kay piya ja sakta hay! wah
یہ علاقے میں نے نہیں دیکھیں ہیں۔ مگر تحریر پڑھنے کے دوران
ایسا محسوس ہرہا تھاجیسے میں ان علاقوں میں گوم رہا ہوں۔
اب لگتا ہے میں نے دیکھا ہے۔
waw fantastic tehreer hay
love u nd ur writings karimiii sb!