گوشہ اردو

امن و امان کی ضرورت

تالیف وترتیب: محمدجان رحمت جان
آج کل ہمارے علاقے میں امن وامان کا بہت بڑا مسئلہ پیدا ہوا ہے۔اس دنیا میں کون ایسا ہو گاجو امن و آشتی اور سکون و سلامتی نہیں چاہتا ہو۔اپنے جسم و جان ،خاندان اور عزت و آبرو کی سلامتی سب کو عزیزہے۔امن کاآرزو مند ہو ناانسان کی فطرت میں داخل ہے ،اس لئے ہر وجود امن اور سلامتی چاہتاہے کیونکہ امن و سلامتی معاشرہ،افراد،اقوام اورملکوں کی ترقی و کمال کےلئے انتہائی ضروری ہے۔ اسی طرح اگر تمام اسلامی عبادات اور معاملات سے لے کر آئین اور قوانین سیاست و حکومت تک کا بغور جا ئزہ لیاجائے تو ان تمام چیزوں سے امن و سلامتی اور صلح و آشتی کا عکس جھلکتا ہے جو اسلام کا مقصود و مُدَّعا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نہ صرف امن کا حامی اور دعویدار ہے بلکہ قیام امن کو ہر حال یقینی بنانے کی تاکید بھی کرتاہے۔
حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ” اَل مُسلِم ُ مَن سَلِمَ المُسلِمُونَ مِن لِسَانِہِ وَ یَدِ ہِ “یعنی مسلمان وہ ہے جس کے زبان اور ہاتھ سے دو سرے مسلمان محفو ظ ہوں”۔ انسان اکثر او قات اپنی زبان اور ہاتھ دوسروں کو نقصان پہنچاتاہے اس لئے اسے اپنے ہا تھ اور زبان پر قابو رکھنے کی ہدایت ہو ئی تاکہ انسان دوسرے لو گوں کو امن و سکو ن کی نعمت سے محروم نہ کر سکے۔
تاریخی اور اصلاحی لحاظ سے اسلام لفظ” سِلم ” سے نکلا ہے جس کے معنی صلح وامان اور سلامتی ہے۔اسلام کے اسی معنی اور مفہوم کے پیش نظر ایک مسلمان جب دوسرے مسلمان سے ملتاہے تو ” السلام علیکم”کہتا ہے جس کے معنی ہیں تجھ پر سلامتی ہو۔”سلام” ایک دعائیہ کلمہ ہے اور اﷲتعالیٰ کے اسما ئے حسنہ میں سے ایک ہے جس میں اپنے اور دوسروں کے لئے امن و سلامتی کی خو اہش اور آرزو شامل ہے۔ چونکہ اسلام اس نظام حیات کا نام ہے جس میںانسان ہر قسم کی تباہی،آفت اور بر بادی سے محفوظ رہے اور دنیا میں بھی امن و سلامتی اور صلح و آشتی قا ئم کرنے کاموجب ہو۔وہ سفر زند گی میں دوسرے افراد معاشرہ کے ساتھ ہم آہنگی کے ساتھ چلے اور کوئی کام ایس نہ کرے جس سے معاشرے کے امن میں کو ئی خلل واقع ہو۔
اصطلاح دین میں اسلام کے معنی اطاعت و فر مانبر داری اور سر تسلیم خم کرنے کے بھی ہو تے ہیںیعنی کوئی شخص اﷲ تعا لیٰ کے منشا اور خوا ہش کے مطابق زندگی گزارے اور اس کی خواہش اور مرضی پر اپنی خواہش کو ترجیح نہ دے تو وہی شخص اسلام اور سلامتی کے محفوظ پنا ہ گاہ میں ہوگا جہاں ہر قسم کے خطرات سے انسان سلامت رہےگا ۔جیسا کہ حضرت علی علیہ السلام نے بھی اپنے ایک خطبے کے آغاز میں اسلام کو امن و سلامتی کا قلعہ قرار دے کر فرمایا ہے کہ” اَلحَمدُﷲِ ِالَّذِی شَرَعَ الاِسلاَمَ فَسَھَّلَ شَرَا ئِعَہُ لِمَن وَرِدَہُ وَاَعَزَّاَرکاَنَہُ عَلیٰ مَن غَا لَبَہُ فَجَعَلَہُ اَمنَا لِمَن عَلِقَہُ وَسِلمَ الِمَندَخَلَہُ۔”ساری تعریف اس خداکے لئے ہے جس نے اسلام کا قانون معین کیا تو اس کے ہر گھا ٹ کو واردہو نے والے(قبول کرنے والے) کے لئے آسان بنا دیااور اس کے ارکان کو ہر مقابلہ کرنے والے کے مقابلے میں مستحکم بنادیا۔اس نے اس دین کو وابستگی اختیار کرنے والوںکے لئے جائے امن اور اس کے دائرہ میں داخل ہو نے والوں کے لئے محل سلامتی بنادیا۔
اسلام نے انسان کی ذاتی آزادی کی حد کو بہت وسیع کیا ہے لیکن ساتھ ساتھ اس نے دوسروں کی آزا دی کے احترام کا بھی سختی سے حکم دیا ہے۔اسلام ذبر دستی اپنا عقیدہ کسی دو سرے پرتھوپنے کی بھی اجا زت نہیں دیتا ہے۔جیسا کہ قرآن مجید میں اَﷲتعا لیٰ کا ارشاد ہے کہ” لاَ اِک±رَ ا ہَ فِی الدِّی±نِ ” ۲/۶۵۲یعنی دین اسلام میں کو ئی ذبر دستی نہیں ہے۔ ©”How then Muslims can be intolrant and deny other religious communities the opportunity to live with them peacefully?” ” پھر مسلمان کیسے بے بر داشت ہو رہے ہیں اور دوسرے مذہبی جما عتوں کے سا تھ امن کے ساتھ رہنے کے مواقعوں کا انکار کر رہے ہیں”۔ قرآن پاک کی ارشاد کے مطابق اﷲتعالیٰ نے شیطان کو اُس کے بغا وت اور نا فرمانی کے باوجو د اجازت دیا ہے کہ وہ عورتوں اور مردوں کواﷲ کی عبادت سے بھٹکا ئے”۔ “When Allah tolrates Stan,how Muslims can be intolrant to some people or powers who do not subscribe their ” view and way of life?” جب اﷲتعالیٰ نے شیطا ن کو برداشت کیاہے تومسلما ن کچھ لوگوں یا طا قتوں کو کیسے برداشت نہیں کرتے ہیں جو ان کی نظرئیے اور طرز زندگی کو قبو ل نہیں کرتے ہیں”۔ آنحضر ت کی حیات مبا رکہ میں اس کی واضح مثالیں مو جو د ہیں کہ آپ نے کبھی کسی غیر مسلم کو ذبر دستی اسلام میں لا نے کی حما یت یا حو صلہ افزئی نہیں کی ہے بلکہ اس زما نے میں مسلمان یہو دی اور عیسائی مل کر امن سے زندگی گزارتے تھے۔

”پیغمبر حضرت کے زما نے میں آپ نے یہو دیوں،عیسا ئیوں اور پیرو کا روں کی جما عت (مسلمانوں) کے سا تھ کئی معاہدے کئے جن کے تحت یہودی ، عیسائی اور مسلمان امن سے رہتے تھے تا وقتکہ معا ہدے میں شریک گروہ معا ہدے کی شرائط کی پا بندی کرتے جو کہ دیگر جماعتوں کے امن سے رہنے کی اسلام صلاحیت اور اس کی برداشت کی روّیئے کی عکاسی کرتی ہے“۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام اس بات کی اجازت نہیں دیتا ہے کہ دوسروں کے معاملات میں دخل دیا جائے۔اسلام دوسروں کے مذہبی عقا ئد اور رسو مات کے احترام کا اعلان کر تا ہے۔ آج اگر معاشرہ عدم توا زن اور بد امنی کا شکا ر ہو جاتاہے تو اس کامطلب یہ ہے کہ کہیں نہ کہیں اخوت ،بھائی چارہ ،احترام رواداری اور برداشت جیسے اسلامی اقدار اور تعلیمات پر عمل نہیں ہو رہا ہے جو مسلما نو ں کو ایک دوسرے سے دور لے جانے کا سبب بن رہا ہے۔
ان حالات میں ہم مسلمانوں کو آپس کی فرو عی اختلا فات کو مٹاکر درخت ِدین یعنی دین اسلام کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے جودینی عقائدکے مجموعے کا نام ہے کیونکہ فروع یعنی شاخوں کی بقا اور مضبوطی کادارو مدار بھی درخت کے
اصولات یاجڑوں پر ہے۔ اور یہ تب ہی ممکن ہے کہ ہم بر داشت ،رواداری ، صبراور معا فی جیسے اسلامی اقدار اور تکثیریت کے عا لمی اصو لوں پرعمل پیرا ہوں اور فرقہ واریت سے اپنے آپ کو بچا ئےں۔ جیسا کہ قرآن میں اﷲ تعا لیٰ کا ارشاد ہے کہ” وَاع±تَصِمُوا بِحَب±لِ اﷲِجَمِی±عَاََ وَّ لاَ تَفَرَّ قُو±ا ۔”یعنی اور تم سب مل کر اَﷲ تعا لیٰ کی رسی کو مضبو طی سے تھامے رکھو اور تفرقے میں نہ پڑو”۔ اس لئے بحیثیت مسلمان ہمیں رسول اﷲکے زمانے میں قائم کردہ مواخات کے عمل سے سبق حا صل کرنا چا ہئے جو کہ اخوت یعنی بھا ئی چا رے کا بے مثال سبق ہے۔اگرمسلمان بھائیوں کے درمیان کوئی ناچاقی ہوجائے تو دوسروں کوچا ہیئے کہ آگے بڑھ کر دو نوں میں صلح کر ا دے۔ ہم سب کی یہ کوشش ہونی چاہئے کہ جتنا ہم سے ہوسکیں امن کی باتیں کریں امن کی ان باتوں پر عمل کریں اور اپنے اس خطے کو پُرامن بناکر انسانوں کے لئے ایک پرسکون جگہ بنادیں۔ امن کاشعور دینے کےلئے ضروری ہے کہ ہم مدرسوں‘ سکولوں‘ کالجوں‘ یونیورسٹیوں اور دیگر مذہبی وسماجی اداروں میں اپنی نئی نسل کو انسانی گوناگونی کی تعلیم دیں۔ آج کے تکثیری معاشرے کے بارے میں اپنے بچوں کو سمجھائیں۔ اپنی اولاد کو یہ پیغام دیں کہ جس طرح ہمارا ایک مذہب ہے‘ ہمارے رسومات ہیں‘ عبادات ہیں‘ عادات ہیں اس طرح دنیا میں دوسرے لوگ بھی رہتے ہیں ان کے بھی عقائد ورسومات ہیں۔ جس طرح ہمارے رسومات و عبادات ہمیں عزیز ہیں اس طرح اُن کو بھی اُن کے رسومات وعبادات عزیز ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک میں ہمارے مالک نے ہمیں بتایاہے کہ” لکم دینکم الولّیُ الدین ‘ اور تمہارا دین تمہارے لئے بہتر ہے ہمارا دین ہمارا لئے“ ۔ اس طرح سب ادیان کے عبادت خانے مقدس ہیں۔ ہمیں ان کا احترام کرنا چائیے۔ جب ہم کسی اور کا احترام کرینگے تو ضروری بات ہے وہ بھی ہمارا احترام کرینگے۔ جب اللہ نے ہمیں مختلف شکلوں اور مختلف ماحول میں پیدا کی ہے تو ہمیں اس مختلیفیت(تنوع) کو تسلیم کرناچاہئے۔
گلہائے رنگا رنگ سے ہے زینت چمن
ہے ذوق اس چمن کو ہے زیب اختلاف سے
امن سے ہی سماج میں ترقی ممکن ہے اس لئے ہر ایک کو اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہئے تاکہ ایک صحت مند معاشرے کی تشکیل ہوسکیں۔آج کل کے حالات میں ہم سب کی زمہ داری بنتی ہے کہ امن کا داعی بنے اور امن ہی کی باتیں کریں۔ یہ اس صورت میں ہوگا جب ہم ایک دوسرے کے لئے قربانی کا جذبہ رکھیں گے۔ معافی اور صبر کے اسلامی تعلیمات ہی امن کا سبب بن سکتے ہیں۔ برداشت اور ایک دوسرے کی مدد کے ہمارے روایات بھی امن میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔

Related Articles

Back to top button