گوشہ اردو

مسلم علی شاہ کی شخصیت

شمس الحق قمر، گلگت 

نقش ہیں سب نا تمام خون جگر کے بغیر 
نغمہ ہے سودائے خام خون جگر کے بغیر 

ایک نوجواں مزدور نے اپنے بازؤں اور سینے کی طاقت کے زور سے ایک بڑے پتھر کو دھکیلتے ہوئے ایک نکڑ پر پہنچادیا ۔نیچے دریا کی طرف کئی بار نظر ڈالی اور ایک جگہے کو ہدف بناتے ہوئے محتاط انداز سے پتھر کو نیچے لڑھکا دیا جیسے جیسے پتھر نیچے لڑھکتا گیا نوجوان مزدور کے چہرے پر فاتحانہ تبسم نمایاں ہوتا گیا جوں ہی پتھردھڑام سے اپنے ہدف پر پیوست ہوا مزدور کی زبان سے گرجدار آوز میں ’’ اہا‘‘ کا معنی خیز لفظ نکلا ۔

اُس وقت میں ایک چھوٹا سا بچہ تھا میں سکول سے واپس آتے ہی مزدوروں کو دیکھنے جاتا تھا اور اُن کی تمام حرکات و سکنات توجہ سے دیکھا کرتا۔ نوجواں مزدور کی حرکت سے مجھے کچھ سمجھ نہ آیا البتہ میری حیرت کی انتہا اس سوال پر ہوئی کہ وہ مزدور پتھر گرانے کے بعد اتنا خوش کیوں تھا ؟ یہ سوال کئی سالوں تک میرے ذہن میں کھٹکتا اور چبتا رہا کہ ایسا کیوں ہوا تھا ؟ لیکن اُس سوال کا جواب جوں ہی مجھے ملا ،میں نے قلم اٹھا یا اور اس مضمون پر اپنی توجہ مرکوز کی ۔ آپ مجھ سے یہ ضرور تقاضا کریں گے کہ مجھے میرے سوال کا جواب کیسے ملا ؟ یہ کہانی آپ کے ساتھ بانٹنے سے پہلے میں ایک اور عظیم پیشہ ورشخصیت سے گفتگو کا لب لباب آپ کی نذر کرنا چاہتا ہوں ۔اس شخصیت کا تعلق جنگلی حیات سے رہا ہے ۔یہ شخصیت اپنے پیشے سے اتنا شغف رکھتی تھی کہ اب بھی کچھ جانوروں کی نقل و حرکت کے داستان سناتے ہوئے فطرت کی بو قلمونیوں پر آبدیدہ ہوجاتے ہیں۔

مسلم علی شاہ کا تعلق چترال بونی کے قابل تعظیم و تکریم سادات خاندان سے ہے ۔شروع میں پاک ارمی میں ملازمت اختیار کی لیکن یہ ملازمت اُسے ایک آنکھ نہیں بھائی اور نہ ان کی خود داری نے اپنے جیسے انسان کے سامنے سر جھکا کر ہر جائز و ناجائز بات پر یس سر اور نو سر کی رٹ لگانے کی اجازت دی ۔ کیوں کہ موصوف کے ذہن میں بچپن سے فطرت کی رنگینی اور سحر انگیزیوں کو حیرت کی نگاہ سے دیکھنے کا بے انتہا شوق تھا لہذا اپنے جنون کی اس پیاس کو بجھانے کے لئے سامنے ایک ہی راستہ نظر آیا وہ یہ کہ پہاڑوں اور جنگلوں میں دیوانہ وار گھومتا اور کھوجتا رہے ۔ قسمت کا یارانہ ہمدوش رہا تو سن 1974 کومحکمہ جنگلات میں ملازمت مل گئی ۔یہ صاحبِ موصوف کی زندگی کا وہ لمحہ تھا جس نے کرۂ ارض میں انسانوں کے علاوہ دوسری مخلوق کی حیات کو دل کی آنکھ سے دیکھنے کے علاوہ اُن کے مسائل سمجھنے اور اُن کی طرف محبت کا ہاتھ بڑھانے کا زریں موقعہ مہیا کیا۔ مسلم علی شاہ اپنے پیشے سے متعلق غیر ملکی مصنفین کی کتابوں سے بھی استفادہ کرتا رہتا ۔ Dr.Jorje Schuler کی کتاب silent stone کا ذکر کرتے ہوئے محترم نے ایک جانور کی بہت ہی دلکش کہانی سنائی ۔ آپ نے کتاب میں پڑھ رکھاتھا کہ pallascatنام کا ایک جانور ہوتا ہے جوکہ چترال میں بھی پایا جاتا ہے۔ یہ تحقیق پڑھنے کے بعد گویا مسلم علی شاہ کے دل میں اس جانور کی اپنے علاقے میں موجودگی اور اُس کی تلاش کے جذے کی جیسے کوئی آگ ہی بھڑک اُٹھی یہ موصوف کی زندگی کا وہ انوکھا واقعہ تھا کہ آپ نے کتاب اپنے بیگ میں ڈالی اور گھر والوں کو بتائے بغیر گھر سے فرار ہوا ۔ یہ برفانی تودوں کے گرنے کا موسم تھا ۔ مسلم علی شاہ دوپہر کو گھر سے نکلا شام ہوگئی ، رات گزر گئی ،دوسرے دن کا سورج بھی غروب ہوا لیکن مسلم علی شاہ کی واپسی یا کہیں موجودگی کی کسی کو کوئی اطلاع نہیں ہوئی ۔ گھر والوں پر ہر ہر لمحہ قیامت بن کے توٹتا رہا ، تلاش میں عزیز و اقارب بونی زوم کے پہاڑوں کے چپے چپے کی خاک چھانتے رہے لیکن مسلم علی شاہ دوسری شام کو بھی گھر نہیں پہنچے ۔ دوسری صبح رشتہ داروں نے دوبارہ تلاش شروع کی ۔ صبح کے کوئی دس بجے مسلم علی شاہ بونی گول کے عقبی پہاڑی سے بخیرو عافیت برآمد ہوئے ۔موصوف کہتے ہیں کہ میرے ظالم چچا کو یہ معلوم نہیں تھا کہ میں اپنے فرض منصبی کی انجام دہی میں کامیاب ہو کر سرخ روئی کے ساتھ پہاڑ کی چوٹی سے لوٹ چکا ہوں ، اُس نے میری ایک نہ سنی اور برابر مجھے پیٹتے رہے ۔ لیکن گھر پہنچنے کے بعد میں نے جب اپنی پوری کہانی اُس کی گوش گزار کی تب مجھے نہ صرف معانی ملی بلکہ چچا نے مجھے شاباشی بھی دی ۔

Muslim Ali Shahمیں نے مسلم علی شاہ سے جب اُس کہانی کا تقاضا کیا تو وہ یوں گویا ہوئے : یہ 1987کا واقعہ ہے ۔ڈاکٹر صاحب کی کتاب پڑھتے پڑھتے جب Pallascat کے جسمانی خدوخال اور عادات خصائل کے ساتھ ساتھ چترال میں اُسکی موجود گی کا ادراک ہوا تو میں دیوانہ وار بونی گول کی جانب روانہ ہوا ۔ میرے پاس میرا بیگ ،بیگ میں وہ کتاب، کچھ خوراک ، دوربین اور روشنی کا انتظام اور اس جانور کو ملنے کی آرزو تھی بس۔۔۔۔۔ ۔باقی میری زندگی ،میری موت ، میرے گھر والے اور میرے بچے اُس وقت میری نظر میں گویا بے معنی تھے۔میں نے جو کتاب پڑھی تھی اس کا اُردو میں ترجمہ ’’ خاموش پتھر کے ہیں‘‘ لہذا مجھے بھی ایک خاموش پتھر کی طرح بے حس و حرکت قدرت کے اس شاہکار کا انتظار کرنا پڑا ۔ ڈاکٹر صاحب کی تحقیق کے عین مطابق میں نے ایک ایسی مناسب جگہے کا انتخات کیا جہاں سے ایسے جانوروں کے گزرنے کے امکانات زیادہ تھے ۔آج شاید دعاؤں کی قبولیت کی گھڑی تھی ۔ ایک محفوظ پتھر کے مسکن میں یہ میرا دوسرا دن تھا جب میں نے اُس محبوب کو صبح کے دس بجے ایک قریبی فاصلے سے اوپر چڑھتے ہوئے دیدار کر ہی لیا۔یہ میری زندگی کا وہ لمحہ تھا جب مجھے زندگی کی ایک انوکھی لذت کا پھر پور احساس ہوتا ہوا معلوم ہو رہا تھا ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ میں آج دونوں جہانوں کی دولت سے مالامال ہوا ہوں گویا آج کے بعد مجھے زندگی میں کسی اور خواہش کی تکمیل کی مزید خواہش نہیں رہی تھی ۔ وہ قدرت کا ایک ایسا شاہکار تھا کہ اسکی کوئی اور مثال اس کرۂ ارض میں ملنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن تھا ۔مجھے بالکل ایسا لگا جیسے کسی اور سیارے سے کوئی اور مخلوق زمین پر اتری ہو۔مسلم علی شاہ صاحب اُس جانور کے خدوخال ،چال چلن ، حرکات و سکنات اور عادات و خصائل کا ذکر بڑے فصاحت و بلاغت سے فرمارہے تھے تاہم اُس جانور کی دل اویزی و خوبصورتی کی مکمل تشریح کے باوجود بھی اپنے الفاظ میں تشریح کی تشنگی کا احساس لمبی آہیں بھربھر کر مٹانے کی کوشش کرتے رہے ۔ موصوف کے اس طرز گفتگو سے یہ جاننے میں قطعی طور پر دقت نہیں ہوتی تھی کہ ایک انسان اپنے پیشے سے جنون کی حد تک محبت کرے تو وہ دل سے سننے والوں کو اپنی کہانی سناتے ہوئے بعض اوقات جذبات کے دھارے میں بہہ جاتا ہے ۔یہی کچھ مسلم علی شاہ کے ساتھ بھی بار بار ہوتا رہا ۔ چرند ،درند اور پرندوں کے طرز زندگی ، انکی ضروریات اور ان کی مجبوریوں کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کئی مرتبہ آبدیدہ بھی ہوئے پھر متعدد بار اپنے آپ کو سنبھالتے بھی رہے ۔صاحب موصوف جنگلی حیات کے مستقبل کو تشویش کی نظر سے دیکھتے ہیں ۔ انہوں نے اپنی طرف سے جنگلی حیات کی تحفظ کے لئے ہر ممکن کوششکی ہے اگرچہ اس وقت وہ اپنے فرض منصبی سے سبکدوش ہو چکے ہیں تاہم اپنے تجربات کی روشنی میں مفید مشورے دیتے رہتے ہیں ۔ موصوف کے ایک افسر نے اُن کے سالانہ کارکردگی کی ایک رپورٹ میں یہ الفاظ لکھے تھے “As a professional ,Mr.Muslim Ali shah is an asset for the department” ۔ ان کی نزدیک سکولوں میں جنگلی حیات کی تحفط کے حوالے سے نصاب سازی کی سخت ضرورت ہے لیکن نصاب سازی کرکے اطلاق ہونے تک شاید جنگلی حیات کی بہت ساری اقسا م مفقود ہو ہو پائیں گی لہذا سرِ دست ایک ہی طریقہ مناسب معلوم ہوتا ہے وہ یہ کہ جنگلی حیات کے مسکنوں کے قریبی بستیوں کے باسیوں کو حکومت کی طرف سے معاوضہ کی ادائیگی کی جائے انہیں یہ احساس دلایا جائے کہ جو لوگ یا محلے جنگلی حیات کی حفاظت کریں گے ان کی خطیر انداز سے مالی اعانت ہوتی ہے ۔تاکہ وہ جانوروں کو جان سے مار کر فائدہ لینے کے بجاے ان کی پرورش و پرداخت کرکے زیادہ فائدہ حاصل کر سکیں ۔ پہاڑوں اور جنگلوں کے قریب بسنے والے لوگ وہ لوگ ہوتے ہیں جو کہ انہیں اپنی جاگیر کا مفید حصہ سمجھتے ہوئے ان کی حفاظتکر سکتے ہیں۔

جنگلی حیات کی تحفظ کے ضمن میں مسلم علی شاہ ایک انسائیکلو پیڈیا ہے ۔ محکمہ جنگلی حیات کو اگر مستقبل میں چترال میں تاریخ ساز کارنامہ انجام دینا ہے تو صاحب موصوف کو اپنے ادارے کے قیمتی اثاثے کے طور پر دوبارہ اپنانا ہوگا ۔اب مضمون کے پہلے پیشہ ور نے مجھے حیرت میں ڈال کر جو سوال میرے ذہن میں جھونک دیا تھا اس سوال کا جواب مسلم علی شاہ سے گفتگو کے بعد شاید آپ تمام قارئین کو واضح انداز میں مل گیا ۔

Related Articles

Check Also
Close
Back to top button