گوشہ اردو

تعلیم اور انسانی روّیے

تعلیم وتربیت انسانی معاشرتی زندگی کےلئے مشعل راہ ہوتی ہے۔ دنیا میں ان قوموں نے ترقی کی ہے جو تعلیم سے دوستی اور جہالت سے دور رہی ہیں۔ اس لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بارے میں حکیم ناصرخسرو ؒ فرماتے ہیں؛
’معزول شُد دو چیز جہاں از دو چیز تو
از علم تو جہالت از جودِ تو متال‘
یعنی آپ کی دو خوبیوں کی وجہ سے دنیا سے دو بری چیزوں کا خاتمہ ہوا ایک یہ کہ آپ کی علم و حکمت اور دانائی سے جہالت کا خاتمہ ہوا اور دوسرا یہ کہ آپ کی سخاوت سے غربت کا اختتام ہوا۔ دین اسلام کا آفاقی پیغام بھی ہمیں یہی سیکھاتاہے کہ ہم علم و عمل سے اپنے معاشرے کو آگے لائیں۔ اسلام کا پیغام پوری عالم کےلئے ہے نہ کہ مخصوص علاقے کیلئے۔ پوری اسلامی تاریخ میں یہ بات مسلمہ حقیقت بن چکی ہے جب بھی مسلمانوں نے علم کا دامن تھام لیا وہ کامیابی سے ہمکنار ہوئے ورنہ ناکامیابیوں کاشکار رہے۔آج ہم اتحاد بین المسلیمن کی بجائے اپنے اپنے لئے ڈیڑھ ڈیڑھ انچ کی مسجدیں بنا رہے ہیں۔ کیا اس طرح ہم دینا میں سرخرو ہونگے؟ میڈیا کے اس زمانے میں جہاں دنیا عالمی دیہہ(Global Village) بن گئی ہے وہاں اگر ہم آپس کے اختلافات کا شکار رہے گے تو یقینا ہم اپنا وقت ترقی کی بجائے انفرادی سوچ میں ضائع کررہے ہونگے۔ آج معاشرے میں مشترکات کی بات ہونی چائیے۔ اجتماعی امن اور باہمی اتفاق ہی سے ہم بھائے چارے اور امن کا مظاہرہ کرسکتے ہیں۔ گلگت بلتستان میں ویسے بھی تعلیم کی کمی ہے۔ اب تک ہم اپنی قوم کو بنیادی تعلیم کی سہولت نہ دے سکے ہیں۔ تحصیل لیول کے ایک ایک ہائی سکول اور کئی دیہاتوں میں ایک پرائمری سکول بنانے سے تعلیم عام نہیں ہوسکتی ہے۔ بنیادی تعلیم ہی میسر نہیں تو ہم معیاری تعلیم کی بات کس طرح کرسکتے ہیں؟ اس صورت حال میں معاشرہ تقسیم کا شکار ہوگا اور کیا ہوگا؟ ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں تعلیم چار قسم کی ہے اور حقیقتاََ معاشرہ جس کی عکاسی بھی کر رہاہے۔ پہلی قسم امیروں کی تعلیم جو انگریزی اور عالمی زبانوں میں ہے۔ دوسری قسم کی دینی تعلیم ہے جو ہر مسلک کے لوگ اپنے طور پر انتظام کرتے ہیں۔ تیسرے درجے میں سرکاری تعلیمی ادارے ہیں جو اپنے قدیم نصاب کے ساتھ قدیم نہج پر آگے جارہے ہیں اور چوتھی قسم نجی اداروں میں تعلیمی کوشیش ہیں جو سالانہ نصاب تبدیل کرتے رہتے ہیں۔ سالوں کے بعد جب بچے مارکیٹ میںاپنے مخصوص ذہین اور نفسیات کے ساتھ آتے ہیں جو کوشش کے باوجود ایک دوسرے سے نہیں مل سکتے ۔ ان اداروں کی یہ تقسیم آگے چل کر معاشرے کو بھی تقسیم کردیتی ہیں۔ اس تقسیم کے بعد یہ چاروں گروپ اپنے رویوں سے ایک دوسرے کے مقابلے میں آتے ہیں اور معاشرہ ہمیشہ امن کی بجائے افراتفری کا شکار رہتاہے۔ اس تقسیم سے مکانات سے لیکر لباس تک متاثر ہوتے ہیں اور لوگ حلیوں میں بھی تقسیم ہوجاتے ہیں۔ اس تقسیم پر کارل ماکس چلاتے رہے۔ غریب اور امیر کا رنگ پکڑنے والی یہ بیماری دراصل تعلیم کی کمی اور مساوی تعلیم و تربیت نہ ہونے کی وجہ سے وجود میں آتی ہے جو آگے چل کر ان دو گروپوں میں تصادم کی وجہ بنتی ہے۔ اس معاملے میں مذہبی اور غیر مذہبی عناصر بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں اور یوں معاشرے میں امن تو
دور کی بات ہے ایک ساتھ جینا بھی مشکل ہوجاتاہے۔ اس حوالے سے یہ کہنا بھی مشکل ہے کہ معاشرہ با لکل ایک جیسا ہو لیکن ایک حد تک ہم کم از کم کوشش تو کرسکتے ہیں۔
تعلیمی صورتحال کے بارے میں سوچنے سے پہلے نظام تعلیم پر سوچناوقت کی اہم ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر گلگت بلتستان میں ہر ایک تحصیل میں ایک سرکاری ہائی سکول قائم ہے۔ انسانی آبادی اس سکول کی عمارت سے اس قدر دور دور واقع ہے کہ سکول کے قریب کے لوگ ہی اس سے استفادہ حاصل کرسکتے ہے۔ ہائی سکول گلغلمولی‘ ہائی سکول پھنڈر‘ ہائی سکول گوپس‘ ہائی سکول یاسین‘ ہائی سکول تھوئی‘ ہائی سکول پکورہ‘ ہائی سکول گاہکوچ‘ ہائی سکول سنگل‘ ہائی سکول شیر قلعہ اور دیگر ضلعوں کے تحصیل میں واقع سرکاری سکولوں کے بارے میں سوچو کیا ان سکولوں تک بچوں کی رسائی ہے؟اتنے دور دور پھیلے ہوئے گاﺅں کے لئے ایک ایک سکول ممکن ہے؟ اس مجبوری کو محسوس کرتے ہوئے ہر گاﺅں میں نام نہاد ہائی اسکول بنائے گئے ہیں جو محض اعداد شمار میں آتے میں اور قراقرم یونیورسٹی کے نتائج میں ان کے معیار کا اندازہ ہوجاتاہے۔اس صورتحال میں کیا یکسانیت ہوگی؟ پھر ہر مسلک نے اپنے بچوںکےلئے الگ سکول(مدرسے) کھولے ہیں جس میں مخصوص رویے بنتے ہیں جب مستقبل میں یہ سب لوگ ایک جگے میں ہونگے تو کیا ماجرہ ہوگا؟ سکول ہی میں دوستی اور محبتیں بڑھتی ہیں اب ہم نے اپنی قوم سے وہ بھی چھین لیا؟ ان کے علاوہ خواتین کے لئے سکول الگ ہیں؟ گویا ہم نے معاشرے میں اتنے گروہ بنا رکھے ہیں جو کبھی بھی ہم خیال نہیں ہوسکتے ہیں۔یہاں تک آج کے اخبارات(۱۳ مارچ) میں خبر آئی ہے کہ گلگت شہر کے چلنے کے روٹ کی گاڑیاں بھی الگ الگ ہونگی اور وہ بھی ایک خاص ’تاریخی عدد‘ کے ساتھ؟ واہ جی واہ ہم اپنی قوم کو کہاں لے جارہے ہیں؟ سکول الگ‘ تربیت الگ‘ چلنے کے راستے الگ‘ سوچ کے زاویے الگ‘ رسومات الگ‘ خیالات الگ‘ نفسیات الگ ۔۔۔ الغرض ہم کیا کیا الگ کرینگے؟ عالمی دباﺅ کے اس زمانے میں ہم اس قدر الگ الگ دائروں میں رہنگے توکیسے دنیا کے بڑے بڑے مسائل کا مقابلہ کرینگے جس کا اسلام کو سامنا ہے۔ ظاہر ہے اس قسم کے ماحول سے یہود و نصارا اور دوسرے قومیں ہی فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔ علامہ اقبال فرماگئے ہیں:
مشرقی سرِ دشمن کو کچل دیتے ہیں ‘ مغربی ان کی طبیعت کو بدل دیتے ہیں
انسانی طبیعت کو بدلنا بھی کوئی اسان کام نہیں۔ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر انسان کی ہدایت کے لئے اس دنیا میں تشریف لائے لیکن آج بھی انسان بھٹکا ہوا نظر آتا ہے۔ تعلیم ہی وہ ایک ذریعہ ہے جس کی مدد سے انسان کی طبیعت کو بدلا جاسکتا ہے۔ انسانی روّیے تعلیم ہی سے تبدیل ہوجاتے ہیں اور تعلیم سے انسان جہالت سے روشنی کی طرف رخ کرتا ہے۔ قرآن پاک نے اس سفر کو’ظلمات الیٰ النور‘ کہا ہے۔ اقبال ہمیں نکتہ بتا کر گئے ہیں؛
تعلیم کے تیزاب میں ڈال اُن کی خودی کو
ہوجائے ملائم تو جدھر چائیے اُدھر پھیر‘
اس عمل میں ہم دو مسائل کا شکار ہیں ایک تعلیم کی عدم دستیابی اور دوسرا جو دستیاب ہے وہ ایک دوسرے سے بہت مختلف ہے۔ علم کا نہ ہوا بھی جہالت ہے اور علم کا مختلف ہونا بھی جہالت ہے۔ وہ اس طرح کہ دونوں تعلیم تو حاصل کرتے ہیں لیکن ایک دوسرے سے غافل ہیں۔ اس طرح ہی معاشرے میں ’جہالت کا تصادم‘ ہوتا ہے۔ اس تناظر میں تکثیرت ہی وہ واحد حل ہے جس کا ہر ایک طبقے کو علم ہونا چاہئے۔ یعنی ایک نکتے کے کئی ایک تشریحات۔ اس ضمن میں ان تمام تشریحات کا ایک دوسرے کو علم ہونا ہی تکثیرت ہے۔ ان تشریحات کا ایک دوسرے کو علم نہ ہونا پھر جہالت کے زمرے میں آتا ہے۔ اس دور میں ہر ایک مسلک اور ہر ایک دین کے بارے میں اصلی ذرائع سے علمی تحقیق ہی ہمیں روشنی کا باعث بنا سکتی ہے۔ سنی سنائی تعلیم اور حقائق میں تضاد کرنا اب کنجائش سے باہر ہے کیونکہ انٹرنٹ میں اصلی حقائق بھی موجود ہیں لہذا کسی کے بارے میں اب بھی جہالت پھیلانا ممکن نہیں رہا۔ اس لئے ہمیں چائیے کہ ہر ایک کی شناخت کا احترام کرکے ہر ایک کو جینے کا حق دینا چاہئے۔ حکومت وقت کو اس معاملے میں سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے تاکہ گلی گلی میں تعلیم کے کاروبار سے اس قوم کو نجات دلاکر ایک نہج پر لایا جاسکے۔ تعلیمی نصاب میں علاقائی نہیں ملکی سطح ہونے کے ساتھ ساتھ عالمی معیار کا ہونا چائیے تاکہ ہم دنیا کا مقابلہ کرسکے ۔ اس وقت ہمیں ذہنی بلوغت اور وسعت النظری کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔اعلیٰ تعلیمی اداروں کے ساتھ تعاون اور قراقرم یونیورسٹی میں ایک چھت تلے تعلیم کو اور مضبوط کرنے کی ضرورت ہے تاکہ علاقائی امن میں بھائی چارے کو فروغ حاصل ہوگی۔ طلباءکو ہمیشہ اپنی گلی سے باہر بھی جانے کی ہمت بھی ہونی چائیے اب گروہی تعلیم نہیں عالمی معیاری تعلیم کی باتیں ہونی چائیے۔ وسعت النظر کا اس طرح سماں ہوکہ؛
حالات کے قدموں پہ قلندر نہیں گرتا
ٹوٹے بھی جو تارہ تو زمین پر نہیں گرتا
گرتے ہیں بڑے شوق سے سمندر میں دریا
لیکن کسی دریا میں سمندر نہیں گرتا

Related Articles

One Comment

  1. Efforts made to bring forth some important points regarding this very crucial and relevant topic are appreciable and it voices against the factors which are really damaging to our society. To ensure peace, tranquility and brotherhood in society, we need to make sure that our public has access to basic quality education. Without education, our society will be ignorant and its result will be conflict and backwardness. Our young writers such as Muhammad Jan and others have doing valuable services to the region and the people of the region. Keep it up please.

Back to top button