گوشہ اردو

کریمی صاحب کا قصہ غم ….امیر جان حقانی

عبدالکریم کریمی صاحب سے شناسائی کافی پُرانی ہے۔ اُنہوں نے ادب کے اکثر اصناف پہ طبع آزمائی کی ہےں اور کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ وہ درجن بھر کتابوں کے مصنف ہیں۔ اُن کی کتابوں میں اکثر شعری مجموعے اور قومی و مقامی اخبارات میں اُن کے چھپے کالموں کے مجموعات شامل ہیں۔ یہاں تک میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ اُن کی تحریریں وجد آفریں ہوتیں ہیں۔ کریمی صاحب کی اکثر تحریریں میری نظر سے گزر چکی ہیں۔ کبھی کبھار تو وہ ڈوب کر لکھتے ہیں۔ اُسلوبِ نگارش بڑا پیارا ہے۔
کچھ دِن پہلے اُن کی نئی کتاب ”تیری یادیں“ منصہ شہود پر آئی۔ یہ اُن کا شعری مجموعہ ہے۔ اُن کے کلام میں بہت ہی تلخیاں دکھائی دیتی ہیں۔ اگر صاحب دِل اور ذوقِ لطیف رکھنے والا آدمی اِس شعری مجموعے کا مطالعہ کریگا تو یقینا اُس کی آنکھیں نمناک ہونگیں۔
کریمی صاحب نے اپنی نئی کتاب کے اِنتساب میں ایک جملہ لکھا ہے۔ اگر میں یہ کہوں تو حق بجانب ہوگا کہ اِس ایک جملے نے کریمی صاحب کی پوری زندگی کا احاطہ کیا ہوا ہے۔ میں پورے وثوق سے کہتا ہوں کہ سچ یہ ہے۔ آپ کتاب کے اِنتساب کو دیکھئے گا اور محظوظ ہوجائیے گا۔ اِنتساب کچھ اس طرح ہے:
”اُن اوّلین جمیلہ کاوشوں، عظمیٰ اِرادوں اور شگفتہ یادوں کے نام“
جنابِ کریمی کی اوّلین جمیلہ کاوشوں میں ایک دُکھ ہے، ایک درد ہے، ایک فسانہ ہے اور غم عاشقی کا رونا۔ اور عظمیٰ اِرادوں میں پیارو محبت اور غم جاناں کا ایک اُمڈتا ہوا دریا۔ جو ہر صاحب نظر کو بہتا ہوا نظر آئے گا۔ کریمی صاحب کے عظمیٰ اِرادوں میں خوف کے سائے بھی ہیں اور حالات کا نوحہ بھی۔ منزل کی راہیں بھی اور اُلجھتے راستے بھی۔ آنسوو¿ں کے ستارے بھی اور غم فراق بھی۔
کریمی صاحب کی شگفتہ یادوں کے تو کافی عینی شاہدین بھی ہیں۔ لاریب کہ اُن کی شگفتہ یادیں حد سے زیادہ شگفتہ ثابت ہوئیں۔ کریمی صاحب کو کیا معلوم کہ زمانہ بہت ”اَپ ڈیٹ“ ہوا ہے۔ روز بروز شگفتگی کے پھول کھلتے ہیں اور ٹیکنالوجی نے اتنی ترقی کی ہے کہ خزاں میں بھی شگفتوں کی بھرمار ہوتی ہے۔ کریمی صاحب کی شگفتہ یادوں میں شگفتوں کی محبت، پھر ریاضت، پھر اُن پر عنایت، اور اچانک آپس میں مسافت، اور مسافت کے بعد بغاوت، بالاخر نتیجے کے طور پر رفاقت ہی رفاقت ہے۔
قارئین کرام! شاعری پر تو ایک شاعر ہی تنقیدی نظر ڈال سکتا ہے۔ میں شاعر نہیں مگر پھر بھی شاعروں کے مجموعے پڑھ کر اُن کے اِظہار غم و دُکھ کو سمجھ سکتا ہوں۔ سو‘ کریمی صاحب کی شاعری میں غم دوراں سے زیادہ غم جاناں دکھائی دیتا ہے۔ پھر اُن کی شاعری بھی تو یادِ ماضی کا قصہ ہی ہے اور یہ اٹل ہے کہ ماضی کی یادیں عذاب ہوا کرتی ہیں۔ یہ یادیں چاہے رزیلہ ہوں یا جمیلہ، ادنیٰ ہوں یا عظمیٰ، پراگندہ ہوں یا شگفتہ، یادیں، یادیں ہی ہوتی ہیں۔
کریمی صاحب کا ادبی رسالہ سہ ماہی ”فکرونظر“ غذر/گلگت بلتستان و چترال ادبی قدوقامت کے اعتباد سے ضرور جواں ہوچکا ہے۔ اُن کے میگزین کا ٹائٹل جس قدر جاذب النظر ہوتا ہے، اُس سے کئی گنا زیادہ اُن کی نئی کتاب ”تیری یادیں“ کا سرورق خوبصورت ہے اور پھر اِنتسابِ کتاب کا تو کیا کہنا۔
کریمی صاحب سے دست بستہ اِلتماس ہے کہ اِس قصہ¿ غم کو ترک کر دے کیونکہ اب تو جناب کریمی خالدہ وفاو¿ں کی تلاش میں سرگرداں ہیں اور سوسن پریوں کے وصال میں خونِ جگر پیتے ہیں۔
میں نہیں چاہتا کہ اُن کی نئی آنے والی کسی کتاب کا اِنتساب کچھ یوں ہو:
”اُن اوّلین جمیلہ کاوشوں، عظمیٰ اِرادوں، شگفتہ یادوں اور آخرین خالدہ وفاو¿ں اور سوسن وصالوں کے نام“
کریمی! بس کرو اب قصہ غم
تیرا دِل ہے کوئی پتھر نہیں ہے

Related Articles

Back to top button