گوشہ اردو
ضلع غذر کی انتظامی تقسیم
حصول آزادی کے بعد سے اب تک گلگت بلتستان میں انتظامی جغرافیائی تقسیم ہوتی رہی ہے اور ہونابھی چاہئے کیونکہ چھوٹے انتظامی یونٹوں کا انتظام سیاسی و انتظامی لحاظ سے بھی اہم اور بہترہوتاہے۔ گلگت بلتستان میں موجودہ نئے سیٹ اب کے آنے کے بعد روز بروز ہم نئے ضلعوں اور سب ڈویژنوں کا سنتے آرہے ہیں۔ اب تو حد یہ ہوگئی کہ چالیس سے پچاس ہزار کی آبادی پر مشتمل ضلعے بن گئے ہیں یا بن رہے ہیں۔کچھ علاقوں سے معزز ممبران محض چند ہزار ووٹ لیکر اسمبلی میں پہنچے ہیں۔ اس معاملے میں ضلع غذر شروع دن سے نظر انداز ہوتا رہا ہے۔غذر کی حالت تو یہ رہی ہے کہ 1970ءسے 1994ءتک محض دو سیٹیں تھی جس کی وجہ سے عوامی مسائل حل نہیں ہوسکے۔ 1994ءسے ضلع غذر کو تین سیٹیں ملیں لیکن وسیع و عریض رقبے کی وجہ سے عوامی مسائل حل ہونے کی بجائے پیچیدہ ہوتے گئے۔ ہم اپنے حلقے کے ممبر کو پہلی اور آخری دفعہ ووٹ کے دنوں میں دیکھتے ہیں۔ ان کو گلہ بھی نہیں کیونکہ گلاپور سے شندور تک ایک آدمی کہاں کہاں پہنچے گا۔ یہی حال شیر قلعہ سے اشکومن ایمت ‘ غوٹلتی تک ہے اور گم سنگ سے درگوت اور تھوئی تک ایک حلقہ ہونا انتظامی اور سیاسی لحاظ سے بہت بڑا ظلم ہے۔ ووٹ کے دنوں میں سیاسی امیدواروں کو بھی سخت مشکل کاسامنا ہوتاہے۔غذر کےلئے اضافی سیٹیں یا دو ضلعوں میں تقسیم ہونا وقت کی ضرورت ہے تاکہ سیاسی حکومت ترقیاتی کام کرواسکیں۔ آئیے آپ کو غذر کی سیر کراتے ہیںتاکہ آپ سوچ سکیں کہ ضلع غذر میں بھی دو ضلعے بن سکتے ہیں کہ نہیں۔
ضلع غذر‘گلگت بلتستان کے شمال مغرب میں گلگت سے 72کلومیٹردورواقع ہے۔ گاہکوچ ضلع غذر کا دارلحکومت ہے۔ غذر نقشے میںشمال کیطرف 36°10’36.03″N اور مشرق میں73°45’29.53″E واقع ہیں۔ غذر‘ یاسین(ورشگوم)، گوپس اور کھوہ کے علاقے کبھی کوہ غذرکے نام سے پکارے جاتے تھے۔ قدیم زمانے میں گوپس کے تین حصے تھے۔ پہلا شندور سے آگے مستوج تک دوسرا چھشی سے شندور تک اور تیسرا ہوپر سے پنگل تک۔ 1895ءمیں کوہ غذرکے ان علاقوں کو ملا کرایک ریاست بنائی گئی جس کا نام کھوہ و غذر پڑ گیا وقت کے ساتھ ساتھ’ کھوہ‘ کا لفظ غائب ہوا اور غذر مشہور ہو گیا۔

قدیم زمانے میں غذرسمیت دیگر علاقوں کی سیاسی اور جغرافیائی تقسیم کبھی بھی ایک نہیں رہی ہے۔ مہتران چترال کے زمانے میں یاسین‘گوپس اوراشکومن چترال کے انتظامی حکمرانی میں تھے بعض اوقات یہ علاقے ریاست یاسین کی نگرانی میں رہے ہیں۔ اکثر یہ علاقے خود مختار ریاستیں بھی رہاکرتی تھیں۔ 1889ءمیں گلگت ایجنسی بننے کے بعد بہرحال ان علاقوں میںتین طرح کے حکمران تھے۔پہلا پولیٹیکل ایجنٹ دوسرا وزیر وزارت اور تیسرا وزارت گلگت کے افسر شاہی۔ مقامی راجے مہاراجہ کشمیر کی آشیرباد سے الگ اقتدارکے مزے لے رہے تھے۔ ماہرین 1935ءسے پہلے گلگت ایجنسی کے انتظامی ڈھانچے کانقشہ اس طرح بتاتے ہیں۔ جس میں ضلع غذر کی تقسیم یوں تھی؛ ۱) جاگیر پونیال ۲) گورنر شب یاسین اور کوہ غذر ۳)۔ گورنر شب اشکومن
1998ءکی مردم شماری کے مطابق پونیال اشکومن کی آبادی 56179 اور گوپس یاسین کی آبادی 64039افراد اور مجموعی آبادی 1,20,218افراد پرمشتمل ہے۔ جو اب تک بڑھ کر 160,000سے تجاویز کر گئی ہے۔ پروفیسر عثمان علی کے مطابق ضلع غذر کا مجموعی رقبہ11911مربع کلومیٹرہے۔ جوکہ مندرجہ ذیل نسبت سے ہے؛پونیال‘ 1637 کلومیٹر، یاسین‘ 2258مربع کلومیٹر، گوپس‘ 5232مربع کلومیٹراوراشکومن‘ 2792مربع کلومیٹررقبے پرمشتمل ہیں۔پروفیسر منظوم علی(2004ئ)کے مطابق سب ڈویژن پونیال اشکومن4276مربع کلومیٹر اور گوپس یاسین 7496مربع کلومیٹر ہے۔ ڈی سی غذرکی معلومات کے مطابق غذر کاکل رقبہ 4602مربع میل ہے۔
ان حقائق کے پیش نظر اس ضلعے میں بھی دو ضلعے بن سکتے ہیں جن کے لئے مختلف جگہوں سے آوازیں بھی آرہی ہیں۔ روزنامہ بادشمال(۴۱ مئی ۲۱۰۲ئ) کو ایک خبر لگی تھی” یاسین اور گوپس پر مشتمل نیا ضلع قائم کیا جائے“۔ اس خبر کو صوبائی وزیر تعمیرات سے منسوب گیا کیا ہے۔ یقینا راجہ جہان زیب اور دیگر سیاسی و سماجی لوگوں کا یہ مطالبہ حق بجانب ہوسکتا ہے کیونکہ اس ضلعے میں وسیع اور پھیلے ہوئے حلقے ہونے کی وجہ سے عوامی مسائل حل نہیں ہورہے ہیں۔ مالی وسائل بروقت ہر گاﺅں تک نہیں پہنچتے ہیں۔ شگر اور کھرمنگ ضلع بن سکتے ہیں جن کی آبادی پچاس ہزار سے کم ہے۔ جگلوٹ اور دینور سب ڈویژن بن سکتے ہیں تو یہ غذر کا بھی حق ہونا چاہئے۔ ہم اپنے نمائندوں اور موجودہ حکومت سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ اس معاملے میں جلد از جلد اسمبلی میں قرارداد پیش کریں۔ غذر کا رقبہ زیادہ ہونے کی وجہ سے عوامی نمائندے ہر گاﺅں تک نہیں پہنچ پاتے ہیں۔ لوگ سینکڑوں کلومیڑ سفر کرکے اپنے منتخب ممبران سے ملنے ہیڈ کوارٹر تک آتے ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں وزیر اعلیٰ اور موجودہ وزراءاس مسئلے کی طرف توجہ دینگے۔ تمام سیاسی وسماجی شخصیات سے بھی گزارش ہے کہ وہ اس معاملے میں اتحاد کے ساتھ آگے بڑھیں۔ عوامی سطح پر بھی اس معاملے پر شعوری تقاریب ہونی چاہئے۔ اگرچہ اس معاملے میں مالی وسائل درکار ہوسکتے ہیں جن سے ہم اگاہ ہیں لیکن ہر وقت مالی مسائل ہماری باری پر کیوں پیش آتے ہیں؟کیا غذر دو ضلعوں میں تقسیم ہونا چاہئے؟ آپ کا کیا خیال ہے؟