گوشہ اردو

مذہبی بنیادوں پر پیکج کی مخالفت اور حمایت

ممتاز حسین گوہر 

کسی بھی معاشرے میں مذہب کو سیاسی مقاصد کے حصول کےلئے استعمال کیا جاتاہے تو اس سے یقینا معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے. اس وقت گلگت بلتستان میں بھی ایسا ہی کچھ کھیل کھیلا جارہا ہے ۔ جس میں گلگت بلتستان کو دئیے جانے والے اصلاحاتی پیکج کی حق اور مخالفت میں عوام کو دو واضح مسلکی اور مذہبی بنیادوں پر تقسیم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور اس کےلئے باقاعدہ مسجدو منبر کا سہارا لیا جارہا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ عوام ایک دوسروں سے دور ہوتے جارہے ہیں اور گلگت بلتستان میں مذہب اور مسلک کے نام پر جو ایک لائن ڈالی گئی ہے وہ بڑھتی جارہی ہے اور جو خلیج پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے وہ مذید گہری ہوتی جارہی ہے۔

اگر ہم گلگت بلتستان اور بالخصوص گلگت شہر کے حالات کو دیکھے تو حالات روز بروز ابتر ہوتے جارہے ہیں۔ حالات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے علماءسیاستدان اور دیگر ذمہ داروں کا فرض بنتا ہے کہ وہ عوام کو ایک دوسرے سے دور لے جانے اور ان کے دلوں میں ایک دوسروں کےلئے نفرت پیدا کرنے کی بجائے عوام کو ایک دوسروں کے قریب لانے اور حالات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے مسائل کو مل بیٹھ کر حل کرنے کی ضرورت پر زور دے.  اگر اس بات کو بروقت سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش نہیں کی گئی تو وہ قوتیں اور عناصر جو شروع سے گلگت شہر میں امن و امان کی صورتحال خراب کرنے کے درپے رہے ہیں وہ ان حالات سے فائدہ اٹھا کر اپنے مذموم مقاصد کے حصول میں کامیاب ہو سکتی ہیں ۔ اور اس وقت افسوس کرنے سے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔

گلگت بلتستان کو دیے جانے والے موجودہ اصلاحاتی پیکج کے حوالے سے پیکج کے خالق اور پیپلزپارٹی کا حکمران طبقہ بھی اس بات کا واضح اعتراف کر رہا ہے کہ اسے آئینی تحفظ حاصل نہیں ہے اور نہ ہی یہ کوئی حرف آخر ہے کہ جس میں تبدیلی یا ترمیم نہ کیا جا سکے۔ اس پیکج کے اندر موجودہ خامیوں کا اعتراف پی پی کے رہنماءاور ممبران اسمبلی بھی کئی بار کر چکے ہیں۔ یعنی اس پیکج میں اصلاح اور تبدیلی کی بڑی حد تک گنجائش موجود ہے۔

اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ وقت کو ہی پیکج کی تبدیلی کے مطالبے کےلئے کیوں چنا گیا؟ کیا یہ وقت پیکج کی تبدیلی اور اسے ختم کرنے کےلئے موزوں ہے؟ اس وقت پاکستانی حکومت فوج اور عدلیہ کے ساتھ ٹکراﺅ کی وجہ سے اتار چڑھاﺅ کی کیفیت میں مبتلا ہے، این آر او عمل درآمد کیس میں  پاکستانی حکمران خود ایسے مسائل کی گرداب میں پھنس چکے ہیں  کہ وہاں سے ان کا باہر آنا بہت مشکل لگ رہا ہے. ایسے میں اگر موجودہ پیکج کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی یا اگر ختم کیا گیا تو موجودہ حکومت اس پوزیشن میں ہے کہ اس سے بہتر، متوازن اور سب کےلئے قابل قبول آئینی پیکج دے سکے۔

میرے خیال میں یہ وقت ایسے فیصلوں کےلئے موزوں نہیں ہے. اگر ہم حقائق کو مدنطر رکھ کر دیکھے تو اس پیکج میں ان حقوق کی بات نہیں ہے جو یہاں کے عوام چاہتے ہیں ۔ عوام اب بھی اس سوچ میں مبتلا ہیں کہ جب اگلی حکومت پیپلزپارٹی کی نہیں ہو اور پیپلزپارٹی کے صدر بھی نہ رہے تو کیا وہ حکومت اس پیکج کو ختم نہیں کر سکتی ہے۔ اس پیکج کے اندر عوام کو حقوق کی فراہمی انہیں بااختیار بنانے اور نئے اداروں کے قیام کی بات کی گئی تھی۔ مگر اب دو سال گزرنے کے باوجود وہ ثمرات عوام تک نہیں پہنچ پا رہے ہیں۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ موجودہ پیکج کو قابل عمل بنانے اور تمام مکاتب فکر کےلئے قابل قبول بنانے کےلئے بہت گنجائش موجود ہے۔

مگر مسلکی بنیادوں پر اور مذہب کو بطور سیڑھی استعمال کرکے اس کے حق میں اور مخالفت میں بیانات دینے سے نہ صرف سیاسی نظام کو دھچکا لگے گا بلکہ اس سے مذہبی رواداری اور ہم آہنگی پر مذید منفی اثرات مرتب ہونے کے ساتھ ساتھ علاقے میں پائیدار امن کےلئے کی جانی والی کوششوں کو شدید زک پہنچ سکتا ہے۔گلگت کے موجودہ حالات میں، کہ جب ہم ایک معصوم اور بے گناہ شہری کی لاش گرانے سے دوسرے شہری کے زخمی یا قتل ہونے تک کے وقفے کو امن کے نام سے یاد کرتے ہیں،  مسلکی ،ذاتی اور علاقائی اختلافات بھلا کر پائیدار امن کےلئے کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ جس میں ایسا نہ ہو کہ ہم انسانی جانوں کے ضیاع اور زخمی ہونے کے درمیانی وقفے کو امن کہے بلکہ ایسے واقعات اور شرپسند اور مذموم مقاصد رکھنے والے عناصر کو خود ہی قانون کے حوالے کر دیں۔

کوئی بھی شخص ایسے عناصر کی رہائی اور ضمانت کےلئے قانون کے دروازے پر نہ جائے بلکہ یک زبان ہو کر سارے شہری ایسے عناصر کو گھڑی باغ یا دوسرے اہم پبلک چوک پر الٹا لٹکانے کا مطالبہ کریں.  اور جہاں تک موجودہ پیکج کو ختم کرنے اور اس کی اصلاح کی بات ہے اس کےلئے تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں سمیت عوام کی رائے کا احترام ضروری ہے۔ تاکہ ایسا کوئی سیاسی نظام وضع ہو سکے جسے نہ آگے والی حکومتوں سے خطرہ ہو نہ ہی یہاں کے20لاکھ عوام اپنے مستقبل کے بارے میں مختلف وسوسوں کا شکار ہوں۔

حالات و واقعات اور مشاہدوں سے یہ بات واضع ہورہی ہے کہ امریکہ چین سمیت دیگر عالمی طاقتوں کے مفادات گلگت بلتستان میں ایک دوسروں سے ٹکرا رہے ہیں . حکمران، سیاستدان سمیت عوام کو ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے. ہو سکتا ہے کہ گلگت شہر میں بدامنی کسی بڑی عالمی طاقتوں کی گریٹ گیم کا حصہ ہو۔ اگر ہم اس بات کو آج نہ سمجھیں گے تو ہمارا کل کبھی محفوظ نہیں ہو سکتا ہے۔

Related Articles

Back to top button