گوشہ اردو

گلگت بلتستان میں عدالتی بحران۔۔۔۔۔۔ ذمہ دار کون؟

ممتاز حسسن گوہر 

گلگت بلتستان کے اعلیٰ عدالتوں میں ججوں کی تعیناتی گزشتہ چھ ماہ سے التوا کا شکار ہے صوبائی حکومت کی طرف سے بھیجی گئی سمری وزارت امور کشمیر والوں کو پسند نہ آسکی۔ جس کی وجہ سے اس سمری کو انہوں نے بڑے عرصے تک اپنے پاس دبائے رکھا۔ جبکہ گزشتہ دنوں گورنر پیر کرم علی شاہ اور وزیر قانون وزیر شکیل کی طرف سے سامنے آنے والی بیانات میں کہا گیا کہ یہ سمری وزیراعظم کے ٹیبل پر پڑی ہے ۔ اب یہ کسی کو بھی معلوم نہیں ہے کہ چھ مہینے سے سمری وزارت امور کشمیر اور وزیراعظم ہاؤس کے ٹیبل پر موجود ہے نہ جانے مذید کتنے مہینے یا سال یہ سمری اس ٹیبل پر موجود رہیگی۔

اعلیٰ عدالتوں میں ججوں کی عدم تعیناتی اب ایک معمہ بنتا جارہا ہے۔ یہ بات بھی سامنے آرہی ہے کہ صوبائی حکومت کی طرف سے بھیجی گئی سمری وزارت امور کشمیر والوں کو راس نہیں آئی ہے وہ چاہتے ہیں کہ گلگت بلتستان کے اعلیٰ عدالتوں میں ججز ان کے ہمنوا اور چاہنے والے تعینات ہوں۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس سمری میں مقامی ججز کی تعیناتی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ یقیناًوہ نہیں چاہتے ہیں کہ گلگت بلتستان کے اعلیٰ عدالتوں میں ججز مقامی ہوں۔ وہ دل سے نہیں چاہتے ہیں کہ یہاں کے لوگ بااختیار ہوں۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو کب کا اس سمری پر عمل درآمد ہوتا اور ججز کی تعیناتی عمل میں آچکی ہوتی۔

گلگت بلتستان کے اعلیٰ عدالتوں میں ججوں کی عدم تعیناتی سے مسائل میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے اہم عدالتی امور ٹھپ ہیں خطے میں کرپشن جو تھمنے کا نام نہیں لے رہی، سرکاری ملازمتیں جو کھلے عام بک رہی ہیں، گلگت شہر میں امن و امان کا صورتحال یعنی آئے روز لاشوں کا گرنا اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے بالکل اسی طرح کے کئی دوسرے اہم مسائل موجود ہیں مگر ان پر کوئی از خود نوٹس لینے والا نہیں ۔ خطے میں انصاف اور احتساب کو محدود کیا جارہا ہے۔ لوٹ مار ،کرپٹ افراد اور دہشتگردوں کو کھلی آزادی حاصل ہے وہ باآسانی اپنے مقاصد کو حاصل کر لیتے ہیں، ان کو یہ معلوم ہے کہ یہاں تو کوئی پکڑ دھکڑ ہوتی ہی نہیں ہے۔ اعلیٰ عدالتیں ججوں سے خالی پڑی ہیں، تو ایسے میں ان عناصر کو مذید تقویت مل جاتی ہے۔ دوسری طرف خطے میں جاری عوامی مفاد عامہ کے کاموں کی طرف دیکھتے ہیں تو صرف مایوسی ہی ملتی ہے اہم ترقیاتی منصوبے التوا کا شکار ہیں، کئی عوامی مفاد عامہ کے کاموں میں ٹھیکیدار ایڈوانس پے منٹ لیکر غائب ہو چکے ہیں۔ جس سے براہ راست یہاں کے شہری متاثر ہو رہے ہیں۔ اس سے قبل گلگت بلتستان سپریم اپیلٹ کورٹ کے سربراہ جسٹس نواز عباسی تھے۔ انہوں نے اپنے دور میں کئی اہم Goharفیصلے بھی کئے۔ جس میں کئی اہم عوامی نوعیت کے کیسز میں از خود نوٹسیز لئے جس کی وجہ سے ان کاموں پر بروقت کام شروع کر دیا گیا عوام محکموں کے سربراہوں،ساستدانوں اور بیوروکریٹس کے دلوں میں عدلیہ کا ایک خوف تھا۔ مگر اب یہ خوف بڑی حد تک ختم ہو چکا ہے۔ گلگت بلتستان کے عوام اور تمام اخبارات چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے اور اب تک کہہ رہے ہیں کہ محکمہ تعلیم میں ایک استاد کی ملازمت3 لاکھ میں بغیر ٹیسٹ انٹرویو کے بیچی جارہی ہے۔ اس حوالے سے تمام تر شواہد ہونے کے باوجود قوم کے معماروں کے ساتھ ایسا گھناؤنا کھیل جو اب تک کھیلا جارہا ہے، کسی نے اس پر ایکشن لینے کی زحمت نہیں کی۔ اور تعلیم میں اب تک جو کچھ ہو رہا ہے اس کا نتیجہ اتنا خوفناک اور مایوس کن ہوگا کہ اس سے یقیناًپورا خطہ متاثر ہوگا اور یہ کھناؤنی کھیل کھیلنے والے کم از کم اوپر والے کے عذاب سے بچ نہیں پائیں گے۔ محکمہ تعلیم کے ساتھ ساتھ دیگر اداروں میں بھی یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔ اعلیٰ عدلیہ ججوں سے خالی ہے جبکہ صوبائی حکمرانوں نے آنکھیں بند کر لی ہیں ایسا لگ رہا ہے کہ ان تمام محکموں میں ہونے والے چور دروازے سے بھرتیوں ،کرپشن ،لوٹ مار، تین لاکھ کے اساتذہ بھرتیوں اور اسی طرح کے دیگر عظیم کاموں میں تمام صوبائی حکمرانوں کو حصہ مل رہا ہے۔ ورنہ کوئی نہ کوئی تو ان عظیم کاموں کے بارے میں آواز بلند کرتا۔ گلگت بلتستان کے اعلیٰ عدالتوں میں ججز کی تعیناتی کو التواء میں رکھنے کے حوالے سے ایک رائے یہ بھی سامنے آرہی ہے کہ اس میں صوبائی حکومت کی بھی مرضی شامل ہے تاکہ ان کو خطے میں اپنے من پسند فیصلے کرنے اور پالیسیاں مرتب کرنے میں کسی قسم کی رکاوٹ پیش نہ آئے۔ اور حکومت محکمہ تعلیم، و دیگر سرکاری اداروں میں جو عظیم کام سرانجام دے رہی ہیں ان کو بطریق احسن پایہ تکمیل پہنچانے کے ساتھ ساتھ بینک بیلنس بھرو تحریک کو بھی خوش اسلوبی سے انجام تک پہنچائے۔ اس لئے صوبائی حکمران بڑے خوش ہیں کہ جتنا ہو سکے اعلیٰ عدالتوں میں ججوں کی تعیناتی التوا میں ہی پڑی رہے۔

سیلف امپاورمنٹ آرڈر 2009ء کے تحت سپریم اپیلٹ کورٹ میں بشمول چیف جج 3ججز جبکہ چیف کورٹ میں چیف جج سمیت5ججز کی تعیناتی لازمی ہے، مگر گزشتہ ڈیڑھ سال سے عدالت عظمیٰ اور عدالت عالیہ میں کئی ججوں کی پوسٹیں خالی ہیں۔ سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی ہے کہ آخر وفاقی حکومت اور صوبائی حکومت کے کیا مقاصد ہیں اپنی مرضی مسلط کرنے کیلئے عوام کو انصاف سے کوسوں دوررکھا جارہا ہے، موجودہ حکمرانی سول آمریت کی طرح لگ رہی ہے دنیا کی پوری تاریخ گواہ ہے کہ جس معاشرہ میں عوام کو انصاف میسر نہ ہو، اور عدالتوں کو مذاق بنایا جائے وہاں مسائل خود بخود جنم لیتے ہیں، گلگت شہر میں آئے روز بے گناہ مر رہے ہیں۔ گورنر ،وزیراعلیٰ سے لیکر تمام وزیراور مشیر روایتی بیانات داغتے رہتے ہیں ۔ پولیس اور دیگر سیکیورٹی ادارے روایتی خانہ پری میں مصروف ہوتے ہیں جبکہ دہشت گرد باآسانی اپنے مقاصد حاصل کرکے اگلی کاروائیوں میں مصروف ہوتے ہیں۔ یہ سب کچھ اس لئے ہو رہا ہے کہ یہاں انصاف کا کوئی نظام نہیں ہے۔ قانون کی گرفت مضبوط نہیں ہے۔ اگر یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا تو مسائل بھی چلتے رہیں گے بے گناہ مرتے رہیں گے ۔ غریب انصاف کیلئے چیختے چلاتے رہیں گے، کرپشن اپنی آخری حدوں کو چھولے گی، میرٹ کی پامالی معمول بن جائے گی، سفارش کا بول بالا ہو گا، انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہوتی رہیں گی، غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہوتا رہیگا، مذہبی،مسلکی،لسانی و علاقائی اختلافات جنم لیتے رہیں گے۔۔۔۔۔ان تمام مسائل کا حل آخر جا کر انصاف پر ختم ہو جاتا ہے، اور جب تک ایک عام شخص تک انصاف کی رسائی ممکن نہ ہو ایسے مسائل جنم لیتے رہیں گے۔

جناب گورنر پیر کرم علی شا اور وزیراعلیٰ مہدی شاہ! گلگت بلتستان کے عوام آپ دونوں سے سوال کرتے ہیں کہ آخر کب تک یہ سلسلہ چلتا رہیگا۔ کب تک ایک عام شہری انصاف کیلئے ترستا اور روتا رہیگا، کب تک خطے میں قتل و غارت گری کا سلسلہ جاری رہیگا اور لوگ اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھاتے رہیں گے، کب تک عدلیہ جیسے اہم ادارے میں پسند و ناپسند سے ججوں کی تعیناتی کیلئے کوششیں جاری رہیں گے، آخر کب تک لوٹ مار کرپشن، سفارش، اقربا پروری، چور دروازے سے بھرتیوں اور میرٹ کی پامالی کا یہ سلسلہ جاری رہیگا کب خطے میں عدلیہ کے تمام ججز کی تعیناتی عمل میں آئے اور مکمل آزادانہ طور پر اپنے فرائض انجام دے سکیں کے۔۔۔۔؟

آخر کب تک شاہ صاحبان۔۔۔۔۔! آخر کب تک یہ سلسلہ چلتا رہیگا۔۔۔۔خطے کے بیس لاکھ عوام آپ دونوں سے ان سوالات کے جوابات مانگتے ہیں۔۔۔۔۔ جب تک آپ ان سوالات کے جوابات نہیں دے سکتے۔۔۔۔ آپ کا ضمیر یقیناآپ کو ملامت کرتا رہیگا۔۔۔۔مجھے نہیں لگ رہا ہے کہ آپ کو اب بھی کوئی احساس ہو۔۔۔۔بقول شاعر

مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے؟

Related Articles

One Comment

  1. Hot issue, Current situation needs to be appointing of judges in hurry. All other problem are also due to this gap.

Back to top button