فطرت سے مادیت تک
تصّور کریں کہ ہم ایک ایسی دنیا میں رہتے ہو جہاں کوئی انسانی قانون یا سماجی رسم و رواج نہ ہو۔ ہر طرف میدان ‘ جنگل‘ پہاڑ‘ دریا‘ سمندر‘ وادیاں اور سر سبز چراگاہیں ہو۔ انسانی عمل دخل کوئی نہ ہو۔ کوئی حکمران‘ بادشاہ‘ صدر وزیراعظم‘ پولیس اور فوج کا نظام نہ ہو۔ سڑک‘ گھر‘ دکان‘ سکول‘ عبادت گاہ اور کوئی عمارت نہ ہو۔ کھانے پینے کی قدرتی نظام میں پرندوں اور آزاد جانوروں کی طرح ہو۔نسلی اور زبانی تعصبات کی بُو اورقومیتیں اور رنگ مذہب ، شادی بیاہ‘ خاندان‘ قبیلہ اور قوم کا تصور ، سائیکل‘ کار‘ جیب‘ ٹرک‘ ریل‘ جہاز اور دیگر مصنوعی زرائع آمدرفت کے ساتھ موبائیل‘ کمپیوٹر‘ آئی پیٹ‘ میموری کارڈ‘ چیب‘ ایم پی تھری سمیت کوئی بھی جدید زرائع ، کپڑے‘ بسترے اور دیگر سامان زیست کے مصنوعی نظام بھی نہ ہو۔۔۔ تو کیا ہوگا؟ قدرتی نظام ہوگا (State of Nature)۔ جب قدرتی نظام ہوگا اور منتظم قدرت خود ہوگی تو ہمیں پریشانی کس بات کی۔ ہر آدمی دنیا و مافیا سے آزادجیسے پرندے ‘ کیڑے مکوڑے اور آزاد جانور۔ لگتاہے آپ نے مائین کیا ہوگاکہ ہم جانور نہیں ہے انسان ہے۔ انسان ہونے کے ناطے ہم نے یہ تمام مصنوعی چیزیں دریافت اورایجاد کی ہے جو آج خود ہمارے لئے آسائش کے ساتھ ساتھ وبال جان بھی بن چکے ہیں۔ انسان جب فطرت کے نظام میں تھا تب بھی فساد کا مرتکب رہاہے۔ننگے افریقی ویشی قوموں کو آج بھی یوٹیوب پر دیکھا جاسکتا ہے جو آزاد اور فطرت کے نظام میں جی رہے ہیں لیکن پھر بھی گروہوں اور قبیلوں میں منقسم ہے۔ کیا دنیا کی تمام مصنوعی چیزوں کو انسان نے خود تخلیق کی ہے یا یہ سب اللہ نے انسان کی سرشت(نصیب) میں لکھی تھی؟ یہ وہ سوال ہے جس کی وجہ سے کئی مذاہب تفرقات کا شکار ہوئے۔ اختلافات اورگوناگونی کی کہانی انسان کی پیدائش سے ہی شروع ہوئی ہے اور جاری ہے۔سورۃ الرُّوم کی آیت تیس میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں’’تو تم ایک طرف ہوکر دین پر سیدھا منہ کئے چلے جاؤ اور خدا کی فطرت کو جس پر اُس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے(اختیار کئے رہو)خدا کی بنائی ہوئی (فطرت) میں کوئی تغیر و تبدیلی نہیں ہو سکتا ہے یہی سیدھاہے لیکن اکثر لوگ جانتے نہیں ہے‘‘ (30:30)۔ قدرت نے انسان کو ہر نعمت سے نوازا تھایہاں تک کہ کھانا پینا اور کئی طرح کے سہولتیں انسان کو دی گئی تھی لیکن ناشکری اور مستی کی وجہ سے یہ سب فطری نعمتیں اُن سے اُٹھا لی گئی جیسا کہ قرآن فرماتا ہے’’اور جب تم نے کہا کہ اے موسیٰ ؑ ! ہم سے ایک ہی (کھانے) پر صبر نہیں ہوسکتا ہے تو اپنے پروردگار سے دعا کیجیے کہ ترکاری اور ککڑی اور گیہوں اور مسور اور پیاز(وغیرہ) جو بناتات زمین سے اُگتی ہیں ہمارے لئے (پیدا) کردے انہوں نے کہاکہ بھلا عمدہ چیزیں چھوڑ کراُن کے عوض ناقص چیریں کیوں چاہتے ہیں؟تو کسی شہر میں جااترو وہاں جو مانگتے ہو مل جائے گااور (آخرکار)ذلت(رسوائی)اور محتاجی ان سے چمٹا دی گئی اور وہ خدا کی غضب میں گرفتار ہوگئے یہ اس لئے کہ وہ خدا کی آیتوں سے انکارکرتے تھے اور اُس کے نبیوں کو ناحق قتل کر دیتے تھے یعنی یہ اس لئے کہ نافرمانی کئے جاتے تھے اور حد سے بڑھے جاتے تھے‘‘(البقرہ:61)۔ اس آیت مبارکہ سے بھی واضح ہوتا ہے کہ انسان فطرت کی آزادی سے بھی خوش نہیں تھا اس لئے اُس کو تمام مفت نعمتوں سے محروم کیا گیا اور اب ذلت و رسوائی کی زندگی میں مصروف عمل ہے۔ یہی وہ فطرت تھی جہاں ہر انسان برابر تھے رنگ‘ نسل‘ خاصیت اور خصلت میں ایک جیسے تھے ۔ ہماری زندگی کے طبقات اُس زمانے کے بعد کی پیدا وار ہے۔ یہی طبقاتی نظام آج ہمارے لئے امیر ‘غریب اور بڑے چھوٹے کی حد تک آچکا ہے۔ جب ہم نظام فطرت سے نکل چکے ہیں اور اللہ نے سب کچھ محنت اور کوشش کے ساتھ متصل کردیا ہے۔ اب محنت مزدوری کئے بغیر رزق اور کمائی کا گمان کرنا ممکن نہیں کیونکہ مفت نعمتوں کا ہمارے اسلاف انکار کرچکے ہیں۔ جب یہی ہماری مقدر بنی ہے تو اب پوری قوم محنت مزدوری سے عاری کیوں ہے؟ ہم کیوں ایک دوسرے کے سہارے ڈھونڈتے پھرتے ہیں؟ نظام فطرت سے نکل کر اب ہم ایک دوسرے کے غلام بن چکے ہیں۔ غلامی کا یہ سلسلہ نئے انداز میں جاری و ساری ہے ۔ سورۃ النجم میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو زندگی کا اہم نکتہ بتلا دیا ہے فرماتے ہیں’’اور یہ کہ انسان کو وہی کچھ ملتا ہے جس کی وہ محنت کرتا ہے‘‘(53/39) پھر فرمایا’’ اور یہ کہ ان کی کوشش دیکھی جائے گی‘‘(53/40)۔ پھرفرمایا’’ یہ تمہارا صلہ ہے اور تمہاری کوشش (اللہ کے ہاں) مقبول ہوئی ‘‘(76/22)۔ فطرت کا تقاضا یہ ہے کہ محنت اور کوشش کی جائے تاکہ زندگی سنور سکیں۔ فطرت سے مصنوعیت تک کے سفر کو ہم اپنی اسلاف کی غلطی سمجھ کر جان نہیں چھڑا سکتے ہیں۔
مذہب اور سائنس کے انکشافات کی روشنی میں ہزاروں سال کی انسانی زندگی میں شب وروز کی تبدیلی کے بعد آج ہم اس مقام پر کھڑے ہیں۔ کئی قومیں ایسی بھی ہیں جو آج بھی نہ صرف دین کی ہدایت سے محروم ہے بلکہ انسانیت کی مصنوعی آسائشیوں سے بھی دور ہیں۔ ایک طرف لوگ مادی ترقی کے عروج پر ہیں اور اس دنیا کے علاوہ کائنات کے بارے میں بھی جاننے لگے ہیں دوسری طرف ایسے لوگ بھی ہیں جو تین وقت کی روٹی اورزندگی کے بنیادی ضروریات سے بھی دور ہیں۔ اتنے بڑے تضاد اور وقفے کی وجہ سے انسانی مساوات اور برابری کا سوال کبھی موجب نہ ہو سکا۔ انسانی زندگی کے ارتقائی سفر کے ساتھ ساتھ انقلابی ادوار بھی گزر گئے جنہوں نے لاکھوں انسانوں کو متاثر کیا۔ صحرائے عرب سے لیکر افریقہ کے کنارے تک‘ جنوبی امریکہ سے شمالی کنیڈا تک‘ ایشیا کے طول وعرض سے لیکر یورپ کی سرزمین تک اور اسٹریلیاء سے قطب جنوبی تک لاکھوں انسان دور جدید کی زد سے بھی باہر رہے ہیں۔ بڑے بڑے ایجادات کے بعد جنگلوں اور بیابانوں میں ایسے لوگ بھی دریافت ہوئے ہیں جو پچھلے عشرے تک ہمارے معلومات سے اوجھل تھے۔ شہروں اور تہذبوں کی وسعتوں میں قوم اور مذہب کے دامن میں لوگوں کی تربیت کے باوجود انسانی برابری کا سوال حل نہ ہو سکا۔
دوسری طرف غاروں‘ جنگلوں‘ میدانوں‘ کارخانوں اور خط و کتابت کے زمانے تک کا سفربھی فطرت اور مصنوعیت کی پیچیدگیوں میں الجھتے الجھتے سنور نے والا ہے۔اس سفر میں جس قوم نے جتنی محنت کی ہے اتنا ہی ان کو عطا کیا گیا ہے۔اس سیاق میں ہم جب اپنی قوم کی کارکردگی دیکھتے ہیں تو دونوں طرف(مذہب وسائنس) پھیکی پھیکی نظرآتی ہیں۔ ماضی کے چند کارنامے پدرم سلطان بود کے مصداق ہیں۔ اس بڑے سفر کی غوروفکرہم ابھی تک شروع نہیں کر سکیں ہیں۔ پوری دنیا ایک طرف برصغیر کی قوم ایک طرف ہیں۔ برصغیر کے طول وعرض میں ہماری طبیعت ابھی تک جدید اور قدیم کے بھنور میں اس قدر پھنس چکی ہیں کہ سجمھ نہیں آتی کہ ہم کس طرف جارہے ہیں۔ہزاروں سال کی تاریخ اور تجربے کے بعد بھی اگر کوئی نہ سمجھے تو کب سمجھے گا؟
گلگت بلتستان کی زمین بھی ان تمام واقعات اورتاریخ سے بھری پڑی ہے۔ انسان کی زندگی میں جہاں زمین کی قدر ہے وہاں دھرتی اورملک کا بھی اپنا کردار ہے۔ہمارے اسلاف کہہ گئے ہیں کہ’’مسلم ہیں ہم وطن ہیں سارا جہاں ہمارا‘‘لیکن ہم اب سارے جہاں کے بجائے زمین کی چند قطعات کو اپنی جہاں بنا چکے ہیں اور اِس قدر چھوٹے جہاں کو بھی ہم امن و سکون اور قیادت کے ساتھ حیثیت فراہم نہ کرسکیں ہیں پوری جہاں تو دور کی بات ہے۔ مذہب اور عقیدے کو زمین (جگہ)اور معاش میں مقید رکھنے سے اس کی وسعت میں کمی آجاتی ہے۔ بد قسمتی سے ہمیں قوم پرستی اور وطن پرستی کے نام سے اس قدر الجھا دیا گیا ہے کہ اب ہم اپنے جذبات اور احساسات سے دین و دنیا کی خدمت کے بجائے چندعلاقوں کو بچانے کیلئے اپنی زندگیاں انہی پر نچھاور کرتے جارہے ہیں۔ ہماری اس ’مصروفیت‘ نے ہمیں ترقی اور خوشحالی سے اتنا دور رکھا ہے کہ یورپ کے خیرات حلال لیکن لوگ دشمن نظر آنے لگے ہیں۔ عقیدے اور جذبات کو زمان و مکاں میں مقید کرنے کا یہی صلہ ملتا رہاہے۔ فطرت و مادیت کی اس فضاء میں ہمیں اپنے مقاصد و اہداف پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ شخصیت پرستی‘ قوم پرستی‘ وطن پرستی اور قدامت پرستی کے ساتھ ساتھ روایات پرستی یہ وہ موزی بیماریاں ہیں جو کرڑوں انسانوں کی قربانی لینے کے باوجوداِن کا دامن بھرتا نہیں ہے۔ روایات پرستی کی وجہ سے جاہل قوموں نے پیغمبروں اور نبیوں کے ساتھ جنگیں کئے۔ اپنے اسلاف کی مذاہب اور روایات سے چمٹے رہنے کی وجہ سے کبھی کبھی بہت بڑی بڑی نعمتوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے(کفار ان کی بہترین مثال ہیں)۔ ہم ماضی کے اقوام پر مذاق اُڑاتے ہیں خود اپنے بارے کبھی سوچا نہیں!۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم بھی اقوام سابق کی طرح چند روایات کو بچانے خود اپنی ذات وصفات کھو رہے ہیں۔ ہمارے دین کی تعلیمات تو یہ کہ ’مومن کا آج کل سے مختلف (بہتر)ہوتا ہے‘۔ ہمیں ان تمام چیزوں کی پرستش کی بجائے قوم پسند ‘ روایت پسند‘ وطن پسند اور قدامت پسند ہونا چاہئے یعنی انہی کی روشنی میں آگے بڑھنا چاہئے نہ کہ وہی کھڑے رہے اس جانب قرآن بھی اشارہ کر چکا ہے’’اسمان اور زمین میں جتنے لوگ ہیں وہ سب اُسی سے مانگتے ہیں وہ ہر روز ایک نئی شان دیتا ہے‘‘(55/29)۔
بحرحال فطرت اور مادیت کے اس سفر میں ہمیں متوازن رہنے کی کوشش کرنا چاہئے تاکہ اپنی دین و دنیا کو سنوار سکیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو مادیت اور روحانیت کو متوازن رکھنے کی توفیق دیں (امین)۔
very beautiful write up Mohd jan … indeed the people of over age are in maelstrom of dogmas, and pathos of religions…