گوشہ اردو

گلگت بلتستان میں نفسیاتی امراض اور منشیات کا استعمال

تحریر: اشتیاق احمد یاد
ishtiaqyaad@yahoo.com

صنعتی انقلاب، عالمگیریت اور جدیدیت نے جہاں انسانوں کیلئے بے پناہ آسائشیں پیدا کی ہیں۔ وہاں انسانی زندگی کو پیچیدہ بنا کر رکھ دیا ہے۔ دور جدید میں مسابقت کا رجحان بے پناہ بڑھ چکا ہے۔ ضروریات اور وسائل میں خلا بڑھتا جا رہا ہے۔ تیز رفتار زندگی کی وجہ سے بے سکو نی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ لوگوں میں مادیت پسندی، نفسا نفسی اور حرص و لالچ کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔ دن بدن اخوت ، بھائی چارہ، رواداری اور یکجہتی میں کمی آتی جا رہی ہے اور بہت سارے لوگوں میں بیزارگی اور اجنبیت پائی جاتی ہے۔

تیز رفتار زندگی ، مسابقت ، مادیت پسندی، حرص ولالچ، نا انصافی، زیادتی، ظلم و جبر، استحصال، امتیازی رویے، انسانی حقوق کی پامالی، بد امنی و انتشار، حریت فکراور اظہار رائے پر قد غن ، جائز خواہشات کی تکمیل میں رکاوٹ، جہالت، ناخواندگی، صنفی امتیاز، احساس کمتری اور احساس بر تری وغیرہ ایسے عوامل یا وجوہات ہیں جو انسان کو نفسیاتی امراض(Psychiatric Diseases)میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ یا ان کو منشیات کا عادی (Drug Addict) بنا دیتے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں تقریباً 30فیصد افراد نفسیاتی امراض میں مبتلا ہیں۔جبکہ تقریباً ایک کروڑکے قریب لوگ منشیات کے عادی ہیں۔گلگت بلتستان بھی ان دنوں سماجی مسائل سے خالی نہیں ہے۔ بد قسمتی سے آج تک اس خطے میں ان دونوں سماجی مسائل پر کوئی سروے یا تحقیق نہیں کی گئی ہے۔ جس سے ہمیں مکمل و مستند اعداد و شمار (Data)دستیاب ہو سکےں۔ تاہم ایک محتاط اندازے اور مشاہدے کے مطابق گلگت بلتستان میں تقریباً30فیصد افراد نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ جبکہ تقریباً 30ہزار کے قریب افراد منشیات کے عادی ہیں۔ گلگت بلتستان میں نشائی افراد چرس، افیون، شراب اور سرنج کے ذریعے نشہ آور ادویات کا استعمال (Injecting Drug use)کرتے ہیں۔ جبکہ نفسیاتی بیمار افراد فرسٹریشن ، ڈپریشن،Stress , Anxiety ،فوبیا اور Schizophreniaجیسے نفسیاتی امراض کا شکا ر ہیں۔
گلگت بلتستان میں چرس اور افیون شندور کے راستے اورشاہراہ قراقرم کے ذریعے پاکستان کے دوسرے شہروں سے گلگت بلتستان لائے جاتے ہیں۔ شراب خنجراب کے راستے چائنا سے زیادہ مقدار میں اور پاکستا ن کے دوسرے شہروں سے کم مقدار میں یہاں لائی جاتی ہے۔جبکہ گلگت بلتستان کے بعض علاقوں میں دیسی شراب وافر مقدار میں تیار کی جاتی ہے۔ نشہ آور انجیکشنزگلگت بلتستان کے بعض میڈیکل سٹوروں میں کھلے عام بکتے ہیں۔گویا بعض میڈیکل سٹور مالکان بھی موت کے سوداگر ہیں۔
گلگت بلتستان میں نفسیاتی بیماریوں کے علاج کیلئے زیادہ تر لوگ دیسی ٹوٹکے اور دم دعا سے کام لیتے ہیں۔ جس سے مرض ٹھیک ہونے کی بجائے مزید بگڑ جاتا ہے۔ بد قسمتی سے بہت سارے لوگ نفسیاتی بیماریوں کو جن بھوت اور پریوں کا سایہ یا اثر تصور کرتے ہیں۔ اور مافوق الفطرت قوتوں کا عمل دخل سمجھتے ہیں۔ جبکہ تحقیق سے یہ ثابت ہوا ہے کہ نفسیاتی بیماریوں کا ان باتوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اور یہ امراض مخصوص وجوہات کی وجہ سے جنم لیتے ہیں۔ جن کا صحیح تشخیص اور علاج ماہر نفسیات دماغی (Psyciatrist) کر سکتا ہے۔ اور ماہر نفسیات(Psychologist)اس سلسلے میں بڑا معاون و مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔
گلگت بلتستان میں نفسیاتی امراض میں مبتلا 30فیصد خواتین و حضرات بے حد اضطراب میں مبتلا ہیں۔نفسیاتی الجھنوں کی وجہ سے زندگی کا لطف مدہم پڑ گیا ہے۔ زندگی میں بیزاری غالب آتی جارہی ہے۔ ان کی ذہنی اور جسمانی کارکردگی کمزور ہوتی جارہی ہے۔وہم ، خوف اور گھبراہٹ ان پر طاری رہتی ہے۔بعض لوگوں میں نفسیاتی مرض اس حد تک شدت اختیار کرتا ہے کہ وہ خودکشی جیسے گھناﺅنے فعل کے مرتکب ہو جاتے ہیں۔ اگر ہم خواتین کی بات کر یں تو نفسیاتی امراض میں مبتلا خواتین کو لوگ حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ان پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا جاتا ہے اور انھیں مختلف الزامات اور القابات سے سے بھی نوازا جاتا ہے۔جس سے ایسی خواتین کیلئے جہاں دیگر بے پناہ مسائل کا سامنا ہوتا ہے وہاں ان کے ہاتھ پیلے ہونے میںبھی ان کو دشواری کا سامنا ہوتا ہے۔یہ رویہ اور عمل خواتین کے ساتھ سراسر زیادتی اور ناانصافی ہے۔ ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ جیسے دیگر امراض کیلئے علاج و معالجہ کروانا کوئی عار یا شرم کی بات نہیں۔ اسی طرح نفسیاتی امراض کا علاج و معالجہ کروانا بھی بالکل ایک نارمل بات ہے۔
اشتیاق احمد یاد

گلگت بلتستان میں منشیات کے عادی افراد بھی بیشمار مسائل کا شکار ہےں۔ ان کی زندگی تباہ و برباد ہوتی جارہی ہے۔ اس بری عادت کے اثرات خاندان اور ازدواجی زندگی پر بھی پڑ جاتے ہیں۔ذہنی اور جسمانی کمزوری کے ساتھ ساتھ مالی بدحالی کا سامنا بھی ہوتا ہے۔نشہ آور چیزوں کے حصول کیلئے جرائم کے مرتکب بھی ہو جاتے ہیں۔ اس سے عزتیں پامال ہونے کا بھی احتمال ہوتا ہےں اور منشیات کے عادی افراد کی وجہ سے پورے معاشرے پرمنفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

ماہرین نفسیات اور سماجیات کے مطابق سماجی مسائل کے پیدا ہونے سے پہلے ہی بچاﺅ (Prevention)کیلئے تدابیر اور اقدامات کرنا بے حد ضروری ہوتا ہے۔کہا جاتا ہے کہ احتیاط علاج سے بہتر ہے۔ (Prevention is better than cure)۔احتیاط اور بچاﺅ سے متعلق نصاب تعلیم میںسماجی مسائل سے متعلق موضوعات کو جگہ دینا بہت ضروری سمجھا گیا ہے۔ اس کے علاوہ نچلی سطح (Grass roots level)سے لیکر اوپر کی سطح تک شعور اور آگہی کے پروگرام منعقد کرنا بھی سماجی مسائل سے بچنے کیلئے ضروری ہے۔ جن معاشروں میں سماجی مسائل سے بچنے کیلئے شعور اور آگہی کے موثر پروگرام بروئے کارلائے گئے ہیں وہاں سماجی مسائل کی شرح بہت کم ہے۔ جبکہ جن معاشروں میں بچاﺅ کے سنہرے اصول کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے وہاں سماجی مسائل کی بہتات ہے۔ بچاﺅ کا سنہرا اصول گلگت بلتستان میں نفسیاتی امراض کو مزید پھیلنے سے روکنے اور لوگوں کو منشیات کے استعمال سے دو ر رکھنے کیلئے اپنانا نا گزیر ہے۔

بچاﺅ کیلئے اقدامات کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے لیکن دوسری طرف نفسیاتی امراض میں مبتلا اور منشیات کے عادی افراد کا علاج و معالجہ بھی بہت ضروری ہے۔ یہ انتہائی حیرت کی بات ہے کہ پورے گلگت بلتستان میں سرکاری ،NGOsاور پرائیویٹ سطح پر نفسیاتی امراض میں مبتلا افرادکے علاج کیلئے کوئی ماہر نفسیات دماغی (Psychiatrist)نہیں ہے۔ سوائے CMHگلگت اور سکردو کے جہاں مہینے میں چند روز ماہر نفسیات دماغی دستیاب ہوتا ہے۔ جہاں غریب عوام کیلئے اخراجات برداشت کرنا آسان بات نہیں۔ جبکہ منشیات کے عادی افراد کے علاج و معالجہ کیلئے بھی پورے گلگت بلتستان میں سرکار ی، NGOsاور پرائیویٹ سطح پر ماہر ڈاکٹر زدستیاب نہیں ہیں۔ پاکستان کے تقریباً تمام شہروں میں M.Scسائیکالوجی کے بعد ایک سالہ ڈپلومہ کرنے والے ماہر نفسیات نفسیاتی امراض میں مبتلا افراد کی تندرستی کیلئے کلینیکل سائیکالوجی کی خدمت مہیا کر رہے ہیں۔ لیکن بد قسمتی سے گلگت بلتستان میں ایسی کوئی سروس بھی موجود نہیںہے۔ مذکورہ ماہرین کی عدم دستیابی کی وجہ سے گلگت بلتستان میں نفسیاتی امراض میں مبتلا افراد اور منشیات کے عادی افراد اور ان کے خاندان بے پناہ مسائل کا شکار ہیں۔ ایسے مریض اور ان کے خاندان والے زیادہ تر دیسی علاج معالجہ پر اکتفا کرتے ہیں۔ جس سے مرض مزید بڑھتا ہے۔ کچھ مریض کم تعلیم یافتہ اور نا تجربہ کار ڈاکٹروں کے ہتے چڑھ جاتے ہیں۔اس سے بھی مرض مزید بگڑ جاتا ہے۔ اور بہت کم صاحب حیثیت لوگ اپنے مریضوں کو پاکستان کے مختلف شہروں میں علاج معالجہ کیلئے لیکر جاتے ہیں۔

یہاں میں سرنج سے نشہ آور ادویات استعمال کرنے والا اس نوجوان ناصر الدین کی مثال دوں گا جو کہ DHQہسپتال گلگت میں نرس تھا۔ تعلق گلگت کے محلہ کشروٹ سے تھا۔ بکراعید سے ایک روز قبل اس کی طبیعت زیادہ ناساز ہونے کی وجہ سے اسے بائی روڈ پنڈی علا ج معالجہ کیلئے لے جایا جا رہا تھا کہ راستے میں دم توڑ گیا اور اسے عید کے روز واپس گھر پہنچایا گیا۔ جہاں عید قیامت صغریٰ میں تبدیل ہو گئی۔ گلگت میں
Counseling,Psychotherapy, Treatment,Detoxificationاور Rehablitationکا موثر اور منظم نظام موجود ہوتا تو شاید ناصر الدین کی جوانی یوں اجل کا شکارنہ ہوتی ۔تمام ذمہ دار محکموں اور افراد کو ہوش کے ناخن لینے چاہیے ورنہ نہ جانے مزید کتنے نوجوان اپنی قیمتی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔

گلگت بلتستان کی عوامی حکومت ، متعلقہ بیوروکریسی، سیاست دانوں ، محکمہ صحت اور این جی اوز کی نااہلی اور عوامی مسائل سے عدم دلچسپی کا نتیجہ ہے کہ گلگت بلتستان میں کوئی سائیکالوجسٹ اور Psychiatristاور منشیات کے عادی افراد کے علاج کیلئے کوئی ماہر ڈاکٹر اور منظم و موثر نظام موجود نہیں ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ متعلقہ ادارے اور افراد ان دونوں سماجی مسائل کے حوالے سے شعو ر و آگہی اور علاج معالجہ کیلئے ایک موثر اور منظم نظام تر جیحی بنیادوں پر فوراً تشکیل دیں۔

Related Articles

2 Comments

Back to top button