گوشہ اردو
گلگت کے کشیدہ حالات اور غیر ذمہ دارانہ بیانات
گلگت بلتستان کی تاریخ میں 1988 کے بدترین فرقہ ورانہ فسادات کے بعد رواں سال یعنی 2012بھی فرقہ واریت اور بدامنی کے حوالے سے ایک سیاہ ترین سال کے طور پریاد کیا جائیگا کیونکہ ان دونوں ادوار کے دوران خطے میں فرقہ ورانہ فسادات کی آڈ میں بے گناہ انسانی جانوں کا وحشیانہ طور پر قتل عام کرکے دنیا کے سامنے مسلمانوں کے حوالے سے ایک ایسا سوال چھوڈ دیا گیا کہ کائنات کی تخلیق سے اب تک ایک ہی کشتی کے مسافر،ایک ہی خداکے مخلوق،ایک رسول کی امت،ایک ہی کتاب کو اپنا ضابطہ حیات ماننے والے اور سب سے بڑھ کر ایک ہی گھر کے افراد آخر کیونکر ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بن گئے ہیں؟ یقنًا یہ سوال ہم سب کے لئے باعث شرم اور باعث فکرہے۔
اگرچہ دہشتگردی اور انتہا پسندی نے یوں تو پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہیں اور شہری ان واقعات کے سبب مشکلات و پریشانیوں سے دوچار ہیںلیکن گلگت بلتستان کے حالات ان سب سے قدرے مختلف ہیں۔آپ بلوچستان ہی کی مثال لئجیے جہاں پر بھی ان دنوں گلگت کی طرح حالات کشیدہ ہیںاور لوگوں کی معمولات زندگی شدیدمتاثر ہے۔ مگر گلگت اور بلوچستان کے حالات کی نوعیت مختلف ہے اور دونوں کے پیچھے الگ ،الگ مقاصد کار فرماہیں۔ بلوچستان کے لوگ مشترکہ مفادات کے حصول کی جنگ لڑرہے ہیں جبکہ گلگت میں ایک ہی گھر کے دوبھائی ایک دوسرے کا گلہ گھونٹ کر خدا کی قربت حاصل کرنے کے درپے ہیں۔بلوچستان میں عوامی محرومیوں اور ناانصافیوں کے خلاف اٹھائی جانے والی آواز ریاستی طاقت کے زریعے دبانے کی کوشش کی جارہی ہے جبکہ گلگت میں ریاستی اداروں کو کمزور کرنے کے لئے فرقہ واریت کے بھیج بویئے جارہے ہیں تاہم نقصان دونوں جہگوں پر حکومت اور عوام کاہورہا ہے۔حکومت کی طرف سے حالات کو سدھارنے کی لاکھ کوششوں کے باوجود حالات بہتری کی بجائے ابتری کی طرف چلے جارہے ہیں لیکن کوئی بھی ان حالات کو سدھارنے میں مخلص نظرنہیں آرہا ہے۔
28فروری کو ضلع کوہستان میں واقع شاہراہ قراقرم پر پیش آنے والے واقعہ کے بعد پیدا ہونے والے حالات پر بڑی مشکل سے قابو پالیا گیاہی تھاکہ تین اپریل کو ایک اور اندوہناک واقعہ رونما ہوا جس سے حکومت کی ناکامی کی قلعی کھل گئی۔اس دن اہلسنت والجماعت گلگت بلتستان کے صدر مولانا عطاءاللہ ثاقب کی گرفتاری کے خلاف شہر میں شٹرڈاون ہڑتال کی کال دیدی گئی تھی جس دوران گلگت شہر کے مین بازار میں واقع اتحاد چوک پر اہلسنت والجماعت سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کے ایک اجتماع پر نامعلوم افراد کی طرف سے دستی بم پھینکا گیا ۔جس کے نتیجے میں وہاں پر موجود افراد میں سے کچھ جانیں ضائع ہوگیئں اور متعدد افراد زخمی بھی ہوئے۔اس واقعہ کو موبائل فون کے زریعے جنگل کی آگ کی طرح یکدم پھیلادیاگیا اور چند ہی گھنٹوں کے اندر اندر جگہ جگہ شعلے بھٹک اٹھے۔ لوگ آپے سے باہر ہوگئے اورہر طرف احتجاجی مظاہروں اور دھرنوں کا سلسلہ شروع ہونے لگا ۔اس دوران ضلع دیامر کے علاقے گونرفارم میں مشتعل مظاہرین نے راولپنڈی سے گلگت آنے والی بسوں کو روک کر نہ صرف مخصوص فرقے سے تعلق رکھنے والے مسافروں کووحشیانہ طور پر قتل کردیا بلکہ کچھ مسافر بسوں کو بھی آگ لگانے میں دیر نہ کی۔اس دوران بسوں میں سوار بعض مسافروں نے خودسوزی کوگولیاں کھانے پرترجیحی دی اوردریا میں چھلانگ لگاکر اپنی زندگیوں کا چراغ گل کر دیا۔اس بربریت کے دوران مقامی پولیس کی طرف سے بچ بچاﺅ کی کوشش پر مشتعل مظاہرین نے ایس پی دیامر سمیت پولیس اہلکاروں کو بھی فائرنگ سے زخمی کر دیا۔ادھر واقعہ کی اطلاع ملتے ہی ضلع ہنزہ نگر میں مشتعل افراد نے بعض سرکاری آفسران سمیت تیس سے زائد افراد کو یرغمال بنادیا۔جبکہ سکردو میں بھی مشتعل مظاہرین نے ایک پیٹرول پمپ سمیت سرکاری املاک کو شدید نقصان پہنچادیا۔اسی طرح ضلع گانچھے،غذر،استور کے علاوہ ملک کے دیگر شہروں میں بھی لوگوں نے ان واقعات کی مذمت کرتے ہوئے ان میں ملوث افراد کو کیفرکردار تک پہنچانے کا مطالبہ کردیا۔
وزیراعلیٰ اورصوبائی وزراءان دنوں بھٹو کی برسی کی تقریب میں شرکت کے لئے لاڈکانہ کے دورے پر تھے اور اقتدار کے نشے میں مست حکمرانوں نے اپنے گھر کو جلتے ہوئے دیکھنے کے باوجود غیروں کے در پر حاضری کو غنیمت جانا۔تاہم مقامی انتظامیہ نے حالات کی نزاکت کو مد نظر رکھتے ہوئے آرمی اور دیگرقانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد سے فوری طورپر گلگت شہر میں کرفیو نافذ کردی اور ناخوشگوار واقعات سے نمٹنے کے لئے شہر کے تمام داخلی و خارجی راستوں کو بند کرنے علاوہ پورے خطے میں موبائل سروس معطل کرکے شرپسندوں کے خلاف سرچ اپریشن شروع کردی۔
ایسے حالات میں نوزائدہ صوبے کا ڈھونگ رچانے والے اور گلگت بلتستان سے متعلق تمام فیصلے مقامی سطح پر کرانے کا دعویدار اور صوبائی حکومت کے سربراہ سید مہدی شاہ ایک بار پھر وزارت امور کشمیر کے محتاج ہوگئے او روفاقی وزیر امور کشمیر وگلگت بلتستان منظور وٹوکے ہمراہ بے بسی اور لاچاری کے عالم میں و فاقی وزیر داخلہ رحمان ملک کے ہاں پہنچ گئے۔جہاں پر دونوں عہدیداران نے حسب روایت نا خوشگوار واقعات کی مذمت کی اور دہشتگروں کا قلع قمع کر نے کے لئے پلاسٹک کے میزائل خوب داغے۔بعد ازاںمیڈیا سے گفتگو کے دوران وزیر داخلہ رحمان ملک نے پھرتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے گلگت بلتستان کے کشیدہ حالات کی زمہ داری ایک بارپھر’تیسری قوت‘ کے اوپر ڈال دی لیکن یہ واضح نہیں کیا کہ آخر وہ تیسری قوت کونسی ہے جس نے حکومت کو اپنے مذموم ایجنڈے کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا ہے۔اس قوت میں کون ایسے لوگ ہیں جنہوں نے حکومتی رٹ کو چیلینج کرتے ہوئے علاقے کے امن کو سبوتاژ کردیا ہے؟
وزیرداخلہ کے ایسے مبہم اور غیر سنجیدہ بیانات نے گلگت بلتستان کے باسیوں کو اس قدر حیرت میں ڈال دیا ہے کہ ایک ملک کا وزیر داخلہ جو حکومت کے لئے ریڈھ کی ہڈی کی حثیت رکھتے ہیں۔جس کے ماتحت تمام داخلی امور کے علاوہ ریاستی ادارے بھی ہیں،سیکورٹی فورسز بھی ہیں،قانون بھی ہے،اختیارات اور مرات بھی ہیں،اس کے باوجود وہ اس تیسری قوت کے سامنے کیوں بے بس نظر آرہے ہوتے ہیں؟شاید وہ تیسری قوت جننات ہی ہوسکتی ہے جو جگہ جگہ شرپسندی اور بد امنی پھیلاکر خود منظر عام سے غائب ہوجاتی ہے۔اگر تیسری قوت جننات نہیں تو پھر وزیر موصوف کو اس پوشیدہ قوت کا سراغ لگا کر عوام کے سامنے بے نقاب کرنا ہوگا تاکہ یہاں کے باسی اپنے اصلی دشمن کو پہچان سکے اور فرقہ واریت کے خول سے نکل کر سب مل کر اس قوت کا تہس نہس کر سکے جس نے ایک ہی گھر کے دو بھائیوں کوایک دوسرے کا دشمن بنادکران کی اولاد کو نادانستہ طور پر ایک دوسرے کا قتل عام کرنے پر آمادہ کر رکھا ہے اور خود اس تمام صورت حال کا تماشا دیکھ رہا ہے۔
لہذا گلگت بلتستان کے غیور عوام اور علمائے کرام سے بھی یہی گزارش ہوگی کہ وہ وزیر داخلہ سے اولاً اس تیسری قوت کو بے نقاب کرنے کا مطالبہ کریں بعد ازاں سب مل کر اس قوت کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائے جو ان حالات کی ذمہ دار ہے۔