گوشہ اردو
ملکی حالات ،عوامی توقعات اور میڈیاکاکردار
شریف ولی کھرمنگی
ملک عزیز یوں تو ہر طرف سے بحرانوں کا شکار ہے، مہنگائی،امن و امان کے مسائل، سرکاری لاءاینڈ آرڈر کی ناپیدگی، سیاسی افراتفری،افواج کے ساتھ پیش آنے والے واقعات خاص طور پر سیاچن کے مقام پرہونے والا حالیہ انتہائی افسوسناک سانحہ،ملک کے سرحدوں کا غیر محفوظ ہونا اور امریکی افواج کی بربریت پر ملکی ذمہ داروں کی سیاسی دکانداری، مذہبی منافرت پھیلانے کےلئے ملک دشمن طاقتوں کی پھرتیاںدھشت گردٹولوں کی کھلی بربریت، ٹارگٹ کلنگ خاص طور پرکوئٹہ، کراچی،اور گلگت بلتستان میں ملت تشیع کو چن چن کر ٹارگٹ کرنے اورسیکیورٹی اداروں کے نا اہل ذمہ داران کا ان شرپسند وں کی آلہ کاری،حکومتی ذمہ داران کی لاپرواہی نے عوام کو ایک گرداب میں لا کھڑا کیا ہوا ہے۔ان تمام تر حالات میں سب سے زیادہ متاثر بے چارہ عوام ہوتا رہا ہے حالانکہ ان کے ذمہ داران دوسرے عوامل ہوتے ہیں،سب سے اہم عامل بیرونی استعماری طاقتوںکو ملک عزیز کے اندرشیطانی کارروائیاں کرنے سے روکنے میںحکومتی غفلت اور انٹیلیجنس اداروں کی ناکامی ہے،جنکی وجہ سے ملک کے کونے کونے میںدن دیہاڑے قتل و غارت گری عام ہے، اور ملکی سیکیورٹی ادارے بھی ان کے سامنے بے بس ہیں۔اس کے بعد دوسرا عامل عدلیہ اور عدالتی ذمہ داران کا غیر اہم معاملات میں حد سے زیادہ دلچسپی،مجرموں کی سیاسی پشت پناہی کے ذریعے سزا سے بچ جانا اور اہم اور فوری امور جن سے عوام کی جان و مال اور ملکی سلامتی غیر محفوظ ہو رہے ہیں ، ان سے صرف نظر کرنا ہے۔
تیسرا عامل جو کہ تمام اہم اور غیر اہم معاملات کو ہینڈل کر رہے ہیں وہ ملک کا نام نہاد آزاد میڈیا ہے، جو کہ نہ صرف حکومتی ذمہ داران کو ان کے اصل ذمہ داریوں سے دور لے جاکر اہم اور وسیع تر نفوز کرنے والے امور سے غافل کرنے میں سلیپنگ پل کا کردار ادا کر رہے ہیں ، بلکہ ان کے آزادانہ کارناموںکا اندازہ ان معاملات سے لگایا جا سکتا ہے،سیاست دانوںاورحکمر انوںکی تو جہ اہم مسائل اور قومی مفادات کے ایشوز سے ہٹا کر روز مرہ کے ان معاملات میں الجھانا جس سے متعلقہ میڈیا گروپ کو سب سے زیادہ ایڈورٹیزنگ ڈیمانڈ ملتا ہو،صرف ان پروگراموںکو نشر کرنا جن کے ذمہ داران کی طرف سے سب سے زیادہ ڈالر ز آفرز آتے ہوں،ایسے ایڈورٹائزینگ اور پروگرامات کرنا جن سے عوام کو زیادہ سے زیادہ راغب کیا جا سکے جن میں عریانیت اور مغرنی ثقافت کو رائج کرنا سب سے اولین ترجیح ہے،اہم ترین معاملات کو پس پشت ڈالنا اور کم ترین اہمیت والی خبروںکو شہ سرخی اور باربار بریکنگ نیوز کے طور پر نشر کر کر کے اہم ترین معاملے کے طور پر پیش کرنا،بیرونی نیوز اینجنسیوں کی خبروںکو نشر کرنے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوششیں اور نتیجتا غیر ضروری اور بیکار بیانوں کے ذریعے عوام کے وقت کا ضیاءاور ان سب پر بھاری کارتوت یہ کہ میڈیا کے تما م فضلہ خوروںگروپوں کا کرپٹ اینکرز کے ذریعے مختلف ناموں سے پروگرامز کروانا ، ان میں من پسند افراد کو بلاکرایشوز پر اپنے حساب سے اندازے لگانا اور پھر آدھ گھنٹے ان کو آپس میں لڑا جھگڑا کر دن بھر کی تھکن دور کر نا روز کے شیڈول میںشامل ہوتا ہے ۔یہ تو ہیں چند گنے چنے کارنامے ، اب اگر ان کی وجہ سے پڑنے والی اثرات پر نظر دوڑائیں تو شائد سمجھ آجائے کہ ان بے لگام حرکات کی وجہ سے ہم پر کیا کچھ نہیں بیت رہے۔
میڈیا کے جادوگروں کا سب سے پہلا ٹارگٹ حکومتی اہلکار ہوتے ہیںکہ کسی نہ کسی طرح ایسی خبر کو ہائی لائٹ کیا جائے جو کہ کسی حکومتی اہلکار سے بالواسطہ یا بلا واسطہ تعلق رکھتا ہو، اگر ایسا ممکن نہ ہو تو کم از کم حلقے یا علاقے کی سطح پر بھی کسی نہ کسی سے ملا کر اس معاملے کو ان کے ساتھ منسوب کیا جاتا ہے، بروقت متعلقہ شخص سے رابطہ کر کے معاملے کو اعلیٰ حکام سے ملانا ان کا اگلا ہدف ہوتا ہے تاکہ خبر میں سنسنی پیدا ہو سکے اور عوام کو جذبات میں لایا جاسکے،نتیجتا عوامی بے چینی ، اپنے تمام تر مسائل کو چھوڑ کر اسی کے بارے میں سوچ و بچارکرتے رہ جانا، اور اگرکسی سیاستدان سے متعلقہ ہو تو اسکی تو شامت آگئی ،اینکر پرسن مسٹر پرفیکٹ کو ایک جذباتی مباحثے کا بھر پور موقعہ مل جاتا ہے جس میں فریقین کو بلا کر بھرپور طریقے سے معاملے کو الجھا کر چھوڑ دیا جاتا ہے اور آدھ گھنٹے کے پروگرام میں نہ سر کا پتہ چلتا ہے اور نہ پیر کا لیکن صاحب میزبان کو بھر پور داد اور اپنی اس بے نتیجہ مباحثے کا صلہ ضرور مل جاتا ہے۔اگر پروگرام تھوڑے بہت حقائق سے ملتی ہوں تو عدلیہ والوں تک بھی چلی جاتی ہے اور وہا ں پر پہلے سے پڑے پڑے بلا فیصلہ کیسز کے ساتھ نتھی ہوکر لائن میں لگ جاتا ہے کہ کبھی کسی اور اینکر کو موقعہ ملے اور اس معاملے کو عوامی پزیرائی یا نفرت کی ہوا ملے ،یا صاحب ثروت کسی سے منسوب ہو،یا حکمرانوں کے کسی سے متعلق ہونے پر دوسرے اہم ترین مسائل پر فوقیت حاصل کر کے جلد سماعت کے لیے پیش ہونے میں کامیاب ہوتا ہے۔
عدلیہ کے بادشاہ بھی آزادی کے دن پرجوش طریقے سے منا رہے ہیں،قتل و غارت گری ہو ، مہنگائی، بے روزگاری، لوڈشیڈنگ اور ہزارہا دیگر مسائل میں غریب عوام چاہے مرتے رہیں ، پستے رہیں، احتجاج کرتے اور گالیاں دیتے رہیں کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی،حکومت تو خیر ویسے ہی سیاسی فائدہ نقصان کے علاوہ کسی معاملے پر کچھ کرنے سے رہا، عدلیہ بھی وہی کیس ہینڈل کرتا ہے جس کو بھاری فیسیں ادا کرکے کورٹ تک پہنچایا گیا ہو، بڑی رینک کے کسی حکومتی اہلکار یا سیاسی رہنما کے متعلق ہو،یا میڈیا کے جادوگروں کے شور شرابے کی وجہ سے حد سے زیادہ معروف ہوچکا ہو، ورنہ عدل کے ٹھیکیدار بھی چپ سادھ کر تنخواہوں کے مزے لینے سے نہیں کتراتے،حالیہ دنوں میں گلگت ،چلاس اور کوئٹہ میں ہونے والے شیعہ کشی اور کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات اس بات کے گواہ ہیں، حکمران اتحاد کے ایک امیداوار کا تھپڑتو عدلیہ نے بہت بڑا جرم جان کر اس پر سو موٹو ایکشن لے لیا مگر ان قتل و غارت گری پر خاموش ہیں۔
۳۱ اپریل کو ڈیلی ایکسپریس کے کالم نگار جاوید چوہدری اور پھر ایک دن بعد ۴۱ اپریل کو ایکسپریس اخبار ہی کے اوریا مقبول جان نے تقریبا ملتا جلتا کالم لکھا۔ دونوں کا مخاطب بھی ایک ہی تھا اور موضوع بھی کئی اعتبار سے یکساں۔ دونوں نے اپنے آپ کو ملک کا معروف دانشور ثابت کرنے کی کوشش بہت کی مگرکاش صرف کہنے سے کوئی معروف ہوسکتا ۔عوام کے جذبات کو اصل حقائق کےساتھ بیان کرنے کے بجائے روائتی بے حسی سے بھر پور ان کالموں کا کیا فائدہ؟دونوں آزاد صحافیوں نے بھر پور زور قلم کے ساتھ یہ تک کہہ دیاکہ عوام نے کال اور مسیج کے ذریعے موبائل دہشت گردی کی ہے لیکن خون ان معرووف صحافیوں کو ان انسان سوز واقعات کی مذمت کرنے کی بھی توفیق نہیں ہوئی جو کہ اپنے پروگراموں میں مرچ مسالے لگا کر ہر اہم خبر کو بے قیمت اور بے تکی باتوں پر پروگرامز کرکے ہائی لائٹ کرنے کے ماہر ہیں، تو وہ لوگ جن کے عزیز ان سے بچھڑ گئے ہیں ، جن کے بے گناہ احباب کے دن دیہاڑے قتل پر یہ تماشہ گرمذاق اڑا تے ہوئے کبھی سیاسی، کبھی علاقائی اور کبھی فرقہ واریت کا نام دیکر پس پشت ڈال رہے ہیں ،وہ گالیاں نہیں دینگے تو اور کیا دینگے۔ان دونوں صحافیوں اور دیگر تمام صحافت کے جیالوں سے عرض ہے کہ مظلوم کی داد رسی نہ کرتے ہوئے ظالم کی ظلم پر خاموش رہنااس کے ظلم میں شرکت کے مترادف ہے اوراللہ تعالیٰ ان کا حشر بھی انہی کے ساتھ کرینگے انشاءاللہ۔