گوشہ اردو

قیام امن کے لئے معاشرتی مہم کی اشد ضرورت

گزشتہ کئی دنوں سے دل چاہ رہا ہے کہ گلگت بلتستان میں امن و آمان کے حوالے سے چند معروضات پیش کروں مگر دماغ اس کی اجازت نہیں دیتا ہے۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ کسی کے کانوں جوں تک نہیں رینگتی ہے، لکھ لکھ کر قلم کا نب اور انگلیوں کے پُورے کمزور ہوتے جارہے ہیں۔دل اور دماغ کی اس لڑائی میں بالآخر دل جیت گیا ، کیونکہ دل کے پاس دلیل مضبوط ہے کہ دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے۔ اس میں دو رائے نہیں کہ امن آج گلگت بلتستان کی سب سے اہم ضرورت ہے۔امن کے بغیر نہ معاشی ترقی ممکن ہے نہ سماجی۔امن کے لئے صرف حکومت پر انحصار کرکے نہیں بیٹھنا چاہیے بلکہ اس کے لئے عام معاشرتی سطح پر ایک کامیاب مہم چلائی جانی چاہیے جو عدم تشدد، رواداری، بردباری، صبر و تحمل، احترام اور مکالمے کے کلچر کو عام کرنے کا سبب بنے۔ اس کے لئے لازم ہے کہ سول سوسائٹی کے تمام شعبے ادارے اور طبقات یکسو ہوں ، اور مخلصی سے اپنا کردار ادا کریں۔ امن کے لیے معاشرتی اور سماجی انصاف انتہائی زیادہ ضروری ہے۔ اس کے بغیر امن کا خواب دیکھناعبث ہے۔آج میرے مخاطب تمام معاشرتی افراد،گروہ،طبقات اور ادارے ہیں۔
اہل سیاست سے گزارش ہے کہ امن کے لئے کردارا دا کریں یعنی تمام سیاسی جماعتیں چاہیے حزب اقتدار میں ہوں یا حزب اختلاف میں، ایک آئیڈیل معاشرے کے قیام کو اپنے منشور ودستور کا لازمی حصہ بنائیں اور ایک ایساکلچر کا فروغ دیں جو عدم تشدد،صبر وتحمل اور احترام و بردباری پر مشتمل ہو۔اخباری بیانات اور جلسہ ہائے عام میں بازاری زبان سے گریز کریں اور ایسا لب و لہجہ اختیار کریں جو مہذب بھی ہو اور معاشرتی و جمہوری و اسلامی اقدار پر مبنی بھی ہو۔ذاتی اختلاف کو نہ اچھالا جائے، اگر اختلاف کرنا بھی ہو تو نظری، سیاسی اور اختلاف برائے اصلاح ہو، اپنے کارکنوں کو معاشرتی و سماجی سطح پر رواداری اور مختلف سیاسی جماعتوں کے ساتھ میل ملاپ کی تلقین کریں بلکہ ایسے پروگراموں کی تشکیل کریں۔ سیاسی لیڈر اورکارکن سیرت نبوی،خلافت راشدہؓ، صحابہ کرامؓ اور اسلامی و مشرقی تعلیمات ور وایات کو اپناتے ہوئے اسلامی و فلاحی ریاست و نظام حکومت کے لئے ماحول پیدا کریں۔ سیاسی ورکرز کی فکری بنیادوں پر مضبوط تربیت کی جا نی چاہیے۔
علماءکرام سے دست بدست عرض ہے کہ علمی و فکری مسائل کو فرقہ واریت کا سبب نہ بننے دیں اور تحقیقی و تدریسی باتوں کو چوک چوراہوں میں بیان کرنے سے گریز کریں۔ مذہبی اختلافات بالخصوص مسلکی اختلافات کے آداب میں اکابر علماءو اسلاف امت کی روایات کو اپنے لئے مشعل راہ بنائیں جو باہمی احترام و تعاون سے موسوم و عبارت ہیں۔ اور مذہبی اختلافات کو اشتعال انگیز اور شعلہ بار بنانے سے حتی الامکان بچا جائیں ، ایک دوسروں کی برگزیدہ شخصیات کے احترام کو پیش نظر رکھ کر لعن طعن، دشنام طرازی، سب و شتم اور بازاری زبان کے استعمال سے مکمل اجتناب کریں۔ علمی ، تبلیغی اور اصلاحی اسلوب کو اختیار کرکے فکری ارتقاءکو پروان چڑھائیں۔ مسجد اور منبر کو مرجع خلائق بنانے کے لئے استعمال کریں اور اسلاف کی تابندہ علمی، اصلاحی، فکری،تحقیقی،نظریاتی اور رواداری جیسے اوصاف و روایات کو ازسر نو زندہ کیا جائے۔
اہل صحافت اور میڈیائی دوستوں سے دل کی دُوہائی وفریاد ہے کہ خدار ا ! مذہب و مسلک کے خول سے نکلیں اور ایسے بیانات، مضامین، کالم،فیچر،نیوز رپورٹیں شائع کرنے سے گریز کریں جس سے کسی کی پگڑی اچھلتی ہو، مکمل غیر جانبداری کا ثبوت دیں، یک طرفہ ٹریفک چلانے سے گریز کریں، کسی بھی خبر کو قابل اشاعت قرار دینے کے لئے لازم قراردیا جائے کہ اس کا موادباہمی احترام کی مسلمہ تعبیرات سے متصاد م نہ ہو ، اور قومی ومعاشرتی اور علاقائی نقصان و فائدہ کو بھی ملحوظ خاطر رکھیں اور اس کے لئے ایک کامیا ب صحافتی ضابطہ اخلاق تیار کیا جانا چاہیں۔نیز خبروں میں سنسنی خیزی ، اشتعالانگیزی اور زرد صحافت سے اجتناب کیا جانا چاہیں۔گزشتہ دنوں کے سانحات میں میڈیائی نمائندوں کی جانبداری اور مسلک پرستی نے بنیادی کردار ادا کیا۔بہر صورت اس حوالے سے ہمارے صحافی بھائیوں اور اخبارات کے مالکان کو سر جوڑ کر بیٹھنا چاہیے اور ایک نقطے پر متفق ہونا چاہیے۔ اس طرح کی شتر بے مہاری سے گلگت بلتستان کی صحافت کو پروان چڑھایا جائے تو آنے والے دن اہل صحافت کے لئے نیک شگون ثابت نہیں ہوسکتے ہیں۔صحافت ایک مقدس پیشہ ہے، اس کالاج رکھنا سب سے پہلے ارباب صحافت ہی پر لازم ہے۔
اہل علم و دا نش ا ورصاحبان قلم و قرطاس سے مودبانہ استدعا ہے کہ تعلیمی اداروں میں برداشت کا ماحول پیدا کیا جائے، علمی درسگاہوں میں مکالمے اور مباحثے کا خوشگوار ماحول پیدا کیا جائے، اپنے طلبہ و طالبات کو ایسی تربیت دی جائے جو سماجی ومعاشرتی روایات پر مبنی ہو،طلبا اور اساتذہ کی ایسوسی ایشنوں میں کمیونیکیشن گیپ کو ختم کیا جائے۔ دینی اور عمومی و عصری درسگاہوں کے طلبہ کے درمیان فاصلوں کو جتناممکن ہوسکے کم سے کم کیا جائے اور ان میں مثبت ڈائیلاگ کے کلچر کو عام کیا جائے۔اپنی بات پر ہٹ ڈھر می کے بجائے قرآن و سنت کی تعلیمات اور مسلمہ دانش وروں کے افکار و نظریات کو بنیاد بنا کر تعلیمی نظم و نسق چلایا جائے۔ اساتذہ ادب ایسے ادبی کلچر کو فروغ دیں کہ عوام و خواص اس کو تسلیم کئے بغیر رہ نہ سکے۔ اور نوجوان شعراء و اُدباءکی خلوص نیت کے ساتھ رہنمائی کریں اور ایسے پروگراموں کی تشکیل و تنظیم کریں کہ آپس میں جوڑ و اتحاد کی فضا پیدا ہوسکے۔ میری دانست کے مطابق گلگت شہر کے ادباءو شعراءیہ کام کربھی رہے ہیں تاہم مزید بہترسے بہترین کا سوچا جانا چاہیے اور مابین کی اختلافات اور رنجشوں کو بالائے طاق رکھ کر امن کی اس مہم کو مزید فعال کرنا چاہیے۔سب کو مل بیٹھ کرکام کرنا چاہیے اور ایک دوسروں کو کھلے دل سے تسلیم کرنا چاہیے۔
معاشرے سے تعلق رکھنے والے دیگر افراد، گروہ،طبقات اور اداروں سے بھی عرض ہے کہ وہ امن کی اس مہم میں اپنا حصہ ادا کریں، سرکاری آفیسر اور ملازمین کرپشن، کام چوری، اور میرٹ کی پامالی سے اجتناب کریں اور امانت و دیانت،فرض شناسی اوررواداری کاعملی ثبوت دیں۔ گلگت بلتستان کی پولیس پر جانبداری کا الزام ہے، جس کا اعتراف وزیر اعلیٰ،اسپیکر سمیت دیگر حکومتی ارباب نے کیا ہے۔ لہذا پولیس ڈیپارٹمنٹ کے سپاہی سے لیکر آفیسر تک کو اپنا رویہ درست کرنا چاہیے اور مسلکی و علاقائی خول سے نکل کر اپنے فرائض کی بجاآوری کرنا چاہیے، بصورت دیگر مہدی حکومت کو ان کے خلاف سخت ایکشن لینا چاہیے۔
بہر صور ت امن کے لئے ماوو¿ں بہنوں اور بیٹوں کو بھی کردار ادا کرنا ہوگا، انہیں اپنے نونہالوں کی درست تربیت کرنی ہوگی اور امن کے لیے دعاو¿ں کا اہتمام کرنا چاہیے۔تنگی داماں کی وجہ سے تفصیل سے گریز کیاجاتا ہے اگرچہ موضوع تفصیل طلب ہے۔ اس بات کی کوشش کی جانی چاہیے کہ معاشرے کے تمام نمائندہ طبقات کو مذکورہ بالا امور کا لحاظ رکھنا چاہیے اور ان کو عملی جامہ پہنانا چاہیے تاکہ ہمارا یہ پیارا سا علاقہ امن و آمان کا گہوارہ بن جائے اور ناچیز کی امن کی اس آشا کو خون آشامی سے بچایا جائے تاکہ سب کے بنیادی حقوق محفوظ ہوں اور کسی کی مال ، جان ، عزت و آبرو کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہو۔ یوں ایک خوش حال اور سماجی ترقی پر مشتمل معاشرہ قائم ہو۔ رب الارباب سے التجاءخاص ہے کہ امن کی اس معاشرتی مہم کو چلانے کے لیے ہم سب کو توفیق دیں اور اس کار خیر میں ہماری معاونت و نصرت فرمائیں۔آمین

Related Articles

Back to top button