گوشہ اردو

شاید پھر نہ ملیں ہم – دیباچہ

تین سال پہلے کی بات ہے، جب میری ڈیوٹی سکردو میں تھی، رمضان المبارک کا مہینہ تھا، شام کے پانچ بج چکے تھے۔۔۔سکردو کے سرسبز مضافات میں شہر کے قلب میں واقع کنکورڈیا ہوٹل کے خوبصورت صحن میں دبیز خاموشی پھیلی ہوئی تھی، کچھ دیر قبل کی ہلکی بارش کے بعد فضا میں خنکی اور مٹی کی سوندھی سوندھی مہک تھوڑی سی اور بڑھ گئی تھی، آنگنوں اور برآمدوں میں ٹمٹماتے زرد بلب کے گرد پروانوں کے ہالے رقصاں تھے اور بہتی ہوا میں لرزتے پتوں کی سرسراہٹ انوکھی سرشاری طاری کر رہی تھی، میں اپنے ایک دوست کی طرف سے دئیے گئے افطار ڈنر پہ مدعو تھا، ڈاکٹر حسینہ صاحبہ، جو اُن دنوں اپنے Ph. D Thesis کے حوالے سے سکردو میں ہوتی تھی، بھی میرے ساتھ تھی، میری زندگی کی پہلی پردیسی اور وہ بھی بلتستان میں، جس کی سر زمین شعر و شاعری اور علم و اَدب میں نہایت ہی زرخیز مانی جاتی ہے، اس سُہانے ماحول نے زیرِ لب کچھ سرگوشی کی یا قرطاسِ دل پہ یہ فقرہ لکھا ”شاید پھر نہ ملیں ہم“۔ میں نے سوچا کہ خوشی کے لمحات بھی بچھڑے ساتھی کی طرح کبھی سر راہ اچانک مل جاتے ہیں اور کبھی ان لمحات کے انتظار میں انسان کو پوری زندگی بیتانی پڑتی ہے، بس اس حسین لمحے کی یاد کو امر کرنے کے لئے اپنے پہلے مجموعہ¿ کلام کاٹائٹل بھی ”شاید پھر نہ ملیں ہم“ رکھ رہا ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ شاید ایسے ہی لمحات کا اظہار پروین شاکر نے بھی کچھ اس طرح کیا تھا
”اب کے بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں“
علم و قلم سے وابستگی میری خاندانی روایت رہی ہے البتہ پردیسی کے ان ایام میں شعرو ادب سے دلچسپی بھی اپنے عروج کو پہنچ چکی تھی اور یوں شعر لکھنا، ادبی محفلوں میں جانا اورخیالوں میں کھو جانا، میرے روز کا معمول بن گیا تھا، جس کی شکایت عموماً ڈاکٹر صاحبہ مجھ سے کرتی رہتی تھی۔ R.W. Trine کا قول ہے:
“Every thought is a force that goes out and comes back laden with its kind. “
آج بھی ایسا ہی ہوا تھا، افطار میں ابھی کافی وقت تھا، مختلف باتیں زیر بحث آتیں لیکن میں صرف ہاں اور ناں میں جواب دیتا اور خیالوں میں کھو جاتا، اتنے میں حسینہ نے حسب ِ معمول مجھے متوجہ کیا اور کہا کہ ہیلو سر آپ کس دنیا میں گم ہیں، یقینا یہ بات سچ ہے کہ شاعر تنہا ہوتا ہے اور تنہا ئی پسند بھی۔ اس وقت تو میرے پاس ڈاکٹر صاحبہ کو مطمئن کرنے کے لئے کوئی جواب نہیں تھا لیکن اب جب بھی اس بارے میں سوچتا ہوں تو میرے دِل کے نہاں خانوں سے یہ حقیقت کھل کر میرے سامنے آجاتی ہے کہ ایک شاعر یا ادیب تنہا ہوتا ہی کب ہے۔۔۔؟ جن کے دِل و دماغ میں فکر اور تخیّل کی پریاں اُترتی ہوں وہ ہجوم میں تنہا ہوتے ہیں، تنہائی میں تو تخیّل کی جلوت نصیب ہوتی ہے اور یہ ایسی دولت ہے کہ پیاری سے پیاری ہستی بھی ہم نشین ہو تو ہیچ لگے۔ ”شاید پھر نہ ملیں ہم“ میری پہلی کاوش ہے، ضروری نہیں کہ قارئین میری ہر غزل اور شعر کو سراہےں یا ان کا نقطہ¿ نظر میرا اندازِ نظر ہو، مگر یہ مجھے یقین ہے کہ بہت سے اہلِ ادب قارئین میری کتاب کو پڑھیں گے اور محسوس کرلیں گے کہ کیا میرے اشعار صرف رومانوی احساسات پر مبنی ہیں۔۔۔؟ کیا میرا رنگِ تغزّل رنگِ شباب ہی سے رنگین ہے۔۔۔؟ کیا میری چیخ و پکار کے پیچھے کسی کانٹے کی چھُبن ہے یا کراہتا ہوا دل، اور دل معاشرے کے بھاری بھر کم وجود کے نیچے دبا ہوا۔
نامور افسانہ نگار احمد سلیم سلیمی کے مطابق جلوہ¿ جمال کی بے ساختہ تحسین ایک فطری امر ہے، حسن کی اثر آفرینی میرے لئے بھی بے معنی نہیں بلکہ ہر فن کار کی طرح مجھ میں بھی اس صفت کا عنصردوسروں کی نسبت زیادہ ہے، اہلِ نظر جانتے ہیں حسن کی اثر آفرینی محض خدوخال کی محتاج نہیں بلکہ ”ہزار نکتہ درین کاروبار دلداریست “کے مصداق حسنِ نظر میں ہی اصل حسن پوشیدہ ہے، نظر میں اثر ہو تو پتھر بھی گہر ہیں، اثر نہ ہو تو لعل و گوہر بھی بے جوہر ہیں، اور بے جوہر چیز جتنی بھی چمک دمک کی حامل کیوں نہ ہو، کامل نہیں ہوسکتی اور کامل تو ایک طرف اہلِ نظر کے نصاب میں شامل ہی نہیں ہوسکتی، یہ روپ انوپ، خدوخال جب فریب نظر بن جائیں تب تو بڑے بڑے شہنشاہ بھی تخت و تاج کو لات مار کر دام ہزار رنگ حسن کے اسیر بن جاتے ہیں، محبوب نظر کی نگاہوں کے اُٹھنے اور جھکنے میں حیات و موت کے قصے رقم کئے جاتے ہیں، اشارہ¿ ابرو پر دین ومذہب کے اُصول بھلا دئے جاتے ہیں، حسن کرشمہ ساز کی بدولت جنون و خرد کا فرق مٹ جاتا ہے اور یہی حسن وہ بنیادی سبب ہوتا ہے جس سے عشق وجود میں آتا ہے، یہی حسن کبھی برق تجلی بن کر قلبِ کلیم کی تشکیل کے لئے طور پر گرتا ہے تو یہی حسن کبھی عشق لازوال بن کر دِل بلال کو جمال جہاں آرا بنا دیتا ہے اور یہی حسن۔۔۔ ہاں یہی حسن۔۔۔؟ جب عشق بن جاتا ہے تو حبیب خدا کی صورت میں وجہ¿ تخلیق کائنات بن جاتا ہے تو کیا کوئی حسن اور عشق کی اہمیت اور اثر آفرینی اور مقبولیت سے انکار کر سکتا ہے۔۔۔؟ کسی میں مجال ہے کہ جو حسن کی نفی کرکے حدیثِ عشق کا اثبات کرے۔۔۔؟ کسی میں حوصلہ ہے جو حسن کی اثر پذیری سے انکار کرکے کیفیت عشق کا اظہار کرے۔۔۔؟ تصوف کو چھوڑو، فلسفہ و حکمت کو ایک طرف رکھو، عشقِ حقیقی کی گھتیاں مت سلجھاو¿، اتنی سی بات بتاو¿ حسن نہ ہوتا تو اس کائنات میں رنگ ہوتے۔۔۔؟ فصلِ گل میں رونق ہوتی۔۔۔؟ صبحِ بہاری میں ترنگ ہوتی۔۔۔؟ حدیثِ دلبراں میں کشش ہوتی۔۔۔؟ میر و غالب کی شاعری میں سرمستی ہوتی۔۔۔؟ اگر آپ سمجھ گئے ہیں تو یہ بھی جان لیجئے کہ آئینہ¿ ہستی میں حسن کا بھر پور جلوہ صنفِ نازک میں ہی ہوتا ہے، کیا آپ اقبالؒ کو جھٹلا سکتے ہیں۔۔۔؟
”وجودِ زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ“
جب حسن وجودِ زن سے ہی فروغ پاتا ہے تو یہ بات بھی مان لیجئے کہ عشق بھی اپنے مجازی رنگ میں وجودِ زن کا ہی مرہونِ منت ہوتا ہے، لیکن جو بے توفیق ہوتے ہیں وہ ایسے بے نصیب ہوتے ہیں کہ وجودِ زن پہ سوئِ ظن رکھتے ہیں۔ ایسے میں ان کی زندگی میں ایک عورت تو داخل ہوسکتی ہے لیکن ان کے اپنے ہی افلاسِ فکر کی وجہ سے، کائنات کی جگمگ کرنے والی ہستی زن نہیں مل جاتی۔ میری ان گذارشات کے بعد قارئین بتائیں کہ شعر و شاعری حسن و عشق کے بغیر کیا اپنا اثر چھوڑ سکتی ہے۔۔۔؟ کیا ادب میں حسن و عشق کا عنصر شامل کئے بغیر تفریح طبع کا سامان مہیا کیا جاسکتا ہے۔۔۔؟ کیوں کہ جلوہ گاہِ جمال صنفِ نازک ہی سے فروزاں ہے اور صنفِ نازک ہی کی بدولت عشق کے پھول کھلتے ہیں، چنانچہ ادب حسن و عشق کے بغیر تشکیل پذیر تو ہو سکتا ہے تکمیل پذیر نہیں ہوسکتا،کیونکہ ایک فنکار کا فن لازمی طور پر چار عناصر ترکیبی سے تشکیل پاتا ہے، اس کے جذبے کی شدت، احساس کی حدّت، فکر کی بلندی اور شعور کی گہرائی اور پہلا ہی عنصر جذبے کی شدت کا ہے، جو عشق کے علاوہ اور کیا ہوسکتاہے۔۔۔؟
احمد سلیم سلیمی اپنی کتاب ”شکستِ آرزو“ میں لکھتے ہیں کہ ”محض لکھنا کمال نہیں بلکہ لکھے ہوئے کو منوانا کمال ہے۔“ بقول ان کے یہ بات میرے لئے باعثِ فخر ہے کہ میں بہت ابتدا سے صرف لکھتا ہی نہیں تھا بلکہ میرے مضامین اور افسانے جو مختلف قومی و علاقائی اخبارات میں چھپتے بھی تھے، پروردگار کے فضل و کرم سے میرے اعتماد میں زبردست اضافہ ہوا، میں نے بہتر سے بہتر لکھنے کی کوشش کی، پڑھنے والوں کی حوصلہ افزائی سے میرے قلم کو مزید روانی، میری سوچ کو رفعت اور میرے تخیّل کو پرواز ملی۔ کیونکہ میں جب بھی خلوصِ دِل سے اپنے قلم کو روشنائی میں ڈبو کر لکھتا ہوں تو آواز آتی ہے: ”یہ ہذیانات ہیں۔ “ پھر قلم کو آنسوو¿ں میں بھگو کر تحریر کرتا ہوں تو ندا آتی ہے : ”یہ جواہرات ہیں۔ “ پھر خون ِ جگر سے رقم کرتا ہوں تو صدا آتی ہے : ”یہ الہامات ہیں۔ “ کے پی این کے تمام اخبارات اور خصوصاً ہفت روزہ بادِ شمال کی وساطت سے فکر و نظر کے تحت میرے مضامین چھپتے رہے اور یوں گلگت/ بلتستان کی فضاو¿ں میں اس بندہ¿ عاجز کا نام پھیل گیا، یوں صاحبانِ علم و ادب کے لئے میرے نام کی اجنبیت ختم ہوئی۔ ۳۰۰۲ءکو آل پاکستان سطح پر کالم نویسی مقابلہ میں میرا ٹاپ کرنا نہ صرف میرے لئے بلکہ پورے ارضِ شمال کے لئے اعزاز کی بات تھی کہ میری تحریر علاقے سے باہر نہ صرف قبول کی گئی تھی بلکہ اس کو سراہا بھی گیا تھا، کیوں کہ ملک کے دیگر حصوں کے مقابلے میں شمالی علاقہ جات قومی زبان ”اردو“ میں مہارت رکھنے کے سلسلے میں نہایت ہی بنجر اور بے فیض سمجھا جاتا ہے۔ ان تمام مسائل کے ہوتے ہوئے بھی میرا آل پاکستان سطح پر ٹاپ کرنا فخر کی بات تھی۔ کیونکہ میں نے شروع سے ہی لکھنے میں یہ اُصول قائم رکھا ہے کہ موضوع جیسا بھی ہو اندازِ بیان جاندار، دلکش اور متاثر کن ہو، چنانچہ میری تحریر میری پہچان بن گئی۔ کہتے ہیںکہ ایک اچھا لکھاری دراصل ایک اچھا شاعر ہوتا ہے۔ اہل ادب قارئین کی حوصلہ افزائی سے میرے اعتماد میں اس قدر اضافہ ہوا کہ آج مجھے ایک صاحبِ کتاب شاعر ہونے کا اعزاز ملا، بس اس بات سے حوصلہ افزائی کی قوت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
قارئین کرام! زیرنظر کتاب ” شاید پھر نہ ملیں ہم“ میں صرف غم اور خوشی کے ملے جلے جذبات کو الفاظ کے آئینے میں اُتارنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مجھے یہ یقین تھا کہ جو مخفی ہاتھ گلہائے چمن میں رنگ بھر رہا ہے وہ ہر کسی کے افسانہ¿ حیات کو رنگین بنا سکتا ہے۔۔۔ وہ ملاح جو آسمان کی نیلگوں جھیل میں گھٹاو¿ں کے سفینے چلا رہا ہے وہ سب کے جیون کی نیّا کو بھی ساحل آشنا کرسکتا ہے۔۔۔ اور وہ حنائی انگلیاں جو کلی کو گد گدا کر پھول بنا رہی ہیں وہ سب کے غنچہ¿ آرزو کو بھی کھلا سکتی ہیں۔ مولاناوحید الدین خان اپنی کتاب ”کتابِ زندگی “ میں لکھتے ہیںکہ ”رات کے آنے کو اگر ”آج “ کے لحاظ سے دیکھا جائے تو وہ اندھیرے کا آنا معلوم ہوگا مگر ”کل “ کے لحاظ سے دیکھے تو وہ روشن صبح کے آنے کی تمہید بن جاتی ہے۔ خزاں کا موسم بظاہر پت جھڑ کا موسم دکھائی دیتا ہے مگر مستقبل کی نظر سے دیکھے تو وہ بہار کے سرسبز و شاداب موسم کی خبر دینے لگے گا۔“ بالکل اسی طرح ہمت مرداں مددِ خدا کے مصداق میں نے تو صرف اپنی یادیں سمیٹنے کے لئے ایک چھوٹی سی غزل لکھنے کا سوچا تھا، مگر جب خدا ہمت دے تو دریچہ¿ افلاک کھل جاتا ہے اور پھر تحریر میں تاثیر بھی جاگ اُٹھتی ہے۔ روزمرہ کی زندگی، اس معاشرے اور ماحول سے یہ باتیں اکثر میرے ذہن کے در پر دستک دیتی رہتی تھیں۔
”محبت انسان کو صرف ایک مرتبہ ہی نہیں اکثر ہوتی رہتی ہے مگر پہلی محبت انسان کی زندگی کو رُلا دیتی ہے۔“
٭ ”حصولِ محبت کے لئے جب جان نثاری، لہو اور قربانی دینے کی ساعت آپہنچتی ہے تو محبت کے بغیر نہ جینے اور اس کی پاداش میں نیلگوں آکاش سے ستارے توڑنے والے فرار ہوجاتے ہیں۔“
٭ ”انسانی زندگی اتنی مختصر ہے کہ یہ محبت کے لئے بھی کم ہے مگر نہ جانے بعض لوگ نفرت کے لئے وقت کہاں سے لاتے ہیں۔“
٭ “Those who live by hate die by hate and those who live by sword die by sword.” ”جو لوگ زندگی کی بنیاد نفرت پر رکھتے ہیں وہ نفرت سے ہی ہلاک ہوتے ہیں، اس طرح تلوار کے زور سے زندگی بسر کرنے والے تلوار سے ہی مرتے ہیں۔“
٭ ”تعجب ہے سر توڑنا جرم ہے دِل توڑنا نہیں۔“
٭ ”انسان زندگی کے لئے ہر چیز کا تعیّن خود کرتا ہے مگر زندگی کے ہمسفر کے لئے اس پر فیصلہ ٹھونس دیا جاتا ہے۔“
٭ ”زندگی ایک متاعِ گم گشتہ ہے جس کی تلاش میں ہم سرگرداں ہیں، جب یہ مل جاتی ہے تو ہم خود گم ہوجاتے ہیں۔“
٭ ”دو آدمیوں کو تلاش کرنا مشکل ہے، ایک وہ جو اپنے آپ سے جُدا ہوجائے اور دوسرا وہ جو اپنے آپ کو پالے۔“
محبت انسان کو کیسے کیسے راستوں سے گذارتی ہے اور ذہانت اپنی آسودگی کے لئے محبتوں اور عقیدتوںسے بھرے ہوئے کیسے کیسے، دِلوں میں شگاف ڈال دیتی ہے۔ یہ آپ میری کتاب ”شاید پھر نہ ملیں ہم “ میں محسوس کرسکیں گے۔ محبت کا سب سے بڑا وصف انکسار ہے ، اہل ِ محبت نفرت کا جواب بھی محبت سے دیا کرتے ہیں شاید وہ اس حقیقت کو جانتے ہیں۔
“Hatred never ceases by hatred. Over-come it by love. Put love into the world and heaven with all its beauties and glories becomes a reality. Not to love is not to live. The life that goes out in love to all is the life that is full and rich continually expanding in beauty and power.”
آخر کار تین سال کی محنتِ شاقہ کے بعد مزید کانٹ چھانٹ کرکے اور کچھ عجلت سے بھی کام لیتے ہوئے اسے پرنٹرز کے ہاتھوں میں دے دیا۔ اگرچہ کسی شاعر یا ادیب کی باتیں یا الفاظ پرانے ہوتے ہیں مگر اس کے اندازِ بیان میں جدت، ندرت اور انفرادیت ایک خاص حیثیت کی حامل ہوتی ہے بقول سیف الدین سیف
سیف! اندازِ بیان رنگ بدل دیتا ہے
ورنہ دنیا میں کوئی بات نئی بات نہیں
میں سمجھتا ہوں کہ میں نے زندگی میں بہت کچھ پایا ہے اس کے لیے میں خداوندِکریم کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتا ہوں،لیکن انسانی آرزو¿ں کی تکمیل شاید ہی ممکن ہو ۔۔۔ اور شاید اسی لیے ہی شاکر شمیم نے کہا ہے
بس زندگی میں ایک ہی حسرت رہی شمیم
ملنا تھا جن سے وہ نہ ملے، اور سب ملے
قارئین کرام! خطہ¿ شمال کی ادبی دنیا میں چند ہستیاں ایسی ہیں،جو شعروادب میں اپنا ایک مقام رکھتی ہیں۔ ان میں پروفیسر عثمان علی، شیرباز علی برچہ، جمشید خان دکھی، پروفیسر حشمت علی کمال الہامی، فدا محمد ناشاد، فدا علی ایثار، ظفروقار تاج، عنایت اللہ شمالی اور محترمہ نورالعین صاحبہ مشیر تعلیم ناردرن ایریاز قابلِ ذکر ہیں۔ مذکورہ ہستیاں ایسے تناور درخت کی مانند ہیں ،جو محض سایہ ہی فراہم نہیں کرتےں بلکہ اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازتی ہیں۔ میں خصوصاً جمشید دکھی صاحب اور محترم پروفیسر کمال الہامی صاحب کا ذکر نہ کروں، تو یقینا بڑی بددیانتی ہوگی۔ دونوں ہستیاں ادب کی دنیا میں اپنا ایک مقام رکھتی ہیں۔ جس طرح ان ہستیوں نے اس مجموعے کو کتابی شکل دینے میں محنت کی، اپنی پیشہ وارانہ مصروفیات میں سے وقت نکال کر کتاب کو اہمیت دی اور میری بھر پور اصلاح کی۔ ان کا مقام و مرتبہ میرے لئے ناقابلِ بیان ہے۔ ایک طرح سے ان ہی کی مساعیِ جمیلہ کے باعث یہ کتاب آپ کے ہاتھوں میں ہے۔
شمالی علاقہ جات میں آئے روز مذہبی فسادات کی وجہ سے میں یہی سوچ رہا تھا کہ یہاں مہرو محبت ختم ہوگئی ہے۔ محترم جمشید دکھی اور پروفیسر کمال صاحب سے ملاقات کے بعد مجھے احساس ہوا کہ میری سوچ غلط ہے، البتہ یہاں چند ناسمجھ لوگوں کی وجہ سے محبت کم ضرور ہوئی ہے، مگر جس سرزمین پر جمشید دکھی‘ کمال الہامی اور عنایت اللہ شمالی جیسے دردِدل رکھنے والے لوگ زندگی گذار رہے ہوں، وہاں محبت ختم کیسی ہو سکتی ہے۔۔۔؟
میں ڈاکٹر حسینہ صاحبہ کا شکریہ ادا کیے بغیر اپنی کتاب کو نامکمل سمجھتا ہوں، حسینہ واقعی اپنی سیرت و کردار میں بھی حسینہ ہے، ڈاکٹر صاحبہ کی اعلیٰ ظرفی کا اس بات سے اندازہ ہوتا ہے جو لطفاً مجھ سے مخاطب ہوکر کہتی تھی سر میں آپ کی سیکریٹری ہوں۔ اُن کی مساعیِ جمیلہ ناقابلِ بیاں ہے۔
میں اپنے پدر محترم شیخزادہ درویش علی اور اپنی محترمہ زیذی صاحبہ کی محبت و عنایت کا ذکر نہ کروں تو ناشکری کی انتہا ہوگی، جن کی حیات میرے اُوپر شجرِ سایہ دار کی طرح ہے اور جن کی شفقت بھری تربیت و پرورش سے مجھے منزل ملی، میرے سفرِ زیست کی کامیابیوں کے تمام شگفتہ پھول ان کے قدموں کی عظمت پر نچھاور ہوں۔ میریبہنیںجو مجھے بہت پیار کرتی ہیں، اکلوتا بھائی ہونے کی وجہ سے پیار سے وہ مجھے مختلف ناموں سر کاکا، افسر کاکا، دفتر کاکا وغیرہ کہہ کر اپنی محبت و شفقت کی پیاس بجھاتی ہیں، میرے علمی سفر میں ان کے یہ پیار بھرے جملے ہمیشہ مجھے قوت فراہم کرتے رہیں گے۔
اپنی گذارشات کے آخر میں چند دیگر احباب کا ذکر کرنا بھی مناسب سمجھتا ہوں جن کی محبت و عنایت سے یہ کتاب آپ تک پہنچنے میں کامیاب ہوئی۔ میں اس سلسلے میں ITREB، فار پاکستان کے سین¿راسکالر ڈاکٹر عبدالعزیزدینار کے خلوص، ان کی محبت اور مہمان نوازی کا ذکر نہ کروں تو بے ادبی کی انتہا ہوگی۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنی مصروفیات کے باوجود نہ صرف کتاب کی پروف ریڈنگ کی بلکہ اپنے زریں تاثرات سے بھی نوازا۔ میں محمد اسلم صاحب ایریا اکیڈمک منیجرITREB، نارتھ کا بھی شکر گذار ہوں۔ کراچی میں مقیم اپنے دوستوں کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا، جنہوں نے میرے ادبی دورہ¿ کراچی پر بے حد مہمان نوازی کی۔ علاوہ ازیں عبداللہ میر، سید رشید الدّین، نیک عالم شاہ، اپنے بھائی شرافت علی، اپنے دوست صحافی یقوب طائی اور میرباز خان ہنزائی کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں، اس کتاب کا آپ کے ہاتھوں تک پہنچانے میں ان احباب کی بھی محبت شامل ہے۔
میں بارِ دیگر سب محسنوں کا ممنون ہوں۔
نوٹ: (یہ تحریر میری پہلی کتاب ”شاید پھر نہ ملیں ہم“ کا دیباچہ ہے جو سنہ ۸۰۰۲ءکو شائع ہوئی تھی۔)

Related Articles

Back to top button