گوشہ اردو

یوم تجدیدآزادی

تحریر: محمدجان رحمت جان
mohdjan21@hotmail.com
دنیا کے دوسرے قوموں کی طرح گلگت بلتستان کے عوام نے اپنی علاقائی وسائل کا استعمال کرکے اس خطے کو اُس زمانے کے طاقتور سیاسی نظام حکومت سے آزاد کرایا۔ جس کی کہانی گلگت بلتستان کے ایک ایک فرد کو معلوم ہے اور یہ کہانی سینہ بہ سینہ دوسروں میں منتقل ہوتی آرہی ہے۔ جس کی تجدید میں یکم نومبرکو یوم آزادی کا دن منایاجاتاہے۔یہ دن یکم نومبر1948ءکی یاد میں منایا جاتاہے۔ اس موقع پر رنگا رنگ پروگرام ہوتے ہیں۔ سیاسی وسماجی شخصیات اپنے اپنے انداز میں اس دن کو مناتے اور قوم کو اہم پیغامات بھی دیتے ہیں۔ رسم و رواج کو منانا اور ان کی یاد رکھنا اب پرانے زمانے کی روایات میں سے ایک ہے۔ ہم رسومات اور تہوار تو مناتے ہیں لیکن تہوار کے پیغام پر عمل پیر ا نہیں ہوتے۔ مثلا ہم قربانی کی رسم منانے میں بہت آگے گئے ہیں لیکن حضرت ابراہیم علیہ صلواةُ وسلام کی طرح قربانی کا عملی مظاہرہ نہیں کرسکتے۔ ہم امام حسین ؑ کی قربانی کی یاد مناتے ہیں لیکن وہ جذبہ ایمانی نہیں جس کا مظاہرہ امام حسین علیہ سلام نے کیا تھا۔ ہم یوم پاکستان مناتے ہیں لیکن پاکستان کے لئے قربانی دینے کو تیار نہیں۔ ملک کےلئے قربانی سے مراد یہ ہے کہ ہم اپنے اغراض ومقاصد اور ذاتی مفادات سے بالا تر ہوکر ملکی مفاد کے لئے اپنے مفاد کو قربان کردے۔اجتماعی مفاد کےلئے ذاتی مفاد کو آگے نہ لائیں۔ یہ تمام باتیں اب تاریخ کا حصہ بن چکی ہیں اور ہم صرف تاریخ دہرانے والی قوم بن کر رہ گئے ہیں۔ قدیم زمانے سے اب تک ہم صرف سیاسی لوگوں کی گروہ بندیوں کا شکار ہیں۔ سماجی کام کے دوسرے پہلوں پر اتنا توجہ نہیں دے سکے ہیں کیونکہ سماجی خدمات میں سیاسی دم خم نہیں پروٹکول نہیں۔۔۔ ہم آزادی کا دن کیوں منارہے ہیں۔ اُس دن ہم کس سے آزاد ہوئے تھے؟ کیا کوئی آزادی کے بعد بھی محکوم رہ سکتا ہے؟ ہم آزادی کے بعد اس خطے کا حصہ رہیں یا الگ ہوچکے ہیں؟ اگر ہم آزاد ہوکر الگ ہوچکے ہیں تو اب بھی ان کا احسان کیوں؟ یہ وہ معاملات ہیں جن پر آج ہمیں غور کرنے کی ضرورت ہے۔
۴۶سال بعد جب ہم یوم آزادی منانے کی بات کرتے ہیں تو یو ںلگتا ہے کہ ہم پچھلے سال آزاد ہوئے ہیں۔ چاروں طرف مسائل ہے وسائل کم ہے؟ ہم نے ابھی(عارضی)حکومت حاصل کی ہے ۔ جس کی کابینہ تشکیل دی گئی ہے۔ وزیر کون بنے گا؟ مشیر کون بنے گا؟ کیا اس کے لئے کوئی موزوں امیدوار ملے گا یا نہیں۔ نہیں ملے تو پاکستان کے کسی اور صوبے سے امپوٹ کرینگے۔ مقامی لوگ کم پڑھے لکھیں ہیں اس لئے تمام اعلیٰ آفیسران پاکستان سے منگوائیں گے تاکہ ہمارے نوزائیدہ ریاست کو وہ استوار کر سکیںکیونکہ نیا سیٹ اب ہے۔ بعد میں جب ہم بالغ ہوجائیں گے تب اپنے ہی لوگ یہاں ریاستی امور سرانجام دیں گے۔ ۔۔ آزادی کے ۴۶سال بعد جب ہم دیکھتے ہیں تو یوں لگتا ہے کہ ہم نے آزادی ۱کیسویں صدی کے شروعات میں حاصل کی ہے۔ ہماری یونیورسٹی کو بنے ابھی آٹھ سال پورے نہیں ہوئے ہیں۔قراقرام ایکزام بورڈ بنے ابھی چھے‘سات سال ہوئے ہے۔ صوبائی سیٹ بنے ابھی دو‘تین سال ہوئے ہیں۔الیکشن کمیشن ‘ پبلک سروس کمیشن‘ فنائس ‘ عدلیہ‘ بیت المال‘ حلال احمر‘بہبود آبادی اور پولیس کو مراعات ملے ابھی ایک سے دوسال نہیں ہوئے ہے۔ یہی نہیں عمارات اور سرکاری دفاتر بھی ابھی بن رہے ہیں۔ مثلا گلگت ہی کی مثال لیجئے ‘ گورنر آفس‘ وزیر اعلیٰ کا دفتر‘ وزراءکے دفاتر‘ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ آفس اور یہ حال دوسرے ضلعوں میں بھی ہے۔ہم اپنے سیاسی لوگوں سے کیا گلہ کریں گے کیونکہ سیٹ اب نیا ہے؟ہمارے بچے آج ہم سے سوال پوچھتے ہیں کہ ۴۶سال کی عمر میں لوگ تو ریٹائر ہوتے ہیںتہذیب وتمدن اور ریاستیں عروج پر ہوتی ہیں۔ گلگت بلتستان وہ واحد ریجن ہے جو اتنے بڑے عرصے کے باوجود بھی بالکل نومولود لگتا ہے۔ یہاں کے حکمران ہر ایک پلٹ فارم پر کہتے کہ ہم ابھی صحیح سیٹ نہیں ہوئے ہیں۔ تقریباََ تیس سے زائد ممبران میں سے دس تک صوبائی وزیر ہیں ‘مشیران اس کے علاوہ ہے۔ گلگت بلتستان کی حکومت واحد حکومت ہے جہاں اپوزیشن لیڈر صرف دو رہ گئے ہیںوغیرہ وغیرہ۔ اب ان میں سے ہر وزیر اخبارات میں یوم آزادی کی مبارکباد کے اشتہار دے گا جس کی لاگت شاید لاکھوں میں ہوسکتی ہے لیکن کسی سکول یا ہسپتال کی ضروریات کےلئے پیسے مانگیں تو کہیں گے پیسے کہاں سے لائیں؟ بجٹ نہیں ہے سالگرہ اور تعزیت کے اشتہارات کے بل کہاں سے آتے ہیں یہ نہیں معلوم!
اب سوال یہ ہے کیا ہم یہی رویہ اپنے بچوں کو بھی سیکھائیں کہ وہ عمر میں بلے تیس سال کے ہو لیکن کہے کہ ہم سیٹ نہیں ہیں۔ ابھی ہم چھوٹے ہیں۔ یوم آزادی ہمیں یہ پیغام لیکر آتی ہے کہ وسائل اور مسائل کے باوجود اپنے کام کو جاری رکھنا چاہئے۔ اگر اُس وقت ہمارے آبا واجداد یہ کہہ کر بیٹھ جاتے کہ ہمارے پاس وسائل نہیں تو آج ہم اس مرحلے میں نہیں ہوتے۔ وہ اُٹھ کھڑے ہوئے اور پورے گلگت بلتستان کو ڈوگروں اورسکھوں سے آزاد کرایا۔ ان کے زمانے میں سکول کم تھے لیکن پڑھائی بہت موثر تھی آج ہر گاﺅں میں سکول ہے لیکن سالانہ رزلٹ دیکھ کر لگتا ہے کہ اس سکول میں استاد نہیں کوئی اور مخلوق پڑھاتے ہیں۔ کبھی ہم کرپشن کا نام سنتے تھے آج دیکھتے ہیں اور جانتے ہیں کہ کرپشن کیسے کی جاتی ہے لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں۔64سال بعد کے نمائندوں کی گاڑیاں اور پروٹکول دیکھ کر لگتا ہے کہ ہم واقعی 64سال کے ہیں لیکن علاقے کی تعمیر ترقی دیکھ کر نہیں لگتا کہ ہم کتنے سال کے ہیں۔
ان سب کے باوجود آج کے دن ہمیں یہ عہد کر لینا چائیے کہ علاقائی وسائل کی بے دریغ استعمال کو کم کرکے تعلیم اورصحت کے ساتھ ساتھ اس علاقے کی بنیادی سہولیات کی طرف توجہ دیں۔ آج ہر ایک سرکاری عہدہ دار اپنے آپ سے سوال پوچھئے کہ جس کوٹھی میں وہ رہتا ہے وہ کس طرح بنی ہے۔ کیا وہ آپ کی اپنی ہے یا گلگت بلتستان کے عوام کی خون پسینے کی کمائی! آج آپ تجارت کے چوٹی پر ہیں کیا یہ پیسے آپ کے اپنے ہیں؟ اگر ہیں تو ماءشاءاللہ! نہیں تو زرا سوچئے کہ قیامت کے دن کیا جواب دیں گے؟ سرکاری عہدہ داروں کی جائیدادیں اسلام آباد اور کراچی تک پھیلے ہوئے ہیں جبکہ ان کی ماہانہ تنخواہ اب بھی پچاس ہزار سے زیادہ نہیں ہے۔یہ جائیدادیں کہاں سے آئے ہیں؟ آج کا دن احتساب کا دن ہے؟ ضمیر کے احتساب کا دن ہے؟ ہم اپنے آپ سے پوچھئے کہ ہم نے اپنا رول کہاں تک صحیح ادا کیا ہے؟ اپنے حقوق و فرائض کی ادائیگی کہاں تک کی ہے۔ میڈیا اور دیگر عوامی پلٹ فارمز کو بھی عوامی مسائل اجاگر کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ وزیروں کے بیانات۔ ہم روز وزیروں اور مشیروں کی مصروفیات کے خبریں پڑھ پڑھ کر تھک گئے لیکن عوامی مسائل اور تعمیر وترقی کی طرف توجہ نہیں دے سکیں۔ سکول‘ سٹرک‘ ہسپتال‘ پانی‘ بجلی‘ روٹی‘ کپڑہ ‘ مکان‘ تعلیمی مواقع‘ روزگار اور دیہی ترقی کے منصوبے کیا ہیں؟ ان میں سے کتنے مکمل ہوئے ہیں اور کتنے تعمیر کے مراحل میں ہے؟ حکومتی عہدہ داروں کی منصوبہ بندی کیا ہے۔ دس سال بعد وہ اس علاقے کے بارے میں کیا سوچتے ہیں؟ کتنے پروجکیٹ ایسے ہیں جو وقت پر مکمل ہوئے؟یہود اور عیسائی سو سو سالوں کے لئے پہلے ہی سے منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ ان کی حکومتیں پانچ سو سال تک کے منصوبے بنا چکے ہیں۔ یوم آزدی کے دن حکومت کو اپنے کئے ہوئے کام اور ہونے والے کاموں کے بارے میں عوام کو بتانا چائیے۔ اپنے کاموں سے مراد اپنے دور کے تعمیری کام نہ کہ تاریخ کارٹ لگاتے رہے۔ مثلاََ ہم نے گلگت سے ایف ۔سی ۔آر کا خاتمہ کیا۔ ہم نے فلاں فلاں ڈسٹرک منایا۔ ہم نے قربانی دی ہمارے اتنے لوگ شہید ہوئے۔ وغیرہ وغیرہ یہ وہ باتیں ہیں جن کا عوام کو پتہ ہے بلکہ عوام نے ان احسانات کا بدلہ بھی دیا ہے۔ اب آپ نے کیا کیا ہے ی یہ دن ہم سے اس بات کا تقاضا کرتا ہے؟ وہ کام تو انہوں نے کیا ہے جس سے ہم اگاہ ہیں۔ آپ اور آپ کے ممبروں (جن میں سب شامل ہیں) کیا کیا ہے؟ عوام کو بھی سوچنا چائیے کہ ہم نے اپنی ذمہ داری کو کہاں تک نبایا ہے؟االلہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ یوم آزادی ہمیں اپنے علاقے کی تعمیر وترقی میں حصہ ڈالنے کی توفیق عطا فرمائیں۔

Related Articles

One Comment

Back to top button