تحصیل اشکومن کے تین گاﺅں تھپشکن ، اسمبر اور شولجہ : اکیسویں صدی کے بد قسمت ترین گاﺅں
چٹورکھنڈ ( کریم رانجھا) تحصیل اشکومن کے تین گاﺅں تھپشکن ، اسمبر اور شولجہ کو حقیقی معنوں میں اکیسویں صدی کے بد قسمت ترین گاﺅں کا درجہ دیا جاسکتا ہے کیونکہ یہاں کے مکینوں کی زندگی اب بھی پتھر کے دور کی سی ہے ۔کافی عرصہ پہلے تک یہاں کے باسی مطمئن تھے کیونکہ ایک عدد سڑک یہاں سے بھی گزرتی تھی جس کے زریعے یہاں کے لوگ اپنی اشیا ئے خوردونوش وغیرہ اپنی دہلیز تک پہنچاتے تھے اور اس کے علاوہ ان تینوں مواضعات کے بچے، بچیاں زیور تعلیم سے آراستہ ہونے کے لئے اسی سڑک کے زریعے درس گاہوں تک رسائی حاصل کرتے تھے۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یه علاقے ترقی معکوس کی جانب سفر کرنے لگے اور آج صورتحال یه ہے کہ یہاں کے بچے، بچیاں پرائمری کے بعد تعلیم کو خیر باد کہہ رہے ہیں ۔
وہ سڑک جو یہاں کے باسیوں کے لئے زندگی کی لکیر کی حیثیت رکھتی تھی عرصہ درازسے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔سیلاب کے باعث مرکزی شاہراہ سے ملانے والے دو پل دریا برد ہوچکے ہیں ۔اس کے علاوہ وہ سڑک جو گاﺅں دائن سے گزرتی ہوئی ان تینوں بستیوں کو ملاتی ہوئی اشکومن خاص تک پہنچاتی تھی ،محکمہ تعمیرات کی نگاہ کرم سے اس کا نام ونشاں بھی مٹ چکا ہے،اور یوں گاﺅں شولجہ، اسمبر اور تھپشکن کے ڈیڑھ سو گھرانے گزشتہ تین سالوں سے باقی دنیا سے کٹے ہوئے ہیں ۔ سردیوں میں یہاں کے مقامی لوگ اپنی مدد آپ کے تحت دریاۓ اشکومن پر عارضی پل بناکر رابطے کا ذریعہ پیدا کر لیتے ہیں، لیکن جوں جوں دریا کے بہاﺅ میں اضافہ ہوتا ہے یه عارضی پل بھی دریا کی نذر ہوجاتے ہیں اور زندگی ایک بار پھر جمود کا شکار ہو جاتی ہے ،سکول جانے والے بچے ،بچیاں دریا کے اس پار سے حسرت بھری نگاہوں سے اپنی درسگا ہوں کو تکتے رہتے ہیں ۔کنبے کے سربراہ کا اصل امتحان یہاں سے شروع ہوتا ہے ،روزمرہ ضرورت کی اشیا حاصل کرنے کے لئے پچوں کو کئی میٹر راستہ طے کر کے چٹورکھنڈ آنا پڑتاہے اور واپسی میں مذکورہ اشیاء پیٹھ پر لاد کر گھروں تک پہنچا دئے جاتے ہیں اور خدانخواستہ اس دوران کسی گھر کا کوئی فرد بیمار پڑجائے توبروقت ہسپتال پہنچانا ناممکنات میں سے ہے۔
گورنر سمیت عوامی نمائندوں نے یہاں کے باسیوں کو گویا اندھیروں میں رکھنے کی قسم اٹھا رکھی ہے۔مسائل میں الجھے یہاں کے غریب عوام کا کوئی پرسان حال نہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ عوامی نمائندوں سمیت حکومتی ادارے یہاں کے عوام کی مشکلات کم کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کرے اور خصوصاً زیر تعلیم طلبہ وطالبات کے لئے کوئی مستقل حل تلاش کیا جائے تا کہ آئے روز ان کی تدریس میں خلل پیدا نہ ہو۔اس سلسلے میں محکمہ پی ڈبلیو ڈی اگر معمولی توجہ دے تو یہاں کے باسیوں کے دکھوں کا بہت حد تک مداوا ممکن ہے ،اگر ضرورت ہے تو صرف خلوص نیت کی۔
Peer Karam Ali shah is responsible of all,he worked like peer and mir .youth of the area has to come forward and work for the development.
ZARDARI or Peer Karam Ali ky hoty hoy in ki qsmat nahi badal sakti