گوشہ اردو
گلگت بلتستان پر ثقافتی یلغار – حصہ اول
تحریر: مولامدد قیزل
جس طرح گلگت بلتستان جغرافیائی لحاظ سے بلند اور اونچا ہے اسی طرح ان بلندیوں میں رہنے والے لوگ بھی بلند کردار کے مالک ہیں انہیں آبشار کی طرح آر پار دیکھا جا سکتا ہے۔ملاوٹ سے پاک ان لوگوں کی رسم و رواج ، تہذیب و تمدن اس قوم کو اور منفرد بنا دیتی ہے کسی بھی ملک و قوم کے تشخص کا اصلی سر چشمہ انکی تہذیب و ثقافت ہوتی ہے ۔ جو کہ انسانی زندگی کا بنیادی اصول ہے۔ ایک معاشرہ اور ایک قوم کے کلچر اور تہذیب کے اعلیٰ مظاہر اس کے خصوصیات ،طرز فکر نظام اخلاق، علم و ادب، فنون ،عادات و اطوار ،اسکا دینی نظریہ ،زبان، رہن سہن ،رسم و رواج ،فن تعمیر روایات، لباس، اور طرز حیات میں نظر آتے ہیں ۔یہ وہ بنیادی چیزیں ہیں جو ایک قوم کو بہادر ، شجاع و غیور ، غیرت مند، قابل فخر اور خود مختار بنا دیتی ہے اور انکا فقدان قوم کو حقیر ، غلام اور بزدل بنا دیتا ہے ۔ یہاں تک کہ انکی شناخت تاریخ کے اوراق سے بھی مٹ جاتا ہے ۔کچھ ایسا ہی حال اہل گلگت بلتستان کا بھی ہے تہذیب و ثقافت میںفرانگی اور عربی ملاوٹ نے اس قوم کی شناخت کو مٹا کر حقیر بنا دی ہے۔
کلچر کی دو صورتیں ہیں ،دو پہلو یادو شکلیں ہیں۔ ایک وہ جو ظاہر اور نمایاں ہے اور دوسری وہ جو نہاں ہیں، باطنی ہیں یا غیر مرئی پہلو ہیں یا ہم اسے ذہنی صورت بھی کہہ سکتے ہیں ۔ثقافت کے ظاہری پہلوﺅںمیں ہمارا لباس ، رہن سہن، فن تعمیر، اوڑھنے بچھانے کی چیزیں، مصوری ، موسیقی، شاعری ، غذا، ظروف سازی وغیرہ شامل ہیں۔
گلگت بلتستان ثقافت کے اس ظاہری پہلو میں ایک اعلیٰ مقام رکھتا ہے جو ہمیں دنیا کی دوسری قوموں سے ممتاز اور منفرد بنا دیتی ہے مثلاً ہماری موسیقی میں جوش ، جوبن اور زندگی کے ذرات پائے جاتے ہیں ڈھول کی تھاپ ، سرانائی کی مدھر بانسری کی دھن نہ صرف کانوں میں رس گھولتی ہے بلکہ انسانی جذبات میں خوشی اور تازگی کی ایسی موجیں پیدا کرتی ہے کہ جس سے جوان تو جوان بوڑھے اور بچے بھی اس موسیقی کی اونچی لہروں میں بحیرئہ عرب کی موجوں میں جھومتے ہوئے مچھلیوں کی طرح رقص کنا ں ہوتے ہیں ۔ ان دھنوں کی تاثیر ایسی ہے کہ بیمار دلوں کے مرجھائے ہوئے چہرے بھی گلگت ، بلتستان کے پہاڑوں میں چھپے یاقوت اور ہیرے کی طرح کھل اٹھتے ہیں ۔ ہمارا ثقافتی لباس چوغہ ، ٹوپی، اور اس پر سفید پر کو اگر محبت ، وفاداری اور قومی شناخت کے جذبہ بصیرت سے دیکھیں تو یہ ہمیں بادشاہی اور ملکوتی لباس سے کم نظر نہیں آتا۔ اور اس لباس میں ملبوس ایک بزرگ گویا آسمانی ہستی سے کم نہیں اور ایک جوان کے۔ٹو کی طرح بلند اور راکا پوشی کی طرح حسین و جمیل نظر آتا ہے اور اسی طرح دوسری چیزیں بھی ہماری پہچان اور وقار کی علامت ہیں۔ بد قسمتی سے ہم رفتہ رفتہ ثقافت کی اس پہلو کو فراموش کرتے آئے ہیں۔مثلاً دیسی قالین،ضروف سازی وغیرہ، ہمیں چاہیے کہ انہیںزمانے کے ساتھ جدید طرز پر قائم رکھے۔
ثقافت کے دوسرے پہلو جو نہاں ہیں جو کہ ہماری تقدیر طے کر نے میں مو¿ثر ہوتے ہیں، مثلاً سب سے زیادہ اہم اخلاقیات، معاشرے میں بسنے والے افراد کی ذاتی، سماجی اور معاشی زندگی کا طور طریقہ ، عقائد ، روایتی تصورات اور قصے کہانیاں شامل ہیں۔ ثقافت کے اس پہلو سے ہماری امیدیں ، امنگیں اور خواب جڑے ہوئے ہیں۔ ثقافت کے اس پہلو میں ہمارے انداز فکر کا طریقہ ہے۔ یعنی دیکھنے، سوچنے ، اچھائی اور برائی کا، خوبصورتی اور بدصورتی کا ، سلیقے اور بد سلیقگی کا ، معیار پرکھنے کا طریقہ، یہ سب کلچر کا باطنی پہلو ہے۔
جس طرح ثقافت معاشرے کی ساخت، جسم یا ڈھانچہ میں روح اور جان کا درجہ رکھتی ہے، اسی طرح ثقافت کے باطنی پہلو، ثقافت کے ظاہری پہلو میں روح کا درجہ رکھتی ہے، اور جب ثقافت کا ذہنی یا باطنی پہلو کمزور ہوجاتا ہے تو معاشرے کی پوری ساخت ڈھیلی پڑجاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اگر کسی قوم پر غلبہ حاصل کرنا ہو، انہیں غلام بنانا ہو، ان کے مال و دولت پر قبضہ جمانا ہو تو سب سے مو¿ثر طریقہ ان کی سوچ و فکر یعنی روح پر غلبہ حاصل کرنے کا ہے،اس کے ذریعے ان کے جان و مال، عزت و آبرو، تہذیب و ثقافت ، یہاں تک کہ ان کے عقائد پر بھی غلبہ حاصل کرسکتے ہو۔
اہل دانش و علم ، غیرت مند، تہذیب و تمدن اور کلچر کے پاسبان یہ جانتے ہیں کہ اغیار یعنی دشمن ہمیشہ دوسری قوموں کو برباد اور غلام بنانے کے لیے ، ان پر تسلط اور غلبہ حاصل کرنے کے لیے، اپنی تہذیب و ثقافت کی ترویج و تسلط کرنے کے لیے اس قوم کی ثقافت کے باطنی پہلو کو ختم یا کمزور کرتا ہے۔
—– جاری ہے ۔۔۔۔۔۔
vry nice ,brillient ,outstasnding, real an also amazing kako jee salute for u r text….. alam
Dear Moula Madad,
Thank you very much for your heart touching post.
It reminds me of, back 1992 to 1995, when I was teaching in a local English medium School of Hunza. One day, as I came out from my class of primary teaching, I came across to a visitor coming from Germany.
After formal salutations, our administrator informed me that the Professor wants to observe your teaching methods for one week, which I agreed. In the next one week as per timeline, he continuously observed my teaching for 45 minutes. After passing of one whole week the professor kindly offered me a lunch in a local restaurant after the school hours.
As we sat, this professor put one simple question in front of me, like, what do expect these students to be when they grow UP? My answer was very simple…… I told him, that, I expect my students to be responsible citizens of our society, he said fine then, he put his 2nd question about English language. He said that one whole week, you spoke to your students in English, it was quite possible to integrate your local language as well. I agreed to his observation.
Further he commented, not exact his words but it’s the crux of his feeling!
As Hunzukutz you are known cross the globe due to your culture that teaches simplicity, honesty, bravery and respect. But adopting, the language of other cultures, without checks, not only harming your own language but losing your identity among the cultures & civilizations of the world.
He emphasized, that young generation must have a good access to science & technology but the same time school curriculum must be linked to local culture so that the future generations should have deep roots into their culture and the area.
If we look at the curriculum of the schools in the GB. We teach much more about the arctic, Antarctica, North America and rest of the world. Unfortunately, the educational link to the local heritage is missing. I think the academic settings of GB need to think on this neglected part as the link of local education greatly affects the values, cultures, & goal setting of future generations.
Kind regards,
ali
gr8888888888888 ali bhia
Ali Hunzai,
i got your point of view. let me tell you that there is a big difference between ‘learning’ and ‘adoption’ of a language. Learning English as an International Language is far different than its complete adoption as our identity. Nobody can deny importance of English in the Global-village era, specially in the fields of science and technology. so what’s bad if we propel ourselves forward by learning English as a foreign language without influencing our culture, tradition and identity?
bottom line; Learning English doesn’t necessarily mean ADOPTION of English culture. thnx
Great work Moula Madad and wonderful reply by Ali Hunzai.