گوشہ اردو

ہم مستقل مزاج کیوں نہیں؟

تحریر: محمدجان رحمت جان
mohdjan21@gmail.com
مستقل مزاجی انسان کو منزل تک پہنچاتی ہے۔ جو لوگ مستقل مزاج نہیں وہ منزل نہیں پاسکتے ۔ ان کے ارادے بدلتے رہتے ہیں وہ کبھی بھی اپنے کئے پر خوش نہیں رہ سکتے ۔اگرچہ انسانی کردار میں متبادلات کا عنصر ہمیشہ سے ہوتا رہا ہے اور ہونا بھی چاہئے لیکن بعض اوقات باربار متبادل راستے ڈھونڈنا منزل کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہوسکتی ہے۔تکلیف یا مصیبت میں متبادل راستہ کام آسکتا ہے لیکن جب منزل طے ہوجائے اُس کے بعد باربار متبادل کا سوچنا راہ نجات نہیں۔ دین اسلام نے ہمیشہ مستقل مزاجی کی تعلیم دی ہے۔مصمم ارادہ اور مستقل مزاجی آج کل کے سماج کی ایک اہم ضرورت بن گئی ہے۔ ہم ان سارے طالب علموں کو جانتے ہیں جو ڈاکٹر ‘انجینئر‘ آفیسر‘ یا کچھ اور بننے نکلتے ہیں لیکن کئی سال بعد وہ کچھ اور بن کے آتے ہیں بہت کم مستقل مزاج ہوتے ہیں۔ ہشتم کلاس کے بعد سائنس ‘دہم کے بعد آرٹس‘ انٹر کے بعد کامرس‘ بی۔اے کے بعد اسلامیات اور ایم اے کے بعد ایجوکیشن میں ایم ایس پھر پی ایچ ڈی موحولیات میں کرتے ہیں۔اب آپ تبائیں کہ کیا توقع ہوگی ایسے آدمی سے؟ تخصیص کار کا فقدان ہمارے ملک میں بہت سے بیماریوں کو جنم دیا ہے۔ ہوم اکنامکس پڑھنے والے زمیندار ہیں اور زراعت پڑھنے والے ہوٹلوں میں کک ہیں؟اسلامیات میں پڑھنے والے بنگ میں کام کرتے ہیں اور کامرس میں پڑھے لوگ اسلامیات پڑھاتے ہیں۔ اس رجحان میں ابھی کمی تو آرہی ہے لیکن وہ لوگ ہزاروں میں ہیں جو اس طرح ایڈجس ہوئے ہیں۔میرے ایک دوست سیاسیات میں ایم اے کرنے کے بعد مسجد کا امام بنا ہے ‘ایک دوست حافظ قرآن اور ایم اسلامیات کے بعد سیاست میں ہے۔ کچھ دوست جنرل سٹور کھولتے ہیں اور ریٹیلر بنتے ہیں۔ ایک عرصے کے بعد فروٹ کا کاروبار شروع کرتے ہیں۔ پھر کھاد کی دکان کھولتے ہیں۔ یہی نہیں پھر کاروبار کا یہ طریقہ چھوڑ کر مال مویشیوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں۔ اب یہاں ایک عرسے کے بعد ایک گاڑی لیںگے پھر کاروبار ختم کر کے ملازمت کا راستہ اختیار کرتے ہیں ۔ سجمھ نہیں آتا ایسا کیوں کرتے ہیں؟کچھ لوگ اب یہ کہنے لگے ہیں کہ ” جو بھی کرو چلتا ہے“یا ” پاکستان میں چلتا ہے“ کیوں؟
یہاں قدیم روایات سے ایک کہانی مجھے یاد آئی جو تاریخ کے کتابوں میں مختلف سیاق میں بیان کی گئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایران میں ایک بادشاہ بہت زیادہ رحم دل اور نیک صفت تھا۔ لوگ اُس کو نہ صرف بادشاہ بلکہ اپنا آقا مانتے تھے۔کچھ حلقوں میں بادشاہ کو زمین پر اللہ کا خلیفہ سمجھا جاتا تھا ۔ بادشاہ کی مہربانی‘ شفقت اور عدل مشہور تھی۔ ایک دفعہ ملک کے ایک دیہات سے لوگ ان سے ملنے گئے اور بہت زیادہ پیار ومحبت کا مظاہرہ کیا۔ بادشاہ کو اپنے علاقے میں آنے کی دعوت دی۔ بادشاہ نے وزیر سے کہا کہ کیا کریں کب ان کے پاس جائیں؟ وزیر بڑا چالاک تھا اُس نے کہا’بادشاہ سلامت ایک شرط پہ آپ ان کے گاﺅں تشریف لانے کے لئے کہے وہ یہ کہ اگر آپ مجھ سے اتنی محبت اور خلوص کا مظاہرہ کرتے ہیں تو گاﺅں میں ایک دودھ کی ٹنکی بناﺅ اور اس میں دودھ بھر دوں اس ٹنکی کے افتتاح میں میں آﺅنگا‘۔ بادشاہ نے لوگوں سے یہ کہا تو وہ کہنے لگے’ بادشاہ سلامت آپ حکم کریں ہم کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں‘۔ بادشاہ نے اس شرط پر ان سے ملاقات کا وقت دے دیا۔ وہ لوگ بڑے جذباتی تھے مان گئے اور گاﺅں میں جا کے سب لوگوں کو یہ واقعہ سنایا ۔ سب لوگ خوش ہوگئے اور کہا کہ کوئی مسئلہ نہیں آج ہی بناتے ہیں۔ مرد ‘ عورتیں‘ بچے اور بوڑھے سب نکلے اور گاﺅں کے اوپر کی پہاڑی پر ٹنکی کام شروع کردیا۔ انہوں نے کوئی اور نہیں سوچا بس کام پر لگ گئے۔دس پندرہ دن رات کام کیا۔ ٹنکی بننے لگی۔ کچھ لوگوں نے اس دوران نیتیں بدل دی کہا کہ بادشاہ کو اس طرح ہمیں ازمانے کی کیا ضرورت تھی؟ کچھ نے کہا کہ ہم یہ شرط نہیں مانتے؟ کچھ نے کہا چلو مسئلہ نہیں کام ہوجائے گا۔ اُدھر ٹنکی کا کام تیار ہونے کو ہے لیکن اِدھر لوگوں کی نیتوں میں فطور شروع؟ وفد کے ایک دو لوگ رات کو جمع ہوکر آپس میں ملنے لگے اب دودھ ڈالنے کی باری ہے۔ سب دودھ ڈالنے والے ہیں ہم کچھ لوگ اس ٹنکی میں پانی ڈالتے ہیں کوئی پتہ نہیں چلے گا۔ رات کو ایک دو کو بتایا۔ پھر ان لوگوں میں سے ہر ایک نے اپنے دوستوں کو بتایا اور دودھ ڈالنے کا مرحلہ آیا۔ رات ہوگئی سب نے سوچا کہ سب لوگ دودھ ڈالتے ہیں میں اکیلا پانی ڈالوں تو کیا ہوتا ہے؟ دیکھتے ہی دیکھتے سب کے سب نے پانی بھر دیا۔ صبح وزیر صاحب ٹنکی دیکھنے آیا تاکہ بادشاہ کی آمد پر معاملات طے کریں۔ ٹنکی میںپانی دیکھ کر وزیر ششدر رہ گئے۔ یہ لوگ اور ان کی وہ محبت!بادشاہ کو ان کی محبت پر شک ہوا اور گاﺅں تشریف نہیں لائے۔ ان کی ساری محنت رائیگاں گئی۔ پھر گئے عرض کیا کہ کوئی اور ازمائش دو! باشاہ نے کہا ” نماز عشق ادا ہوتی ہے تلواروں کے سایے میں“پہلے اپنے اندرمسقل مزاجی پیداکرو پھر میں بتاﺅنگا۔ چند ایک کی غیر مستقل مزاجی سے سب اپنے بادشاہ کی دیدا ر سے محروم رہے۔
آج کل ہمارے والدین بھی مستقل مزاج نہیں روز روز بچوں سے نئے توقعات رکھتے ہیں۔ ہمارے ٹیچراور علماءمیں مستقل مزاجی نہیں رہی روز نئے جہت سیکھاتے ہیں۔ کبھی تعاون پر اکساتے ہیں کبھی بدلہ لینے پر‘ کبھی اجتماعی فکر دیتے ہیں اور کبھی انفرادیت کا عروج۔ہمارے دوکاندار اور زمینداروں کی عادت بھی روز روز بدلتی ہے۔روز روز نئے دھندوں کا سودا۔ ایک فصل پر اکتفا نہیں۔ تبدیلی اور نئی سوچ کے لئے ضروری ہے کہ پہلی والی سوچ تکمیل ہو۔ہمارے حکمران بھی آج کل مستقل مزاج نہیں ۔ روز روز نئے بیانات دیتے ہیں۔ ان کی سوچ میں روز کی تبدیلی ہماری منزل کو ہم سے چھن جائے گی۔فیصلے اور منزل کا تعین کرنے کے بعد اس کے حصول میں مستقل مزاجی ہوناچائیے۔اگر یہ چیزیں وقت کی نظر ہوگئی تو ملک وقوم کی منزل ہاتھ سے نکل جائے گی۔ اس وقت ہمارے سیاسی لیڈران اگر کوئی مضبوط لائحہ عمل طے نہ کرسکے تو اس اسمبلی کے دورانیہ کے اخر تک کچھ بھی نہیں ہوگا۔مستقل مزاجی ہر ایک کی ضرورت ہے رشتے ناطے ہو یا کاروبار‘ لین دین اور تعلم میں مستقل مزاجی بہت ضروری ہے ورنہ روز نئے نئے فیصلے ہماری منزل کو بھگا دیں گے۔” ہے دل کے لئے موت مشینوں کی حکومت‘ احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات“۔ شورش کشمیری کہتے ہیں کہ
زبان بگڑی‘ قلم بگڑا‘ روش بگڑی ‘ چلن بگڑا
خود اپنے ہاتھ سے کافر گروں کا پیرہن بگڑا
چلا تکفیر کا جھکڑ کہ شرق و غرب کانپ اٹھے
اٹھی دشنام کی آندھی مزاج اہرمن بگڑا

Related Articles

Back to top button