گوشہ اردو

وادی ارسون: دہشتگردی کے شکار لوگ امداد کے منتظر

چترال (گل حماد فاروقی) پاک افغان سرحد کے قریب واقع ارسون کا علاقہ بری طری طرح دہشت گردی کا شکار ہوا تھا۔ پچھلے سال  ۲۷ اگست کو دہشت گردوں نے افغانستان کے علاقے نورستان سے اس علاقے پر حملہ کیا تھا جس میں سیکورٹی فورسز کے  کئی اہلکار شہید ہوئے تھے اس کے بعد عسکریت پسندوں نے اس علاقے کو بھی اپنے مظالم کا نشانہ بنایا۔ حتیٰ کہ یہاں واقع ایک سرکاری سکول کو بھی نذر آتش کر دیا گیا جس کے بعد اس علاقے کے بچے تعلیم سے بھی محروم ہوگئے۔

 ۲۸ستمبر کو عسکریت پسندوں نے اس سکول کو آگ لگایا۔ دہشت گردوں کے حملوں کے پیش نظر انتظامیہ اور سیکورٹی فورسز نے اس علاقے کے لوگوں کو ہدایت کی کہ وہ یہ علاقہ حالی کرکے کسی محفوظ جگہہ نقل مکانی کرکے رہائش پذیر ہوجائے۔ ایک مقامی شحص محمد حکیم اور حاجی برکت خان کا کہنا ہے کہ اس وقت 55گھرانوں نے اپنے گھروں کو حالی کرکے سویر، جنجیریت ، دروش اور دیگر علاقوں میں رہائش پذیر ہوئے۔ ان لوگوں کا کہنا تھا کہ جب ہمیں اطلاع ملی کہ گھروں کو حالی کرے تو ہم نے مغرب کے وقت تیار کھانا دسترخوان پر چھوڑ کر بھاگ گئے اور درو ش کے علاقے رہائش پذیر ہوئے ان کا کہنا ہے کہ ان کی تیار فصل، جانور، مال مویشی، جنگل سب چھوڑ کر چلے گئے اور جب واپس آئے تو وہ حتم ہوچکے تھے کیونکہ ان کو نگرانی کرنے والا کوئی نہیں تھا اور فصل بھی گڑ سڑ کر حراب ہوا جبکہ بھیڑ بکریوں کو درندوں نے کھالیا۔

یہ لوگ نہایت کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں اور ایک گھر میں پانچ حاندان رہتے ہیں جہاں نہ صحت کی سہولت ہے نہ تعلیم کی۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت پاکستان اور صوبائی حکومت نے تمام جگہہ میں متاثرین کے ساتھ امداد کیا مگر ہمارا کسی نے پوچھا تک نہیں۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ پاک فوج کے آنے کے بعد انہوںنے اگرچہ سکھ کا سانس لیا کہ اب ان کے جان حطرے سے باہر ہیں مگر ان کا جو نقصان ہوا ابھی تک اس کی تلافی نہیں ہوئی اور اب اکثر لوگوں کے مکانات برف باری کی وجہ سے گر کر تباہ ہوچکے ہیں۔ ارسون کے متاثرین کا وفاقی اور سرکاری حکومت کے ساتھ ساتھ دیگر اداروں سے بھی اپیل ہے کہ ان کے ساتھ مالی امداد کیا جائے تاکہ وہ ایک بار پھر اپنے پاﺅں پر کھڑے ہوکر معمول کی زندگی گزارلے کیونکہ یہ لوگ کھیتی بھاڑی اور مال مویشی پالنے پر انحصار کررہے تھے اور اب وہ حتم ہوچکے ہیں اکثر لوگ بے روزگار ہیں اور آمدگی کا کوئی ذریعہ نہیں ہے حاص کر خواتین کو نہایت مشکلات کا سامنا ہے کیونکہ وہ دیگر دیہات میں پینے کا پانی سر پر مٹکوں میں لانے پر مجبور ہیں۔ اکتالیس گھرانے اب بھی دوسرے کے گھروں میں رہنے پر مجبور ہیں اور بعض جگہوں میں ایک گھر میں پانچ پانچ حاندان رہتے ہیں۔
عوامی نیشنل پارٹی کے مقامی رہنما فرید جان ایڈوکیٹ نے ہمارے نمائندے کو بتایا کہ ہم ان متاثرین کی امداد کیلئے ضلعی انتظامیہ کے ذریعے صوبائی حکومت کو بار ہا درخواست کی کہ ان کے ساتھ مالی امداد کی جائے کیونکہ ان کے ساتھ امداد نہ کرنا سراسر ظلم ہے مگر ابھی تک حکومت کی طرف سے ان کے ساتھ کوئی امداد نہیں ہوا ہے۔ انہوںنے وفاقی اور صوبائی حکومت سے پر زور اپیل کی ارسون کے متاثرین کے ساتھ فوری طور پر مالی امداد کی جائے تاکہ یہ لوگ اپنے گھروں کو دوبارہ مرمت کر کے وہاں منتقل ہوجائے۔

Related Articles

Check Also
Close
Back to top button