گوشہ اردو
یاد رفتگاں – مولانا نزیرا للہ ؒ، کچھ باتیں کچھ یا دیں
مولانا حبیب اللہ دیدار
مسﺅل وفاق المدارس العربیہ ، گلگت بلتستان
مولانا نزیر اللہ کو اللہ تعالی غریق رحمت کریں اور ان کو علیین میں اللہ مقام عطا فرمائے، امین۔ جب بھی جامعہ نصرة الاسلام میں قدم رکھتا ہوں تو مرحوم کی یادیں تازہ ہو جاتیں ہیں ، مولانا مرحوم نے زندگی کا طویل عرصہ جامعہ میں گزارا اور اپنی شب روز کی محنت سے جامعہ کو اس حال تک پہنچایا، گلگت بلتستان کے دور افتادہ علاقے میں دینی خدمات،وہ بھی تعفن زدہ ماحول میں کوئی آسان کام نہیں ، تاہم وہ انہی کاہی خاصہ تھا کہ مشکل حالات میں بھی بڑے سے بڑا کام کر گزرجاتے تھے۔مجھے ان کے ساتھ کافی عرصہ کام کرنے کاموقع ملا ہے۔ میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ اللہ تعالی نے ان کے اندر بے شمار صلاحتیں ودیعت میں رکھی تھی اور انہوں نے ان کا خوب استعمال بھی کیا۔مولانا مرحوم نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ جامعہ کی انتظام و انصرام میں صرف کیا اور اپنی انتھک کوششوں اور قربانیوں سے جامعہ کی آبیاری کی، مولانا کو گلگت بلتستان کے تمام مکاتیب فکر سے جو احترام ملا شاید ہی کسی کے حصے میں آیا ہوں، وہ بہت نرم گوشہ رکھنے والے انسان تھے،
وہ گلگت میں پید ہوئے اور یہی زندگی کے اکثر ایام گزارا، انہوں نے ابتدائی کتب قاضی عبدالرزاقؒ مرحوم سے پڑھی اور ان کی ایما اور تحریک سے اعلی تعلیم کے لیے دارالعلوم دیوبند روانہ ہوئے وہاں اپنی تعلیم مکمل کی اور تخصص فی الفقہ جامعہ علوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاو¿ن سے وقت کے کبار علماءسے کیا،مولانا نزیراللہ مرحوم نے گلگت بلتستان میں سماجی اور دینی خدمات کا ایک نرالا باب قائم کیا،وہ جامعہ نصرة الاسلام کے حوالے سے بہت متفکر رہتے،کبھی کبھی وجد میں آکر کہتے کہ میں یہاں قبروں کا مجاور بیٹھا ہوں، ان کا دل اپنے گھر میں نہیں ٹکتا، وہ گرمی ہو یا سردی،مدرسہ ضرور تشریف لاتے،آج میں ان کے حوالے سے یہ سطور قلمبند کرنے بیٹھا تو بیتے دنوں کے حسین یادیں ایک ایک ہو کے دل ودماغ پرگزرنے لگی،مولانا مرحوم کی حیات اور ان کی سوانح عمری پرکام ہمارے دوست امیرجان حقانی کررہے ہیں۔
حقانی صاحب نے مشاہیر علماءگلگت بلتستان کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے، اس میں انہوں نے گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے فاضلین دارالعلوم دیوبند بالخصوص مولانا عزیز الرحمان ؒ، مولانا شعیب ؒ ، مولانا غلام رو¿ف ؒ، مولانا سید رسول ؒ، مولانا کثیر ؒ، مولانا محبوب شاہ ؒ، مولانا گلشیرؒ اور مولانا حبیب اللہ حفظ اللہ رعاہ کی سوانح عمریاں بڑی تگ و دو سے جمع کی ہیں ،مولانا نزیراللہ مرحوم سے ان کی حیات میں ہی ایک تفصیلی انٹرویو کیا ہے جوان کے پاس محفوظ ہے،سہ ماہی نصرة الاسلام کے انہی صفحات پرحقانی صاحب کی کتاب قسط وار شائع ہو رہی ہے۔اور مولانا ؒکی زندگی کے تمام پہلوں پر مشتمل یہ سلسلہ عنقریب قسط وار شائع ہوگا۔مجھے افسوس اس بات کا ہے کہ مولانا سے قریبی تعلق رکھنے والے احباب نے کبھی اس طرح توجہ ہی نہیں کی کہ ان کی زندگی میں ان کی زبانی ان کی حیات محفوظ رکھی جائے،یہ کام بھی ایک کم عمر طالب علم نے کیا جو یقینا لائق صد تحسین ہے۔اور اس بات کا بین ثبوت ہے کہ اکابرین دیوبند سے انہیں غیر معمولی محبت اور شغف ہے۔برادرم حقانی نے کراچی سے خپلو( بلتستان) تک گھوم گھوم کر فاضلین دیوبند کے حوالے سے معلومات اکٹھی کی ہیں۔ انہوں نے یہ کام ایک قومی و دینی قرض سمجھ کر کیا ہے ، اللہ انہیں اس دینی تحقیقی کام میں کامیابیوں سے نوازیں اوران کی مغفرت کا ذریعہ بنائے۔
مولانا مرحوم اپنے ہم عصر علماءمیں ممتاز مقام رکھتے تھے۔گلگت بلتستان میں ان کی ایک پہچان تھی، میںتفصیل میں جانے کی ضرورت محسوس نہیںکررہا ،چند اشعار کی صورت میں ان کو سلام تحسین پیش کر کے اجازت چاہونگا۔
وہ بزم اب کہاں، وہ طرب کا سماں کہاں
ساقی کہاں وہ جام مے ارغواں کہاں
ڈھونڈیں ہم اب نقوش سبک رفتگاں کہاں
اب گرد کارواں بھی نہیں کارواں کہاں