گوشہ اردو

یہ محسن کشی کیوں؟

میرزا محمد راہگیر 

وفاقی اُردوجامعہ کلیہ فنون عبدالحق کمپس کراچی میں انگریزی ادب کے مدرس فضیلت مآب ناصر خان صاحب مرحوم ؒ نے ایک نجی ملاقات میں ایک واقعہ بیان کیا ، مضمون کی حاجت کی خاطر نوکِ قلم کرنا چاہتا ہوں۔ واقع کچھ یوں ہے ، استادِ محترم ناصر خان مرحوم زمانۂ طالب علمی میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے امریکہ تشریف لے گئے اور امریکن جامعہ سے انگریزی ادب میں ماسٹر کیا۔ دورانِ سکونت ان کی اپنے ہم جماعتوں سے بھی شناسائی ہوئی۔ الوداعی تقریب میں ان کے ہم جماعتوں میں سے کچھ دوستوں نے پاکستان آنے کی خواہش کا اظہار کیا تو استادِ محترم نے اُنہیں خوش آمدید کہا اور اپنے ساتھ ہی پاکستان لے آئے ۔پاکستان کے بڑے بڑے شہروں میں سیر سپاٹے کے بعدسب لوگ گلگت بلتستان کی طرف رختِ سفر ہوئے۔ یہاں انہوں نے سکردو ،غذر اور ہنزہ نگر کی سیر کی اورجب وہ لوگ نلتر پہنچے تو گورے مہمان نلتر کے قدرتی حُسن میں کھو گئے، ایک انگریز لڑکی کہنے لگیں کہ نلتر سوئٹزر لینڈ سے سو فیصد زیادہ حسیں ہے۔ ناصر خان صاحب کہتے ہیں کہ مجھے فخر محسوس ہونے لگا اور مَیں دِل ہی دِ ل میں خود کواپنے قد سے بڑا محسوس کرنے لگا۔لیکن اگلے ہی لمحہ وہی لڑکی کہنے لگی کہ یار ناصرخان سوئٹزر لینڈ کے مقابلہ میں نلتر میں سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں تو استادِ موصوف نے فرمایا کہ مجھے ندامت سی محسوس ہوئی کہ ہماری حکومت ایسے خوبصورت علاقوں کی ترقی کے لیے کچھ بھی خرچ کرنے کے لیے کوئی مثبت سوچ نہیں رکھتی۔قارئین ! ہم نے جہاں اپنی اس حسین و جمیل وادی جسے سیاحوں نے بامِ دُنیا، سیاحوں کی جنت ،وادی شہداء اوربہت سارے القابات سے نوازا ہے ،اس کوسہولیات سے محروم رکھا ہے۔ وہیں ہم نے یہاں جنم لینے والے ہزاروں محمد رفیع،عمر شریف،علامہ اقبال ؒ اور بے شمار کاستین ہماری عدم توجعی اور ناقدری کی نذر ہوگئے۔

کسی بھی شے کی قدرو قیمت اس کی دستیابی اور عدم دستیابی سے طے ہوتی ہے، کچھ چیزیں مہنگی ہوتی ہیں اور کچھ ناپید و نایاب ہوتی ہیں ۔ جو چیزیں مہنگی ہوتی ہیں انہیں ہر قیمت پر انسان حاصل کر سکتا ہے،لیکن جو چیزیں ناپید ونایاب ہوتی ہیں ان کا حصول ہر خاص وعام کے لیے قدرے مشکل ہوتا ہے ۔ آج باالعموم پورے پاکستان میں اور باالخصوص گلگت بلتستان میں جو شے ناپید ونایاب ہے وہ مسکراہٹ ومسکان ہے۔ ہر بشر کسی نہ کسی اعتبار سے پریشانی کا شکار ہے، پیر و جواں ،مرد وزن غربا وامراء سب اضطرابی کیفیّت سے گزرنے پر مجبور ہیں ۔ غربائے وطن بڑھتی ہوئی مہنگائی اور صاحبِ حیثیّت لوگوں کے بڑھتے ہوئے مظالم جو کبھی سردار بن کے غریب کو ستاتا ہے کوئی پنچائت کا شکار ہے تو کہیں کوئی دخترِ خادمِ اعلیٰ کے ظلم کا شکار ہے۔ امراء وطن بھتے کی لعنت Target Killing اغواء برائے تاوان اور اس نوعیت کے دیگر مظالم نے ان کے چہروں سے مسکراہٹ ومسکان کو کوسوں دُورکر رکھا ہے۔مجموعی طور پر تمام افرادِ معاشرہ فرقہ واریت، بم دھماکوں ،لسانی فسادات اورعلاقائی عصبیت جیسے نہ ختم ہونے والی جنگ میں مبتلا ہیں ۔ان مسائل کے علاوہ بھی آج کا انسان مادیت پرستی کے بامِ عروج پر ہے،ہر گھر میں ماں باپ،دادا دادی یعنی بزگانِ خانہ کے ساتھ وقت گزارنے کی فرصت نہیں ۔ہر انسان اپنے شب وروز کا زیادہ حصہ موبائل، انٹرنیٹ ، کمپیوٹر، ملازمت اور مزدوری وغیرہ میں صرف کرتا ہے، ایک دوسرے سے گفت وشنید کی فرصت نہیں ہے۔ آج کل کی سرگرمیوں پر یہ مصرع راسخ آتا ہے:

’’آسائشات نے زیست کو مشکل بنا دِیا‘‘

مندرجہ بالا مسائل اور اسی قسم کے بے شمار دیگر مسائل نے آج کے انسان کو ہارٹ اٹیک، ہائی بلڈ پریشر ،ذہنی تناؤ،چڑچڑاپن اور ہٹ دھرمی جیسے موذی امراض میں مبتلا کر رکھا ہے۔ایسی صورتِ حال میں آپ ہی سوچیں کہ مسکرانے پر ہمیں کون مائل کر سکتا ہے؟ چند لمحوں کے لیے ہی سہی ان تمام مصائب ومشکلات کو بھلا سکتا ہے؟ کوئی ہے جو ہمارے مر جھائے ہوئے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیر سکے ؟اگر کوئی ایسا کر سکتا ہے تو اس کی قدرو قیمت کیا ہو گی؟ جی ہاں پوری دُنیا میں مسکراہٹیں بکھیرنے والوں کو قدرو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ انہیں ریاست وحکومت کی طرف سے ماہانہ وظائف ، ستائشی کلمات اوراعزازات واسناد سے نوازا جاتا ہے۔ مزید ان کے علاج معالجہ اور ان کے بچوں کی صحت وتعلیم کے لیے حکومت وظائف مقرر کرتی ہے۔ حیف صد حیف ہم نے کئی صدیوں سے محسن کُشی کو اپنا شعار بنا رکھا ہے۔ ہم نے یعنی گلگت بلتستان کی حکومت نے اپنے جنگِ آزادی کے ہیروز کو اپنی نصابی کتب سے بھی حذف کر رکھا ہے۔ ہم اپنے بچوں کو دُنیا جہاں کی تاریخ پڑھاتے ہیں مگر اپنے آباؤ اجداد کی تاریخ سے بے خبر رکھتے ہیں ۔جیسے ہم نے اپنی تاریخ کو نظرانداز کر رکھا ہے بالکل اسی طرح اس جنتِ نظیر وادی کے شعراء و فنکاروں اور ادیبوں کو فراموش کر دیا ہے۔

یکم نومبر ۲۰۱۲ ؁ء کو انٹر کالج گوپس میں یومِ آزادی گلگت بلتستان کے حوالے سے منعقدہ نشست میں غذر کلچر اینڈ آرٹس کونسل کے مزاح نگار حسین مدد شاہ المعروف حسین جانی ؔ نے تمام متاثرینِ مہنگائی ،دہشتگردی اور فرقہ واریت کے خوف تلے یومِ آزادی منانے والے گلگت بلتستان کے مضطرب زدہ عوام کونہ صرف مسکرانے پربلکہ قہقہے لگانے پر مجبور کر دیا۔کیا عوامی حکومت کایہ فریضہ نہیں کہ ایسے قومی تہواروں کے انعقاد میں مالی معاونت اور حکومتی سرپرستی شامل ہو؟ مزید ہر تہوار کو ثقافتی رنگ وبو سے معطر و مزیّن کرے اور ایسے فنکاروں، ادیبوں اور شعراء کو مالی معاونت کے ساتھ ستائشی کلمات،اعزازت اور اسناد سے نوازے تاکہ ملک میں موجود خوف وپریشانی کی فضا کو امن وآشتی باہمی یگانگت اتفاق و اتحاد ،قومی غیرت اورمسکراہٹ ومسکان میں بدل دے۔

بصورتِ دیگر ہم اپنے بنکر نما آشیانوں میں قیدو بند کی سی صورت میں اپنے شب وروز ایام حراست کی طرح گزارنے پر مجبور ہوں گے۔ معاشرہ معیاری کتب ،مثبت تفریح اور سماعتوں میں رس گھولنے والی شاعری سے خالی ہوجائے گااورافرادِ معاشرہ ذہنی گھٹن کو کم کرنے کے واسطے منفی سرگرمیوں کا سہارہ لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔قارئینِ کرام صاحبانِ ادراک یہ محسوس کر سکتے ہیں کہ آج ہمارے معاشرے کی آدھی سے زیاد ہ آبادی نشہ کی لعنت میں مبتلا ہو گئی ہے۔ ہارٹ اٹیک، ذہنی تناؤاور چڑچڑاپن جیسے موذی امراض نے ہر گھر میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ان مصائب اور مشکلات کا بہترین حل سماجی تنظیمات،ریاستی ادارےNGOs اور منتخب عوامی نمائندے اس خطے میں حسین مدد شاہ المعروف حسین جانیؔ ،عبدالحکیم تحصیلدار(ریٹائرڈ)،عبدالکریم کریمی صاحب ،صابر صاحب ،محمد جان جانوؔ ،سلمان پارسؔ ،اخترحسین راجہؔ اور نصرت علی فاتح صاحب جیسی شخصیات کو ایسے مواقع میّسرکیے جائیں تاکہ وہ اپنی خدا داد صلاحیتوں کا مظاہرہ کر کے تمام مکاتبِ فکرکو شیروشکر ہونے کے مواقع فراہم کرسکیں۔

یاد رہے کہ عوامی حکومت کے قیام میں شاعروں ،فنکاروں،ادیبوں، مزاح نگاروں اور ڈرامہ نگاروں کا کلیدی کردار رہا ہے ،ہمیشہ سے شعراء اور ادیبوں نے آمروں کے خلاف عَلَمِ بغاوت بلند کیا ہے،قید وبند کی صعوبتیں سہی ہیں۔ موجودہ منتخب حکومت سے شاعروں،فنکاروں، ڈرامہ نگاروں اور مزاح نگاروں کے بہت سارے اُمیدیں وابستہ ہیں،مگر افسوس کہ یہ خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہوا۔اربابِ اقتدار سے اپیل ہے کہ محسن کشی کی عادت کو جاتے جاتے خیر باد کہہ دیں اور ان کے لیے مراعات کا اعلان کر کے محبانِ محسن ہونے کا ثبوت دیں۔

Related Articles

One Comment

Back to top button