گوشہ اردو
ہمارے ادبی اُفق پر ایک نیا روشن ستارہ
تحریر: پروفیسر حشمت علی کمال الہامی، سکردو
یہ کئی سال پہلے کی بات ہے۔ ایک دن فون کی گھنٹی بجی۔ ریسور اُٹھاکر جب راقم نے نامعلوم فون کرنے والے کو خطاب سے قبل السلام علیکم کہا تو جواباً نہایت ہی میٹھی آواز میں وعلیکم السلام کے ساتھ ہی حد درجہ دھیمے لہجے میں فون کرنے والے دوست نے اپنا مختصر تعاف کیا۔ جیسے ہی کالر دوست نے کہا کہ ”میں غذر سے عبدالکریم کریمی عرض کر رہا ہوں۔“ میں نے فوراً سوال کیا۔ ”کیا آپ وہی عبدالکریم کریمی ہیں جو ”بادِ شمال“ میں ”فکرونظر“ کے عنوان سے مضمون لکھا کرتے ہیں۔“ اُنہوں کِھلکھلاتے ہوئے خوشگوار حیرت کے ساتھ میری تائید میں کہا۔ ”جی ہاں! میں وہی عبدالکریم کریمی ہوں۔“ میں نے ان سے پوچھا۔ ”فرمائیے کیا حکم ہے؟“ انہوں نے کہا ”جناب عالی! حکم نہیں درخواست اور گزارش ہے۔“ میں نے کہا ”جی فرمائیے!“ انہوں نے مدعا بیان کرتے ہوئے کہا کہ ”اس وقت موضوعِ بحث نثر نہیں نظم ہے۔ میں نے گزشتہ چند سالوں میں جو شاعری کی ہے، جس کا محرک بلتستان کی سرزمین ہے۔ اس کے چیدہ چیدہ کلام کو ترتیب دے کر کمپوز کروایا ہے۔ آپ سے نظر ثانی کروانا اور اِظہارِ نظر لکھوانا مقصود ہے۔“ میں نے کہا ”بہ سرو چشم!“ ایک ہفتہ بعد کمپوز شدہ مسودہ پہنچا۔ میں نے نظر ثانی بھی کی اور اِظہارِ نظر بھی لکھا۔ چند ماہ بعد یہ کتاب ”شاید پھر نہ ملیں ہم“ کے عنوان سے نہایت خوبصورت طباعت و اشاعت کے ساتھ منظر عام پر آئی۔ ایک سال بعد کریمی صاحب نے اپنے کالموں کا مجموعہ بنام ”فکرونظر“ بہت شاندار انداز میں چھپواکر ادبی دُنیا میں لائے۔ جس میں ”خوشبو کو تعارف کی ضرورت نہیں ہوتی“ کے عنوان پر راقم کو بھی تعارف کے اعزاز سے نوازا ہے۔
کریمی صاحب حلیم الطبع، متوازن فکر کے مالک، خندہ رو، شگفتہ مزاج اور خوش اخلاق انسان ہیں۔ ادب ان کا اوڑھنا بچھونا ہے، شاعری ان کی فطرت ہے، کالم نگاری ان کا مشغلہ ہے، اصحابِ قلم اور اربابِ شعرو ادب سے رابطہ و تعلق ان کا شیوہ¿ زندگی ہے۔ وہ محبت کے لیے جیتے ہیں اور محبت کرنے والوں پر مرتے ہیں۔ اسلام کی اصل روح امن و سکون ہے۔ کریمی صاح اس لیے ہمہ وقت قیام امن کی باتیں کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی معاشرے کی اصلاح احوال کے لئے وقف کر رکھی ہے۔ وہ قلم کے مجاہد ہیں، قلم کے جہاد سے کبھی کوتاہی نہیں کرتے۔
کریمی صاحب نے قلمی جہاد کے دائرے کو وسیع کرنے کے لیے پچھلے سال ضلع غذر میں ”کاروانِ فکرو ادب“ قائم کرکے گلگت بلتستان کی دیگر انجمنوں کو مزید تقویت دی۔ سالِ گزشہ انہوں نے ٹیلی فون پر یہ نوید سنائی کہ وہ گلگت بلتستان کے ادبی منظرنامے پر ایک سہ ماہی ادبی رسالے کا اضافہ کرنا چاہتے ہیں۔ اس رسالے کا نام بھی انہوں نے ”فکرونظر“ رکھا تھا۔ کریمی صاحب نے راقم کو بتایا کہ گلگت بلتستان کے تمام معتبر اہلِ قلم سے رابطہ کیا گیا ہے۔ مجھے انہوں نے گلگت بلتستان کی ادبی تنظیموں کا سرسری جائزہ لینے کے لیے کہا تھا۔ راقم نے مضمون تیار کیا تھا لیکن ناگزیر وجوہات کی بنا پر وہ مضمون بروقت کریمی صاحب کے پاس نہ پہنچ سکا اور رسالہ شائع ہوگیا۔ ایک ہفتہ قبل کی بات ہے کہ پھر کریمی صاحب کی میٹھی آواز نے راقم کے موبائل پر ہوائی لہروں کی دھنک دی۔ موبائل کا دریچہ کھول کر جب قوتِ سماعت کی آنکھ نے جھانکا تو معلوم ہوا کہ وہ مجھے خوشخبری دے رہے تھے۔ کریمی صاحب فرما رہے تھے کہ پچاس کاپیاں آپ کے نام ارسال کر رہا ہوں۔ ایک کاپی آپ رکھیں ایک کاپی حسرت صاحب کو عنایت کریں باقی کاپیاں سودے بک ڈپو میں علی عباس صاحب کے پاس رکھیں۔ اگلے دن جب راقم ”کے۔ ٹو ہمالیہ“ کے دفتر گیا تو ڈاک پہنچی ہوئی تھی۔ بشارت ساقی اور محمد عباس کھر گرونگ میرے ساتھ تھے۔ میں نے جب رسالے علی عباس کے حوالے کیے تو ساقی صاحب نے کہا کہ اس کا پہلا خریدار میں بنوں گا۔ چنانچہ پہلی کاپی ساقی صاحب نے خریدی۔ اپنی کاپی لے کر راقم گھر پہنچا اور مطالعہ کیا۔
یہ نہایت خوش آئند بات ہے کہ گلگت اور بلتستان میں عرصے سے ادبی تنظیمیں قائم تھیں، ادبی رسالے چھپ رہے تھے اور مشاعروں کی محفلیں جاری و ساری تھیں۔ پھر ہنزہ، نگر اور دیامر میں یہ سلسلہ قائم ہوا۔ اب گزشہ سال دوست محترم عبدالکریم کریمی کی کاوشوں سے غذر میں پہلی ادبی تنظیم قائم ہوئی اور اب یہ پہلا ادبی رسالہ سہ ماہی ”فکرونظر“ نہایت آب و تاب سے شائع ہوا ہے۔ ۸۴ صفحات پر مشتمل فل مجلہ سائز کا یہ رسالہ وادی غذر کی طرف سے گلگت بلتستان کے علمی و ادبی حلقوں کے لیے ایک تازہ تر تحفہ ہے۔ سرورق پر شیخ سعدیؒ کا یہ مشہور شعر مرقوم ہے
برگِ درختان سبز در نظرِ ہوشیار
ہر ورقِ دفتر است معرفت کردگار
سہ ماہی ”فکرونظر“ کا یہ پہلا شمارہ ہے جو اکتوبر، نومبر اور دسمبر ۰۱۰۲ئ کا ہے۔ اداریے کا عنوان ہے ”فکرونظر سے فکرونظر تک“ جس میں چیف ایڈیٹر عبدالکریم کریمی نے ہفتہ وار فکرونظر سے یومیہ فکرونظر تک اور وہاں سے اوّلین ادبی و صحافتی رسالہ فکرونظر تک دس برس کی کہانی رقم کی ہے۔ اگلا مضمون رانی شگفتہ شہزادی کا ہے جس میں انہوں نے ہزہائینس پرنس کریم آغا خان کی ۰۶۹۱ئ میں شمال کی سرزمین میں اوّلین آمد مبارکہ اور یہاں کی ترقی میں ان کے کردار کو بیان کیا ہے۔
رسالے کے تیسرے مضمون کو بھی عبدالکریم کریمی نے تحریر کیا ہے جس کا عنوان ”بدلتی دُنیا اور ادب“ ہے۔ اس مضمون میں کریمی صاحب نے اس حقیقت کو بیان کیا ہے کہ جس دور میں ہم زندگی گزار رہے ہیں یہ اکیسویں صدی، جدید تر دور، سائنسی زمانہ اور گلوبل ویلیج کا عصر ہے۔ ادیبوں کو چاہئے کہ وہ زمانے کے تقاضوں اور ضرورتوں کو سمجھیں اور بدلتی ہوئی دُنیا کے شانہ بشانہ ادبی سفر کرنے، ادب برائے زندگی کے فلسفے پر غور کرنے اور فکری انقلاب برپا کرنے میں اہم کردار ادا کریں۔ چوتھا مضمون گلگت بلتستان کے نامور محقق محمد حسن حسرت کا ہے۔ ان کے مقالے کی پہلی قسط شائع کی گئی ہے۔ عنوان ہے ” بلتستان کے ادب و شاعری پر ایک طائرانہ نظر“ اس مقالے میں حسرت صاحب نے بلتی زبان کے آغاز، اس کے ارتقا، اس کی شاخوں، اس کی ساخت، بلتستان میں شعرو ادب کے فی زمانہ ارتقائ، نثر نگاروں اور شاعروں کے فکرو فن پر روشنی ڈالی ہے۔ یہ مقالہ حال و مستقبل کے محققین کے لیے بنیادی مواد فراہم کرتا ہے۔ گویا یہ ایک حوالہ جاتی مقالہ ہے۔ اگلا مضمون حلقہ اربابِ ذوق گلگت کے جنرل سکریٹری اور ممتاز کالم نگار جمشید خان دُکھی کا تحریر کردہ ہے۔ اس کا عنوان ہے ”شمالی علاقہ جات مشاورتی کونسل سے گلگت بلتستان اسمبلی تک“ دُکھی صاحب نے اس مضمون کو بڑی محنت اور عرق ریزی سے مرتب کیا ہے۔ گلگت بلتستان کی سیاسی تاریخ کا مطالعہ کرنے والے طلبا اور یہاں کی سیاست پر ریسرچ کرنے والے سکالرز کے لئے یہ تحقیقی مضمون بھرپور مواد فراہم کرتا ہے۔ ”فکرونظر“ کا چھٹا مضمون گلگت بلتستان کے معتبر و مستند دانشور و محقق اور گلگت میونسپل لائبریری کے خوش فکرو خوش مزاج لائبریرین جناب شیر باز علی برچہ کا اثر خامہ ہے۔ اس تحقیقی مضمون کا موضوع ہے ”گلگت بلتستان میں صحافت کا آغاز و ارتقائ“ یہ مضمون گلگت بلتستان کی صحافتی تاریخ کا مطالعہ کرنے والے شوقین اہلِ فکرو صاحبانِ قلم کے لیے بہت مفید ہے جبکہ اس موضوع پر تحقیقی مقالہ لکھنے والے محققین کی بہت ساری ضروریات کو پورا کرتا ہے۔
باقی مضامین کے عنوانات اور اہلِ قلم کے ناموں کی فہرست کچھ یوں ہے۔ انقلاب آزادی گلگت کا پس منظر (پروفیسر عثمان علی)، آزادی سے قبل گلگت کے سماجی حالت (عبدالسلام ناز)، تاریخ اور ثقافت پر تحقیق کے لئے چند تجاویز (عبد اللہ جان ہنزائی)، گلگت سے اڈیالہ تک ( امین ضیا)، لوک کہانی۔ راجہ ترا خان (احمد سلیم سلیمی)، افسانہ بعنوان گل متی (روبینہ قزلباش)۔
ان مضامین کے بعد ”خط آپ کا جواب ہمارا“ کے عنوان سے ادارے کی طرف سے خطوط اور ان کے جوابات دئیے گئے ہیں۔ محمد حسن حسرت، پروفیسر عثمان علی، عبداللہ جان ہنزائی، جمشید دُکھی اور سہیل صابر کے خطوط اور ان کے جوابات شامل اشاعت ہیں۔
اس شمارے میں ”سخنور ہمارے“ کے عنوان پر ”فکرونظر“ کی طرحی محفل مشاعرہ سجائی گئی ہے۔ اس طرحی محفل کے لیے علامہ اقبالؒ کے قریبی دوست، فارسی اور اُردُو کے نامور شاعر عبدالمجید سالک کا یہ مشہور مصرع طرح دیا گیا ہے۔ ”چمن میں آئے گی فصلِ بہاراں ہم نہیں ہوں گے“ اس طرح پر جن شاعروں کے کلام اس میں شامل ہیں ان شعرائے کرام کے اسماءگرامی یہ ہیں۔ عبدالکریم کریمی، عبدالخالق تاج، جمشید دُکھی، پروفیسر کمال الہامی، سید رشید الدین سنان، میر اسلم حسین سحر، غلام حسن حسنی اور ذیشان مہدی۔ اس طرحی محفل مشاعرہ کے علاوہ ”آپ کی پسند“ کے عنوان پر عنایت اللہ شمالی، جمشید دُکھی، امین ضیا، کریم کریمی، محمد ظہیر سحر، عبدالحفیظ شاکر، ظفر وقار تاج، احسان شاہ، آصف نواز، احسان علی دانش، اشتیاق احمد یاد، اسماعیل ناشاد، خالد حسین اُداس، غلام حسین رنجیدہ اور محسن کی فرمائش پر ان کے انتخاب بھی شامل اشاعت ہیں۔
ایک صفحے پر ”فکرونظر لائبریری“ کے عنوان سے تین کتابوں کے مختصر تبصرے اور تعارف پیش کیے گیے ہیں۔ ہر کتاب کے تبصرے کے سامنے ان کے سرورق کی تصویریں بھی دی گئی ہیں۔ تبصرے میں شامل کتابوں کے نام یہ ہیں۔ عبدالسلام ناز کی کتاب ”گلگت“۔ پروفیسر کمال الہامی کی کتاب ”کمالاتِ الہامی“ اور محمد جان کی کتاب ”وادی اشکومن“۔ تعارف کُتب کے بعد گلگت بلتستان کے نامور مزاح نگار عبدالخالق تاج کا تحریر کردہ طنزیہ و مزاحیہ مضمون ”دُکھتی رگ“ زیب قرطاس ہے جس نے دُکھتی رگ پر خوب نشتر کا کام انجام دیا ہے۔ فرحت عباس شاہ، اسرار اشفاق، امجد اسلام امجد اور پروین شاکر کے کلام کے نمونے بھی نذر قارئین ہیں۔ رسالے کا آخری مضمون تیمور شاہ پونیالی کا رقم کردہ ”پونیال کے لوک گیت“ ہے۔
طلبا، اساتذہ، اہلِ قلم، محققین اور کالم نگاروں بالخصوص اردو زبان و ادب میں مہارتیں پیدا کرنے کے خواہش مند احباب کے لیے اس کا مطالعہ ازحد ضروری ہے۔ غذر، گلگت، چلاس، استور اور سکردو کے معتبر کتاب فروشوں سے یہ رسالہ دستیاب ہے۔
راقم گلگت بلتستان کے تمام اصحابِ فکرونظر اور اربابِ قرطاس و قلم کی طرف سے اس خوبصورت صحافتی، علمی اور ادبی رسالے کے اجراءپر اس کے چیف ایڈیٹر جناب عبدالکریم کریمی کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کے بارگاہ میں دُعاگو ہوں کہ وہ کریمی صاحب کو اپنے نیک مقاصد میں کامیاب کرے اور سہ ماہی رسالہ ”فکرونظر“ کو ہمیشہ جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
ہے ادب اور شاعری کا یہ سفر
دے مسافر کو خدا ”فکرونظر“
Pro. Kamal Ilhami Gilgit Baltistan ki Elmi o Adbi Dunia ka aik azeem sermaya hain.
nice article of pro. hashmat sb