روز نو …. عزم نو
انسانی تہذیب کی تاریخ بہت زیادہ قدیم نہیں ہے. ماہرین اور تحقیق کے مطابق ابھی انسانوں کو “مہذب” ہوے چند ہزار سال گزرے ہیں. انسانوں کی ارتقاء سے پہلے کی تاریخ البتہ بہت قدیم ہے. کہا جاتا ہے کہ سیارہ زمین پر زندگی حشرات اور نباتات کی صورت میں کروڑوں سالوں سے موجود تھی.
سائینسی نظریہ ارتقاء کے مطابق مختلف ادوار سے گزرتے ہوے جب زندگی “آدم” اور”حوا” تک پہنچی تو “انسانی تہذیب” کا جنم ہوا.ماہرین کے مطابق اس دور کے انسانوں کا مطمع نظر صرف زندہ رہنا تھا. زندگی کی اس دوڑ اور کشمکش میں خوراک کا حصول، طاقتور جانوروں اور قدرتی عناصر سے خود کو محفوظ رکھنا اس دور کے انسان کے لیے انتہائی اہم تھا. آگ پر قابو پانے کے بعد انسان خود کو سردی سے محفوظ رکھنے کے قابل بنا اور کچا گوشت کھانےپر بھی مجبور نہیں رہا.
خوراک اور تحفظ کے حصول کے لیے غاروں میں پناہ لینے،شکار میں مہارت حاصل کرنے اور آگ پر قابو پانے کے عمل میں قرون اولی کے انسانوں نے سینکڑوں یاشاید ہزاروں سال لگا دئیے ہونگے.
اس دوران زندگی انتہائی سخت تھی. ڈارون کا نظریہ “طاقتور ترین کی بقاء”شاید اس دور کے لیے سب سے زیادہ relevant تھا. آج تو انتہائی کمزور اور بیمار افراد کو بھی کئی سالوں تک دوائیوں اور علاج کے سہارے زندہ رکھا جاسکتا ہے. اس دور میں البتہ یہ ممکن نہیں تھا.
خوراک کے حصول کے لیے شکار کھیلنے والے انسانوں کی زندگی سب سے زیادہ پرخطر تھی. انہتائی بنیادی نوعیت کے ہتهیار رکھنے والے شکاری زیادہ تر خود ہی شکار بنتے تھے. لیکن اس خطرناک صورتحال میں شکار کیے بغیر بھی گزارہ ممکن نہیں تھا. بھوک کو برداشت کرنا کبھی بھی انسان کے اختیار میں نہیں رہا ہے.
متبادل اور نسبتا محفوظ ذرائع کی تلاش میں انسان ہمیشہ مگن رہا. تجسس سے بھر پور اس دور کے انسان کو شاید متبادل کے اسی تلاش کے دوران خیال آیا کہ گوشت کے علاوہ بھی نعمتیں موجود ہیں. جڑی بوٹیوں اور دوسرے نباتات پر تجربات کرتے کرتے آخر کار انسانوں نے متبادل بھی دریافت کر لیا. اللہ جانے کتنے لوگ زہریلے پتے کھا نے کی وجہ سے موت کا شکار ہو گئے ہونگے؟ کیونکہ نہ تو اس دور کے انسان کو نباتات کے زائقے کا تجربہ تھا، نہ ہی انکو مہلک اور مفید، کڑوے اور شیرین پھلوں سے واقفیت تھی.
بہرحال، نباتات اور پودوں کی افادیت سے انسان بالاخر آشنآ ہو ہی گیا. لیکن ایک بنیادی مسلہ ابھی باقی تھا. خود رو نباتات کا حصول اتنا آسان نہیں تھا. جنگلوں میں مارے مارے پھرنا پڑتا تھا. خطرات اور تکالیف سے گزرنا پڑتا تھا. اس دوران انسان کو خیال آیا کہ نباتات کو اگایا جائے. تاکہ تلاش کی تکلیف سے خود کو بچایا جا سکے.
اس دوران کاشتکاری کے عمل کا آغاز ہوا. اس عمل میں ہزاروں سال لگے اور زراعت کو بہتر بنانے کا عمل آج بھی جاری ہے. ماہرین نئے طریقے ایجاد کر کے انسانی معاشروں کو خودکفیل کرنے کی تگ و دو میں آج بھی مصروف ہیں.
کاشتکاری کا بنیادی عمل سیکھنے کے علاوہ اس دور کے انسانوں نے بتدریج غیر خونخوار جانوروں کو تابع کرنے پر بھی عبور حاصل کر لیا .
اسطرح سے انسانوں نے غاروں سے نکل کر بستیوں کا رخ کرلیا. بستیوں میں آباد ہونے کے بعد انسانوں کی طرز معاشرت میں کافی تبدیلی آئی. حصول خوراک کے مسائل حل کرنے اور زندگیوں کو نسبتا محفوظ کرنےکے بعد انسان نے فنون حرب و ضرب، آباد کاری، علم اور ثقافت و سیاحت پر توجہ دینا شروع کر دیا.
مختلف روایتیں وجود میں آئیں. ثقافت کی ترویج کا عمل شروع ہوا. میل ملاپ اور تجارت کا آغاز ہوا. اور نستبا خودکفیل اور محفوظ معاشروں نے زندگی کواجتماعی طور پر celebrate کرنا شروع کردیا. اس celebration میں زراعت سے متعلقہ معاملات کو بہت اہمیت دی جاتی تھی. کیونکہ زراعت ہی کی بدولت انسان ایک نسبتا آرام دہ زندگی گزارنے کے قابل ہواتھا.
بسا اوقات یہ celebrations شکرانے کے طور پر بھی ادا کئے جاتے تھے. اس دوران مختلف ناموں سے پکارے جانے والے طاقتور خداؤں کو خوش کرنے کے لیے مختلف رسوم بھی ادا کئے جاتے تھے. غالبا اسی وجہ سے زرعی میلوں سے تقدیس اور تبرکات کا ایک مضبوط نظریہ بھی وابستہ ہے.
وافر مقدار میں خوراک کی موجودگی میں انسانی آبادی بڑھںے لگا. اس دوران چھوٹی بستیاں پھیل کر بڑی بستیوں میں اور اور پھر شہروں میں بدل گیے. حکومتیں قائم ہوئیں.وسائل اور طاقت کے حصول میں جنگیں لڑی گئیں. بستیوں اور شہروں کو فتح کرنے کا عمل شروع ہوا. ریاستوں کا قیام عمل آیا.
قدیم دور کی ایک انتہائی مضبوط ریاست کا نام فارس (Persia) تھا. اہل فارس (موجودہ ایران) بھی دنیا بھر کے دوسرے انسانوں کی طرح بتدریج فن زراعت میں خود کفیل ہو چکے تھے. موسم بہار کی ابتدا ، جب ان علاقوں میں زراعت کے عمل کا آغاز ہوتا تھا، کو شایان شان طریقے سے اجتماعی سطح پر منایا جاتاتھا. اس دن جشن کا سماں ہوتا تھا. جاڑے اور خزاں کے بعد “زندگی کاآغاز” لوگوں کے لیے تازہ خوشخبری لاتا تھا. یعنی ایک ایسے وقت کا آغاز جب خوراک کی کمی ختم ہو جائیگی اور زمین میں رنگ برنگ کے پھول کھل کر خوبصورتی کا باعث بنیں گے.
اس دن کو اہل فارس “نوروز”، یعنی نیا دن کہتے تھے. اہل فارس اس دن سے نیے سال کا آغاز کرتے تھے. جدید کیلنڈر کے مطابق یہ دن اکیس مارچ کو منایا جاتا ہے.
یہ رسم قدیم آج بھی منایا جاتا ہے. طریقے بدل گئے ہیں لیکن فلسفہ وہی ہے. وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں نے اس رسم میں مذہبی خیالات بھی شامل کیے ہیں.
آج نوروز ہے اور دنیا بھر میں ارض فارس سے بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر وابستہ افراد جشن نوروز منا رہے ہیں. مبارکبادی کے پیغامات بھیجے جا رہے ہیں.
زندگی کی کشمکش البتہ اسی طرح جاری ہے. آج بھی اربوں افراد خوراک کی کمی کاشکارہیں. بھوک اور افلاس کا دنیا کے بیشترممالک میں دور دورہ ہے. چند سو خاندان پوری دنیا کے وسائل پر قابض ہیں. تجارت، زراعت اور صنعت پر کچھ خاندانوں کا راج ہے.
آج بھی ترقی کے ہزاروں منازل طے کرنا باقی ہے. ابھی انسانیت ظلمتوں کے شکنجے میں ہے . ابھی حصول اورتکمیل جوہر انسانیت باقی ہے.
اس نوروز کواصل معنوں میں نیا دن بنانے کے لیے ہمیں ایک نیا عزم کرنے کی ضرورت ہے. ظلمت، جہالت اور ظلم کے خلاف عزم نو کر کے ہم نوروز کو واقعی نیا دن بنا سکتے ہیں.
امید یہی کی جاتی ہے کہ اہل فارس کی تقلید میں اپنے اپنے عقائد کے مطابق جشن نوروز مناتے ہوے ہم زمینی حقائق سے آگہی بھی حاصل کریں گے اور زمین کے اندھیرے سے بتدریج باہر آنے والے ایک پودے کی طرح ظلمتوں اور معاشرتی بدصورتی کے خلاف صف آراء ہونے کا عزم بھی کریں گے.
آپ سب کو اصل نوروز کی پیشگی مبارکبادی پیش کرتا ہوں.
source: www.noorpamiri.com
Nawroz Mubarak and I appreciate the piece of writing which rightly makes analysis of the event from different perspectives. I think the religious connotation is linked with Nawroz is because of the fact that 21st March used to be observed as a day of celebrations and religious events also took place in this important day and the celebrations were also made in this day. Example of Hazrat Ibrahim (a s) is clear about this notion as people were observing oukaz as a celebration when Ibrahim (a s) went into the temple and broken all the idols and left the biggest one un touched while placing the axe on the shoulder of that idol. Nevertheless, this needs to be investigated by research. Nawroz Mubarak .