گوشہ اردو

قومی سطح پر سِوِک سنس کا شدید فقدان اور اس کے مضمرات

ہماری قوم بھی عجیب ہے ۔اس کے نہ تو انفرادی رویّے ٹھیک ہیں اور نہ ہی اجتماعی رویّے درست سمت میں ہیں۔ بد قسمتی سے ہمارے لوگ اپنی ذات ، اپنے بچے، کنبے اور گھر کے علاوہ سوچتے ہی نہیں ہیں۔ خال خال ہی ایسے لوگ ہیں جو اپنے ارد گرد کے ماحول ، شہر اور ملک کی بہتری اور تعمیر و ترقی کا سوچتے ہیں۔ مہذب ، شائستہ اور تعلیم یافتہ قوموں میں سوک سنس بدرجہ اتم موجود ہے۔ حالانکہ ان میں اکثریت غیر مسلموں کی ہے ۔ ہمارے لوگ بلند و بانگ دعوﺅں میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے۔ مثلاً صفائی ایمان کا حصہ ہے ۔۔۔ دھرتی بھی ماں کی طرح ہوتی ہے۔۔۔ درخت لگانا صدقہ ءجاریہ ہے۔۔۔حرام کھانا گناہ ہے۔۔۔ فضول خرچی سے پر ہیز کرنا چاہئیے۔۔۔ پانی اور بجلی کا ضیاع گناہ ہے۔۔۔ اجتماعی مفاد کو ترجیح دینا چاہیئے۔۔۔ انسانی فلاح و بہبود کے کام کرنے چاہیئے۔ ۔۔ اپنے ارد گرد اور شہر کے ماحول کو صاف ستھرا رکھنا چاہیئے ۔۔ ۔ اپنی مدد آپ کا جذبہ اجاگر کرنا چاہیئے۔۔۔ اور ہمیں محب وطن ہونا چاہیئے وغیرہ وغیرہ. مگر کڑوا سچ یہ ہے کہ ان کھوکھلے نعروں کا عملی اظہار کہیں نظر نہیں آتا ۔ ہماری قوم خود غرضی ، نفسا نفسی اور مادیّت پسندی کی دلدل میں بری طرح پھنس چکی ہے ۔انفرادی مفاد کے علاوہ ہمارے لوگوں کو کچھ نہیں سوجھتا۔ اجتماعی مفاد کے تصور ہی کو بھول چکے ہیں۔

اگر ہم سوک سنس(Civic Sense)کی بات کرےں تو بہت سارے لوگ اس کے مفہوم سے ہی نا آشنا ہےں۔ تھوڑے بہت واقف ہےں بھی تو اس سینس کو عملی شکل دینے سے گریزاں ہیں ۔اگر ہم نمونے کے طور پر گلگت شہر کی مثال لیں تو صورتِ حال بالکل واضح ہو جاتی ہے۔گلگت شہر میں  لوگوں کی اکثریت حقوق اور فرائض کے سنہرے اصولوں کو پس پشت ڈال چکی ہے۔ ہمیں یاد  رکھنا چاہیے کہ حقوق اور فرائض کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ گلگت شہر کے تقرےباً 80فی صد لوگ انفرادی اور اجتماعی حقوق اور فرائض کی بجا آوری سے دور ہیں۔ ہاں البتہ کچھ لوگ حقوق کی بات زوروں سے تو کرتے ہیں مگر اس مسلّمہ اصول کے باوجود کہ حقوق و فرائض لازم و ملزوم ہیں فرائض سے بالکل غفلت برتنے ہیں ۔مثلاً لوگ کہتے ہےں کہ حکومت کی جانب سے پانی اور بجلی ہمارا حق ہے جو کہ سچ ہے لیکن اس حق کو مانگنے کے ساتھ ساتھ اس فرض کو بھی بھول جاتے ہےں کہ پانی اور بجلی کے استعمال میں فضول خرچی سے پرہیزکا جاۓ.

تحریر : اشتیاق احمد یاد

 اور بجلی کا بِل بغیر بے ایمانی کے وقت مقررہ پر ادا کیا جائے۔ اس کے علاوہ گلگت شہر کے لوگ سمجھتے ہیں  کہ حکومت اور بلدیہ کی جانب سے شہر کی صفائی ستھرائی ہمارا حق ہے اور یہ بھی سچ ہے۔ مگر اس حق کے ساتھ ساتھ اس فرض کو بالکل یاد نہیں  رکھتے کہ ہم اندھا دھند گندگی نہ پھیلائے اور کوڑا کرکٹ اور گندگی کو کسی باسکٹ یا گاربیج ڈرم میں ڈال دیں۔

شرم کی بات تو یہ ہے کہ ہمارے لوگ بلدیہ  اوراین جی اوز کی جانب سے لگائے جانے والے گاربیج ڈرمز کو چُرا لیتےہیں  یا  ان کے ساتھ انتہائی غیر مناسب رویہاختیار کرتے ہیں۔ شہر میں لگائے جانے والے پیوریفیکیشں پلانٹس کا حشر بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ اس معاملے میں گلگت شہر کے لوگ انتہائی بے حس، بے درد اور غیر محب وطن واقع ہوئے ہیں۔ یہاں کے لوگ گلگت شہر کی مٹی،یہاں کے فٹ پاتھ،سڑکوں، نالیوں،واٹر چینلز،پائپ لائینز،سٹریٹ لائٹس،گاربیج ڈرمز،بجلی کے نظام،پودے، درخت اور دیگر اشیاءو املاک کو حکومتی املاک سمجھ کر بالکل خیال(care) نہیں رکھتے ۔جسکی وجہ سے شہر کا آوے کا آوا  بگڑا ہوا ہے اور دن بدن شہر ترقی کی بجائے تنزّلی کی جانب بڑھ رہا ہے۔

یہ امر اظہر من الشمس ہے کہ مہذب قومیں شہر کی تمام املاک اور اشیاءکو اپنے گھر کے اشیاءاوراملاک کی طرح سمجھتی ہیں اور سوفی صد ان کا خیال کرتی ہیں۔ یعنی وہ ان تمام املاک کو بالکل own کرتی ہیں جیسے کہ گھروں کی چیزوں کو ہم own کرتے ہیں۔ جبھی تو ان قوموں کے ہاں شہر اور قصبے نہایت صاف ستھرے،صحت مند،ماحول دوست، ترقی یافتہ اور خوشحال ہیں مگر ہمارے ہاں الٹی گنگا بہتی ہے۔ مجھے حیرت ہوتی ہے لوگ زبانی کلامی بڑے بڑے دعوے تو کرتے ہیں یہاں تک کہا جاتا ہے کہ ہم وطن کے لیے جان دینے کے لئے تیار ہیں مگر صد افسوس کی وطن کی چیزوں اور املاک کا ان کو بالکل پرواہ ہی نہیں۔ان دعوﺅں سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا کیونکہ action speaks louder than words ۔

گلگت شہر میں سوک سینس کے فقدان کے قصور وار ہم سب ہیں۔ خاص طور سے اس میں سب سے زیادہ ذمہ دار والدین، اساتذہ، مذہبی رہنما، بلدیہ کے اہلکار وممبران ،سرکاری اہلکار اور این جی اوز ہیں جو اپنے فرائض خوش اسلوبی سے انجام نہیں دے رہے ہیں۔ ان تمام کی بنیادی ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنے زیرِاثر لوگوں میں زیادہ سے زیادہ سوِک سینس کو اجاگر کریں اور خود بھی عملی طور پر کردار ادا کریں۔

بلدیہ گلگت کا کام محض شہر سے گندگی صاف کرنا نہیں بلکہ لوگوں میں شعور وآگہی کے لئے سیمنارز، ورکشاپس، میٹنگز، واک، کوئز اور تقریری مقابلوں کا زیادہ سے زیادہ انعقاد کرنا بھی بلدیہ کی ذمہ داری ہے۔ اس ضمن میں گلگت شہر کے عوام کی ذمہ داری بھی بنتی ہے وہ خالصتاً میرٹ کی بنیاد پر بلدیہ کے نمائندے منتخب کرے۔ برادری، فرقے، سیاست اور پیسے کی بنیاد پر منتخب ہونے والے نمائندے کسی کام کے نہیں ہوتے۔

مہذب قوموں کا یہ بھی شیوا ہے کہ وہ شہر کی بہتری کے لئے ٹیکس ادا کرتی ہیں لہذا حکومت کو اس سلسلے میں کوئی لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا ۔ان تمام اقدامات سے ایک صاف ستھرے ،صحت مند، ماحول دوست ،ترقی یافتہ اور خوشحال شہر کا خواب شرمندئہ تعبیر ہو سکتا ہے۔

Related Articles

Back to top button