گوشہ اردو
“شیطان”، “ایجنسیز” اور “تیسرا ہاتھ “
محمدجان رحمت جان
انسان کی ہمیشہ یہ عادت رہی ہے کہ ہر بُرا کام کرنے کے بعد شیطان کے سر ڈال دیتا ہے۔ یقینا شیطان بھی ایک طاقت ہے جو انسان کو برائی پر اکساتا ہے لیکن ہم ہمیشہ شیطان کی زد میں کیوں آتے ہیں؟ اللہ تعالیٰ نے رحمٰن کو اور زیادہ طاقت ور پیداکیاہے لیکن ہم اُس کی طاقت سے فضیاب کیوں نہیں ہوتے ہیں۔ پہلے ہربرے کام پر کہتے تھے شیطان کی وجہ سے ہواہے اب ہر کام پر کہتے ہیں کہ ایجنسی نے کرایا ہے۔ سمجھ نہیں آتی کہ ہمیں عقل کس کام کےلئے دی گئی ہے۔ ہم جھوٹ بولے‘ کرپشن کریں‘ دھوکہ دیں‘ فراٹ کریں‘ کام چوری کریں یا قتل وغارت جلدی کہہ دیتے ہیں کہ یہ شیطانی اعمال ہیں ہم کیاکریں۔ ظاہر ہے انسانی دل میں جو گھر بسائے گا وہی بااثر ہوگا۔ جیسے اقبال فرماتے ہیں؛
ہنسی آتی ہے مجھ کو حضرت انسان پر
کاربد خود کرے لعنت بیجھے شیطان پر
معاشرتی برائیاں انسان ہی سے سرزد ہوتی ہے اگر ہماری توجہ برائیوں کی طرف نہ ہو توشیطان کیا کرے۔ کسی مجلس میں ایک طالب علم نے سوال پوچھاکہ” کیا شیطان مسلمانوں پر غالب آیاہے؟ کیونکہ ان سے کوئی خیر کا کام ہوتا نہیں؟“ دوسراسوال”کیا مغرب والوں نے شیطان پر غلبہ پایاکہ ایجادات اور امن وہاں ہے؟ اس طالب علم کو کیا جواب دیا جائے؟ آپ خود سوچئے۔آج کل ہم اپنی زندگی میں دیکھتے ہیں کہ مسلمان سے قبر بھی محفوظ نہ رہے۔ مرُدوں کے ساتھ(خواتین کے جنازے) بھی ہم نے قبریں کھود کر بد سلوکی کی اور وہ جوان بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ”شیطان نے ایسا کرایا میں کیا کرو؟“۔ چوری‘ ڈکیتی‘ قتل وغارت کے بعد مجرم یہی کہتے ہیں کہ شیطان نے کرایا۔ موجودہ زمانے میں ہم نے اور آگے بڑھ کر یہ کہنا شروع کردیاکہ ”شیطان کے ساتھ ایجنسی والے بھی تھے“۔ اب آپ سوچیں جہاں شیطان بھی ہو اور ایجنسی والے بھی وہاں ایک عام انسان کی کیاحیثیت ہوگی؟ بم دھماکہ ہو یا خودکُش حملے‘ کاروباری علاقوں میں توڑ پھوڑ ہویا جلاﺅ گیراﺅ۔ ایک ہی جواب آتاہے کہ اس میں ایجنسی کے لوگ ملوث ہیں۔ اب ہمارے پاس ایک اور استعارہ بھی ایاہے۔ شیطان‘ ایجنسی اور تیسرا ہاتھ۔ کوئی بھی واقعہ ہو کہو کہ تیسرا ہاتھ ملوث ہے۔ ’لوگ تیسرے‘ ہاتھ کی تلاش میں اپنے دوسرے ہاتھ سے بھی ہاتھ دھو لینگے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قانون نہ تو شیطان پر لاگو ہوسکتی ہے اور نہ ہی ایجنسی پر۔ ’تیسرا ہاتھ‘ توقانون سے بالاتر ہی رہتاہے کیونکہ ادھر دو ہاتھ والے محفوظ ہیں تو تین ہاتھ والوں کا کیا ہوسکتاہے۔
ہمارے ملک میں ان اصطلاحات کی اتنی اہمیت بڑھ گئی ہے اب گھر میں بھی کوئی ہلکی پھلکی لڑائی ہوجائے تو والدین فوراََ کہتے ہیں کہ ”ہمارے گھر میں تیسرا ہاتھ ملوث ہے“۔ لو جی اب کیا کریں۔ سکول میں رزلٹ صحیح نہ ہو یا ہسپتال میں علاج یہ تیسرا ہاتھ ہی ملوث رہتا ہے۔ ایک منٹ کے لئے ہم یہ سوچیں کہ ان تمام برائیوں کے پیچھے شیطان‘ ایجنسی اور تیسرا ہاتھ ہے توخود ان چیزوں کا وجود کہاںہے؟ ہم بحیثیت انسان ان تینوں کو قابوکرنے کےلئے کیا کرسکتے ہیں؟ ایک دفعہ ایک گھر میں گھریلو جھکڑا ہوا گھروالے ثالثوں کو لیکر آئے۔ تمام گھروالے حاضر ہوئے ہر ایک نے قرآن حدیث کی قسم کھاکر کہا کہ’ ہم نے نہیں کیا‘۔ثالثی میں مقامی مولوی‘ نمبردار اور سیاسی نمائندہ شامل تھے۔ مولوی صاحب نے کہاکہ اس میں شیطان ملوث ہے یہ تمام شیطانی حرکات نظر آتے ہیں۔ سیاسی نمائندے نے کہا کہ ’اس واقعے میں جن بھوت(ایجنسی) کا ہاتھ ہوسکتا ہے‘۔ آخر میں نمبردار بولے’ مجھے لگتاہے کہ اس واقعے میں تیسرا ہاتھ ملوث ہے‘۔ اس بحث کے بعد گھرکے مالک نے کہاکہ اس میں جن بھوت اور تیسراہاتھ ہی ملوث ہوسکتے ہیں؟ سب کے سب نے دن بھر بحث و مباحثے کے بعدتمام تر ذمہ داری انہی پر ڈال دیا اور کہاکہ’آپ تمام گھر والوں کی کوئی غلطی نہیں اس میں شیطانی ہاتھ ہے‘ لہذا آئندہ اس سے بچتے رہو۔ نہ گھر والوں نے اور نہ ہی مصالحت والوں نے انسانی غلطیوں کی بات کی۔ کیا کریں یہ ہماری نہیں ہماری تاریخ کی غلطی ہے جس کو ہم دھراتے رہتے ہیں۔ ان تمام مشکلات سے ہم اُس وقت باہر نکل سکتے ہیں جب ہم خود یہ اعتراف کریں کہ’ غلطی ہماری اپنی ہے‘۔ اللہ تعالی نے تمام گناہوں کی معافی کے لئے توبہ کا دروازہ اس لئے رکھا ہے کہ ہم سے جب بھی غلطی ہوجائے اس کا اعتراف کرکے آئندہ کےلئے توبہ کریں۔
انسان خطا کا پتلا ہے۔ انسان ہی سے غلطیاں اور گناہ سرزد ہوتے ہیں۔ انسان ہی سے برے کام ہوتے ہیں۔ اگرہم اپنی ایمان کو تازہ رکھیں اور اسلامی تعلیمات پر عمل کریں تو شیطان‘ ایجنسی اور تیسرے ہاتھ کی کیا کنجائش ہے کہ وہ ہمارے اعمال پر غالب آئے۔ انسان سے بے ایمانی اس وقت ہوتی ہے جب وہ تمام دینی اقدار ترک کردیتا ہے۔ وعدہ کرکے وفا نہیں کرتا۔ سچ بولنے کی کوشش نہیں کرتا۔ منافقت کی عادت ہم پر چھاگئی ہے۔ منافقت کی موجودگی میں کوئی بھی کام پائیہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتاہے۔ ہمارے علمائ‘ عمائدین اور قائدین ہمیشہ معاہدے کرتے رہتے ہیں اور اپنے گروہ کے پاس جاکر کچھ اور کہتے ہیں اب ان سے کیا خیر کی توقع رکھیں۔ ہم معاہدوں کی خبر سن کراطمینان پاتے تھے اب معاہدوں کی خبر میں بھی صداقت نہ رہی۔ امن پیسے سے قائم نہیں ہوسکتا۔ امن کے لئے خلوص اور ایمان کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے پارٹیوں کے ”طاقت ور بازو“ ہمیشہ اپنے مفاد کےلئے کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ پارٹیوں کو پیسے دیکر کب تک چب کرایا جاسکے گا۔ وہ تو مزید کمانے کی کوشش میں ہونگے۔ ہمارے ساتھ شیطان‘ ایجنسی والے اور تیسرا ہاتھ بھی ہو تو امن کی کیا جینے کی کنجائش باقی نہیں رہتی ہے۔
حالات کی بہتری کےلئے قربانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے لئے دین اسلام نے صبر و استقامت اور معافی کا طریقہ دکھایا ہے۔ اس لئے ہم اور قبل اسلام میں نمایاں فرق ہے ورنہ ’بدلہ لینا‘، قسمیں کھانااور منافقت قریش کی وراثت ہے۔ اسلام کی وراثت میں امن‘ صبرواستقامت‘ معافی‘ حلیمی اور برداشت ہے۔ گلگت بلتستان کی امن کےلئے ایک ہی راستہ ہے وہ یہ کہ بڑے اور کھلے دل اور ایمان کے ساتھ ایک دفعہ ایک دوسرے کو معاف کرکے امن معاہدوں کی تکمیل کی جائے۔ حکومت چند لوگوں کو مصالحت کے نام سے نوازنے کے بجائے اپنی رٹ قائم رکھیں۔ تمام گروہوں کے ساتھ مساوی اورمنصفانہ سلوک کریں تاکہ کسی ایک گروہ کو بہانہ نہ مل سکے۔ پیسے کسی مسئلے کا حل نہیں۔ گلگت بلتستان کا بجٹ ترقیاتی کاموں کی بجائے معاہدوں پر لگے تو باقی عوام کا کیا ہوگا؟ ایک خاص علاقے کی امن کے لئے پورے گلگت بلتستان کو متاثر کرنا کہاں کی دانائی ہے۔ دنیا میں اب گلگت بلتستان کا نقشہ وہ نہیں رہا جو کبھی تھا۔ اب جو بھی ملے کہتاہے کہ گلگت بلتستان میں امن نہیں ہے۔ حلانکہ یہ دو بڑے شہروں کا مسئلہ ہے پورے گلگت بلتستان کا نہیں۔ پورے علاقے کو اس مسئلے میں ملوث کرنا بہت خطرناک عمل ہوگا۔
وابستہ کریں کس سے ہم اپنی امیدیں
اس دور میں ہر شخص وفا بھول گیا ہے