گوشہ اردو

نوکر ۔۔۔۔۔۔وہ بھی دس

ہدایت اللہ آختر

ایڈمنسٹریٹر نارتھ لینڈ پبلک سکولز گلگت

قومی اخباروں کا مطالعہ کرنے والے قارئین اس خبر سے ضرور واقف ہونگے۔ دو ماہ پہلے پی آئی اے کی پرواز جو اسلام آباد سے کراچی جارہی تھی اس پرواز میں سابق مشیر اطلاعات شرمیلا فاروقی اور ایک پاکستانی نژاد امریکن میاں علی مرزہ کے درمیان بدکلامی اور مارپیٹ ہوئی تھی ۔ اس ہاتھا پائی کی رپورٹ علی مرزہ نے کراچی ائر پورٹ تھانے میں جمع کرادی تھی۔ شرمیلا فاروقی نے بھی اسی تھانے میں جوابی ایف آئی آر درج کرادی تھی جس میں انہوں نے علی مرزہ پر بد تمیزی کا الزام لگایا تھا تفصیل اس کی لمبی ہے جس کا ذکر یہاںمناسب نہیں یہاںپر اس خبر کا جواز اس لئے بنا یا ہے کہ گلگت بلتستان کے مقامی اخباروں میں شائع ہونے والی ایک خبر میں بھی مماثلت یہ ہے کہ وہاں بھی پیپلز پارٹی کی ایک رہنما کا مرزہ نامی شخص سے تلخ کلامی ہوئی تھی اور یہاں بھی پیپلز پارٹی کے ایک رہنما نے ایک مرزہ کولتا ڑا ہے۔

مقامی اخباروں میں جو خبریں چھپ جاتی ہیں بڑی دلچسپ اور حیران کن ہوتی ہیں جو ہمیں چھیڑتی ہیں یا ہم ان کو چھیڑنے کی کوشش کرتے ہیں ان خبروں کی اشاعت میں یا تو ہمارا قصور ہے کہ ہمیں ان کا مطلب سمجھنے میں دقت آرہی ہے یا ہمارے صحافتی لکھائی میںسقم ہے جو میک اپ کا متقاضی ہے تاکہ خد و خال بہتر نظر آئیں ایک بیان پڑھ کر یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ کسی صوبے کے سربراہ کا بیان ہو سکتا ہے زرداری کے متعلق کہا جاتا ہے کہ دنیا کا پانچوں امیر ترین آدمی ہے اس وقت پاکستان اور پاکستان کے باہر ناجائز دولت کمانے اور کرپشن کا الزام ہے سیاسی اختلافات کے باوجود ان کا سیاسی مخالفوں کے بارے کبھی نا زیبا بیان کسی اخبار کی زینت نہیں بنا ۔لیکن اس معمالے میں گلگت بلتستان کے وزیر اعلی نے اپنے باس کی پیروی کرنے کے بجائے مفاہمتی پالیسی کو بھول کر ایک ایسے بیان کو اخبار کی زینت بننے کا موقع بخشا ہے جو کسی بھی لحاظ سے اس کے مرتبے کے شایا نشان نہیں.

 اس سے پہلے بھی وزیر اعلی کے خیر خواہ اسے مفید مشوروں سے نوازتے رہے ہیں کہ گلگت بلتستان کے وزیر اعلی فضول چیزوں میں اپنی تونائی صرف کرنے کے بجائے گلگت بلتستان کی تعمیر و ترقی میں یکسوئی سے اپنا حصہ ادا کریں اس کے سامنے بڑے بڑے ایشوز ہیں اگر آئے روز لوگوں کی توجہ ادروں اور حکمرانون کی کرپشن سے ہٹانے کے لئے کوئی نہ کوئی نورا کشتی کاڈرامہ ہو تا رہا تو یہ کسی بھی لحاظ سے علاقے کے مفاد میں نہیں ۔ اب اس خبر کو دیکھیں اس میں صداقت کتنی ہے یہ تو رپورٹ کرنے والا ہی بتا سکتا ہے لیکن لازمی بات ہے اخبار مین چھپ چکی خبر ہے کچھ نہ کچھ تو صداقت ہوگی اس قسم کی خبریں جہاں دو آدمیوں کے درمیان اختلافات بڑھانے کا باعث بنتی ہیں تو دوسری طرف معاشرے میں اپنا ایک اثر بھی چھوڑتی ہیں اور عوام ان خبروں اور تبصروں سے ا پنے نمائندوں کے بارے رائے بھی قائم کرتے ہیں جو ان کے آئندہ سیاسی زندگی مین اثر انداز ہوتے ہیں ۔ اس خبر پر یقین ہی نہیں آرہا ہے کہ یہ کسی صوبے کے وزیر اعلی کا بیان ہو سکتا ہے ارے یہ کیا ؟

وزیر اعلی نے یہ کیا کہہ دیا ؟کہ مرزہ حسین جیسے دس افراد کو میں نوکر رکھ سکتا ہوں۔ بڑے لو گ بڑی باتیں سوچتے ہیں اور ملک و قوم کی رہنمائی کرتے ہیں لیکن جب ہم اپنے حکمرانوں کے بیانات اور کرتوت دیکھتے ہیں تو یہ اندازہ ہوتا ہے کہ بڑے لوگ اب اس دنیا سے نا پید ہو گئے ہیں بڑے لوگوں کا معیار بھی اب بدل گیا ہے اب تو جس کے پاس دولت ہو بنگلہ ہو گاڑی ہو اور اس پر سلطان راہی کی طرح بھڑک بھی ہو تو سونے پہ سہاگہ تصور کی جاتی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سیاسی نمائندوں کو سلطان راہی جیسے بھرکیلے بیان زیب نہیں دیتے اور وہ بھی ایک صوبے کے وزیر اعلی کو ۔ سیاسی اختلافات اپنی جگہ اگر ان کو ذاتی اختلاف بنایا جائے تو یہ کسی طرح بھی مناسب نہیں لگتا اب وزیر اعلی کے اس بیان سے کئی لوگ کئی مطلب نکال سکتے ہیں ایک طبقہ وہ ہو سکتا ہے جووزیر اعلی کا حامی ہو وہ تو اس بیان کی تعریف میں آسمان و زمین کی قلا بازیاں ملائے گا اور دوسرا طبقہ وہ ہو سکتا ہے جو مرزہ کا حامی ہو اسے وہ اپنے لیڈر کی توہین سمجھے اور ہو سکتا ہے کہ دوسری طرف سے اس سے بھی کوئی سخت بیان اس کی مخالفت میں اخباروں کے صفحے کالے کر دے ےاکچھ لوگ یہ کہینگے کہ کتنا تکبر ہے اس وزیر اعلی میں اللہ کی دی ہوئی دولت پر کتنا غرور ہے اس کو دولت کا نشہ چڑھ گیا ہے کسی کو کاخاطر میں لاتا ہی نہیں غرض جتنے منہ اتنی باتیں دیکھا جائے تو ہر حالت میں اس کا نقصان وزیر اعلی ہی کا لگتا ہے.

 گلگت بلتستان کے وزیر اعلی آج کل اختلافات کی لپیٹ میں ہیں آئی جی پی کے معمالے میں وزیر قانون کے ساتھ اختلافات محسن انڈسٹری کے حوالے سے وزیر خزانہ اور کابینہ کے ساتھ ساتھ عوام کی ایک کثیر تعداد کی مخالفت کا سامنا ، منطور بگورو سے اختلافات کی خبریں بھی گرم ہیں۔ ایسی خبریں ایک منتخب وزیر اعلی کے لئے کسی طرح بھی سود مند نہیں ۔ سیاست میں اختلافات ہو ہی جاتے ہین لیکن اگر ان اختلافات کو زاتی بنالیا جائے تو اس سے بہت ساری قباحتیں پیدا ہونے کا اندیشہ ہے اور ان قباحتوں میں ایک قباحت علاقائی سوچ کا پروان چڑھنا بھی ہے جو کسی بھی لحاظ سے گلگت بلتستان کے اس نوزائیدہ سوبے کے لئے فائدہ مند نہیں ہو سکتی یہاں کے عوام پہلے ہی فر قہ واریت کے کینسر میں مبتلا ہیں ۔کہیں کہیں سے اس قسم کی بھی خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں کہ مہدی شاہ صرف بلتستان کے وزیر اعلی نہیں اسے خیال رکھنا چاہئے کہ وہ دیگر اضلاع کے بھی وزیر اعلی ہیں ویسے بھی ہمارے سیاسی لیڈروں کو بڑی احتیاط برتنے کی ضرورت ہے کیونکہ ہم سب مسلمان ہیں اور ایسے بیان بازی سے اجتناب کرنا چاہئے جو کسی کی دل آزاری کا باعث بنتے ہوں اور جو اسلامی اصولوں کے خلاف ہوں ایسا بیان اسلامی نقطہ نگاہ سے بھی معیوب سمجھا جاتا ہے کیونکہ ہمارے آخری نبی حضرت محمد ﷺ نے تو غلامی کی رسم کو تورتے ہوئے حضرت بلال حبشی جو غلام تھے آزاد کر دیا تھا اور اسے اسلام کا موذن بنایا تھا اور آج ہم لوگوں کی دل آزاری کریں اور غلامانہ سوچ کو اپنا کر دس دس غلام رکھنے کی رسم کو پروان چڑا ئیں یہ کسی بھی لحاظ سے مناسب نہیں لگتا وہ بھی ایک جمہوری حکومت میں جہاں عوام اپنے ووٹوں سے نمائندوں کو اسمبلی میں بھیجتے ہیں تاکہ وہ ان کے مسائل حل کر یں نہ کہ وہ دولت بنانے اور دولت کی نمائش کریں۔

Related Articles

Back to top button