تعلیمی ادارے اور علمی ضروریات
تعلیمی اداروں میں داخلے کا اشتہار دیکھ کرہر طالب علم کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ سب سے اچھے سکول‘کالج‘ یونیورسٹی یا تعلیمی ادارے میں داخلہ لے سکے۔ اس خواہش کی تکمیل میں کوئی طالب علم کی مدد کریں تواُس سے زیادہ اور کون اہم ہوسکتاہے۔ایک فلاحی مملکت کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو تعلیمی سہولیات بغیر کسی رنگ‘نسل یا سیاسی بنیاد کے فراہم کریں۔ تعلیم و تربیت ہی ملک کی ترقی اور بہبودی کیلئے ضروری ہے۔ یورپی ممالک اور کئی ایک مسلمان ملکوں میں تعلیم مفت دی جاتی ہے اور پاکستان میں بھی تقریباََایک کوشش کی گئی ہے لیکن اس کا معیار اتنا نہیں کہ اس کے فارغ التحصیل طلباء جدید دنیا کا مقابلہ کرسکیں۔ تعلیمی نصاب میں جدید مضامین اور ملکی نصاب کے عین مطابق مواد فراہم کرنا بھی حکومت وقت کی ذمہ داری میں شامل ہے۔ پچھلے دنوں ایک سروے روزنامہ جنگ (۲۴ اپریل۲۰۱۲ء راولپنڈی/اسلام آباد) نے کی تھی جس کے مطابق ’’دنیا کی ۴۰۰ بہترین یونیورسیٹوں میں کوئی پاکستانی یونیورسٹی شامل نہیں۔ کیمبرج پہلی اور ہارڈورڈ دوسرے نمبرپرہے صرف برطانیہ ہی کے ۱۰ یونیورسٹیاں شامل ہیں۔پورے دنیا کے مسلم ممالک کے کُل جامعات ۵۸۰ ہیں لیکن صرف بھارت میں کُل جامعات کی تعداد ۵۸۳ ہیں۔۔۔ایشیا میں بھارت‘ چین اور جنوبی کوریا سب سے زیادہ طالبعلموں پر سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ امریکی جریرے کے مطابق بھارت کے دو اور سعودی عرب کی ایک یونیورسٹی عالمی معیار کے ۴۰۰ جامعات میں شامل ہے۔ اس وقت پاکستان میں 128 اور امریکہ میں پانچ ہزار سات سو اٹھاون(5758) یونیورسٹیاں ہیں۔ جبکہ یونیورسٹیوں کی تاریخ کا آغاز جامعہ الازہر سے ہواتھا‘‘۔ آپ سوچیں کہ پورے مسلم ممالک کے پاس صرف بھارت کے برابر جامعات نہیں۔ ہماری تعلیمی حالت کیا ہوگی؟ ہماری دین کا آغاز ہی اقراء سے ہوا تھا لیکن اب پڑھتے کم بولتے زیادہ ہیں۔پاکستان میں ۱۸ کروڑ آبادی کیلئے 128یونیورسٹیاں ہیں اور ان میں بھی تعلیمی حالت کا اندازہ ان بچوں کو پتہ ہے جو ان میں پڑھتے ہیں۔ اس مقابلے کے دور میں مسلمانوں کا اس حد تک پیچھے رہنا بہت خطرناک ہے۔ کہا جاتاہے کہ علم زندگی اور جہالت موت ہے۔ اب آپ بتائیں کہ ہم دنیا کا مقابلہ کس طرح کر سکتے ہیں۔نجی اداروں نے اس میدان میں بہت سرمایہ کاری کی ہے لیکن اُن میں داخلہ لینا کسی غریب آدمی کی بس کی بات نہیں۔ امیروں کی بچے آگے جارہے ہیں اور غریب کے بچے غریب تر۔
موجودہ زمانے میں تعلیم کے لئے جدید علوم کے ساتھ جدید چیزوں کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ ان میں سے ایک لیپ ٹاپ بھی ہے۔ لیپ ٹاپ کی ضرورت اور افادیت سے ہر ایک اگاہ ہیں۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں اس کے بغیر تحقیق ممکن نہیں۔ اس کی ضرورت کو وہی محسوس کرسکتے ہیں جو تحقیق اور لکھائی میں مصروف ہیں۔ لیپ ٹاپ ترقی یافتہ دنیا میں قدیم ایجادات میں سے ایک ہے جب کہ پاکستان میں لیپ ٹاپ لینا کسی غریب آدمی کی بس کی بات نہیں۔اس ماحول میں صوبہ پنجاب کی حکومت کا طالبعلموں کو لیپ ٹاپ دینا بہت احسن اقدام ہے۔ ہمارے ملک میں سیاسی مقاصد سب کے پاس ہیں لیکن اس طرح کے قومی مفاد میں سیاسی جماعتیں پہل کریں تو یقیناًہمیں سراہنا چاہئے۔ گلگت بلتستان سمیت ملک میں ہزروں لیپ ٹاپ کی تقسیم ایک یادگار اور اہم موقع ہے۔ یہ ہزاروں طالب علم پڑھنے کے ساتھ لکھنا بھی شروع کریں تو یقیناًقوم کے لئے ایک تحفے سے کم نہیں اور ’’پڑھے لکھے‘‘ بھی کہلائیں گے۔ تعلیمی اداروں میں اس طرح کے اقدامات سے تعلیمی انقلاب لایا جاسکتا ہے۔ اگر حکومت وقت سکول سے لیکر یونیورسٹیوں تک اس طرح کے اقدامات کریں تو یقیناًآنے والے دور میں یہ بچے ملک و قوم کے لئے سرمایہ سے کم نہیں۔ یقیناًہر سیاسی پارٹی کے اپنے پرگرام ہیں لیکن تعلیمی پروگراموں میں پنجاب حکومت قابل تعریف ہے۔گلگت بلتستان سے حافظ حفیظ الرحمٰن اور اُن کی ٹیم کی کوششوں سے گلگت بلتستان کے سینکڑوں بچوں کو لیپ ٹاپ دیا جارہا ہے۔ یہ گلگت بلتستان کے بچوں کیلئے ان کی طرف سے بڑی خدمت ہے۔ اس کی ہم قدرکرتے ہیں۔ ہم اس ملک کو تعلیم سے ہی عظیم سے عظیم تر بنا سکتے ہیں۔ اسلحہ اور مفت کی روٹی قوم کی ضرورت نہیں قوم کو ہنر اور تعلیم کمی ضرورت ہے۔ یقیناحکومت کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ جامعات کو مزید فعال بنائیں لیکن پچھلے چند سالوں سے اس طرح کے جذبات خواب نظر آتے ہیں۔ پچھے دنوں گلگت بلتستان کے ایک طالب علم کا داخلہ ایک یونیورسٹی میں ہوا اور اس بچے کو لیپ ٹاپ کی ضرورت پڑی لیکن وہ نہیں خرید سکتا تھا اس لئے اس کے ابو نے بنک سے قرضہ کر کے لیپ ٹاپ لیا اور اس قرضے کو واپس کرتے کرتے زمین تک بِک گئی۔ ہمیں امید ہے کہ حکومت بھی پنجاب حکومت کی اس اہم اور نیک کام کو آگے بڑھا کر تعلیمی اداروں میں طالبعلموں کی مدد کرے گی۔ ہم توقع رکھتے ہیں کہ یہ سلسلہ آگے بڑھیں اور دیگر اہم ضروریات بھی پوری کی جائے تاکہ ہم بھی قوموں کی زندگی میں اپنا کردار ادا کرسکیں کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے ؛ ’’کہو کہ بھلا وہ لوگ جو علم رکھتے ہیں اور جو نہیں رکھتے ہیں برابر ہوسکتے ہیں نصیحت تو وہی سمجھ سکتے ہیں جو عقل والے ہیں‘‘(القرآن : ۹:۳۹)۔