گورنر گلگت بلتستان سید پیر کرم علی شاہ اور چترال کے سید سردار حسین کی ملاقاتیں، تاجکستان روڑ سمیت مختلف امور پر گفتگو
گلگت ( نمائیندہخصوصی) چترال کی مشہور و معروف سیاسی و سماجی شخصیت سید سردار حسین شاہ صاحبکی گلگت بلتستان کے گورنر پیر سید کرم علی شاہ سے متعدد بار ملاقاتیں، چترال اور گلگت بلتستان کی علاقائی اہمیت اور تاجکستان روڈکو چترا ل سے گزارنے کے علاوہ گلگت چترال روڈ کی اہمت اور ثقافتی امور پر معنی خیز گفتگو۔
تفصیلات کے مطابق گزشتہ روز چترال کے معروف سیاسی شخصیت سید سردار حسین شاہ نے گلگت بلتستا ن کے گورنر پیر سید کرم علی شاہ سے دو مختلف نشستوں میں ملاقاتیں کیں۔ ان ملاقاتوں میں گورنر گلگت بلتستان اور سید سردار حسین شاہ کے مابین ضلع چترا ل اور گلگت بلتستان کی مشترکہ مفادات کے مختلف موضوعات پرطویل اورمفید باتیں ہوئیں۔ اس ملاقات کے بعد پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کے نمائندوں کو انٹرو ویو دیتے ہوئے سید سردار حسین شاہ نے چترال
اور گلگت بلتستان کی علاقائی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ چترال اور گلگت بلتستا نپاکستان کے عین سر پر واقع دو حسین و شاداب اور زرخیز وادیاں ہیں۔ان دونوں وادیوں کی مثال مملکت خدا داد پاکستان کے دماغ کی ہے اور دماغ جب تک سلامت اور تر و تازہ ہے انسان پرُامن اور خوشحال ہےسوال یہ ہے کہ باقی جسم کہاں تک اپنے دماغ کا خیال رکھتا ہے؟ میری نظر میں تمام پاکستان کو مل کر اپنے سر کی حفاظت کے لئے ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے ۔چترال اور گلگت بلتستان ،مملکت خدا داد پاکستان کے وہ منطقے ہیںکہ جہاں جن کے پہاڑی سلسلوں میں پانی کے بے انتہا ذخائراور بے پایاں معدنی وسائل موجود ہیں وہاں یہ علاقے مختلف دوست اور دشمن ممالک کی سرحدوںسے بھی متصل ہیں لہذا پاکستان کے اعلی حکام کو چاہئے کہ ان علاقوں کی طرف خاص توجہ مبذول کریں۔
تاجکستان روڈ کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ تاجکستان روڈواخان کے راستے اشکومن سے گزار نے کا خیا ل مہمل ہے اس سلسلے میں، میں نے گلگت بلتستان گورنمنٹ سے بھی بات کی ہوئی ہے کہ تاجکستان روڈ گلگت بلتستان سے ہوتے ہوئے گزرتا تو اچھی بات ہے تاہم دفاعی نقطہءنظر، گلگت سے بشام کا دشوارگزار پہاڑی سلسلہ او ر اس علاقے کے طبعی و موسمی حالات اس بات کی ہر چند اجازت نہیں دیتے ۔ بہتر یہ ہوگا کہ اس راستے کو بروغیل سے گزارتے ہوئے لواری ٹینل سے پیوست کیا جائے ۔
صحافیوں کے مختلف سوالات کے جواب میں انہوں نے گلگت شندور روڈ کو چترال اور گلگت بلتستان کے مابین محبت و اخوّت کا پیغام قرار دیا اور کہا کہ اس شاہراہ کی تعمیر نے ہمیں ایک دوسرے کے قریب لانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ اسی شاہراہ کو پھنڈر سے شندور تک جلد از جلد پکی کرنے اور اس شاہراہ کو سردیوں میں بھی کھلا رکھنے کے حوالے سے میں نے گلگت بلتستان حکومت کو مفید تجاویز پیش کی ہیں اور جن پر عمل درامد جلد شروع ہوگا ۔ثقافت کے حوالے سے باتیں کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ چترال کو اصولاً گلگت بلتستان کا حصہ ہونا چاہیے کیوں کہ ہماری زبان ،ہماری ثقافت ، موسیقیاور رسم و رواج ایک ہیں ۔ ہم جس صوبے میں رہتے ہیں اُس صوبے کی صوبائی قومی زبان پشتو ہے لیکن ستم ظریفی ہی ہے کہ چترال کے بہت ہم آبادی پشتو زبان جانتی ہے بلکہ یہ کہنا بجا ہوگا کہ وہی لوگ پشتو جاتنے ہیںجو پٹھان ہیں اور چترال میں کاروبار کے لئے آئے اور آباد ہوئے ۔چترال کی تہذیب قدیم وسطی ایشائی تہذیب ہے جو کہ گلگت بلتستان کے علاقوں مثال کے طور پر غذر ،یاسین ، پینیال ،ہنزہ اور گوجال وغیرہ میں زندہ ہے لہذا ہمیں اپنی ترقی کے لیئے اپنی زبانوں کو ترقی دینے کی ضرورت ہے نہ کہ دوسری زبانوں کو ۔ زبان محبت کا ایک ذریعہ ہوتا ہے اور جن کی زبانوں میں الفاط مشترک ہوتے ہیں اُن کی تہذیب بھی مشترک ہوتی ہے ۔ مثال کے طور پر نان،تت ،شپک،خلتہ ،کوہ اور ایسے بے شمار الفاظ چترالی اور وخی کے مشترک ہیں ۔ ان عوامل سے یہ جاننے میں آسانی ہوتی ہے کہ ہماری تہذیب و تمدن ایک ہے ۔