سفر مبارک ہو
مصطفیٰ کمال
پچپن سا لہ طویل سفر – ترقی کی طرف – خوشحالی کی طرف – دنیا سے بھوک ، غربت ، افلاس ، لاچاری کے خاتمے کی طرف – علم کی روشنی پھیلا نے کی طرف – روایا ت پر فخر کی طرف- ایک گوناگوں اور تکثیریت کے اصولوں پہ مبنی معا شرے کے قیام کی طرف – بین المذھبی مکالمے کی طرف اور سب سے بڑھ کر انسانی عقل و دانش کے استمعال کی طرف-
سر آغا خان ان پچپن سالوں میں ان مقدس اصو لوں کے حصول کی تکمیل کی جانب اپنا سفر جاری رکھے ہو ۓ ہیں اور یقینا آیندہ بھی جاری رکھیں گے – دنیائے اسلا م کے خاموش شهزادے کی خدمات انسانیت کے لیے کسی بھی ہستی سے بڑھ کر ہیں – کسی بھی وارن بفٹ، کسی بھی بل گیٹس اور کسی بھی الگور سے بڑھ کر – کسی بھی شیخ اور کسی بھی اما م سے بڑھ کر-
روانڈا سے لے کر موزمبیق تک اور ہندوستان سے لیکر افغانستان تک آج سر آغا خان کے ادارے ان اہداف کے حصول میں سر گرم ہیں جن کا براہ راست تعلق معاشی تنگدستی اور غربت میں پسی ہو ئی انسانیت سے ہے – ایک ایسی ہستی جس نے خدمت خلق کے حصول کی خاطر کسی سیاسی اتا ر چڑھاو سے غرض نہیں رکھا – جس نے کبھی بھی خانہ جنگی کے دوران انسانیت کی خدمت سے ہاتھ نہیں کھینچا- جس نے انسانیت کی خدمت کرتے وقت مما لک کی معاشی ابتری اور سیاسی اتھل پتھل کی پرواہ نہیں کی کیونکہ انسانیت کی خدمت ان تمام مشکلات سے با لا ہوتی ہیں-
اسماعیلی فرقے کی تاریخ بہت پرانی ہے- یہ ایک ایسی تا ریخ ہے جس نے مسلم امہ کو ایک نئی جہت، سمت اور شعور عطا کی ہے – فاطمی مصر کے الازہر یونیورسٹی سے لے کر ہندوستان کی علی گڑھ تحریک تک اسماعیلی آئمہ نے ہمیشہ عقل اور علم کی اہمیت پر زور دیا ہے کیونکہ عقل کا صحیح استعمال ہی معاشرے میں پھیلی تلخیوں ، نفرتوں اور کدورتوں کا خاتمہ کر دیتا ہے اور علم کا حصول معاشرے کو سائنسی، فکری اور روحانی ترقی کی منزلوں سے ہمکنار کر دیتا ہے- اور ہم بلاشبہ برسوں تک چلی آتی اس تاریخ سے عقل اور علم کا درست استعمال سیکھ سکتے ہیں-
سر آغا خان کی زندگی کا دوسرا پہلو ان کی عملیت پسندی ہیں- آپ ان رہنماؤں جیسے نہیں ہیں جو خالی بھا شن دیتے ہیں بلکہ ان مقا صد کے حصول کے لیے عملی اقدامات بھی کرتے ہیں- دیہی ترقی، تعلیم سمیت خدمات کے اتنے شعبے ہیں جن کا احاطہ کرنا
نا ممکن عمل ہو گا-
عظیم فارسی شاعرناصر خسرو نے شاید چشم تصور سے ان تمام خدمات کا ادراک کیا ہو گا تبھی تو وہ فرماتے ہیں — دیکھو !ابھی ابھی کھلنے والی نرگس کے پھول ، چاندی اور سونے کی مانند چمکتے ہو ے- کس طرح سکندر کے تاج کے رنگوں سے ملتے جلتے ہیں- دیکھو سنگترے کے درخت مختلف رنگوں کے پھلوں اور پتوں سے لدے قیصر کے رنگ برنگے خیموں کے گن گا رہے ہیں-
عقل کا درست استعمال ، علم کی طلب اور عملیت پسندی کے اس سفر کو جاری و سا ری رھنا چاهۓ – بہتر سماج کی تشکیل ، پرامن معاشرے کے قیام، عجز، حلیمی اور برداشت کے اس سفر کو جاری رکھنے میں عا لم اسلام کے ہر فرد کو عالم اسلام کے خاموش شهزادے کی تقلید کرنی چاهۓ اور اس عمل میں اپنا کردار ادا کرنا چاهۓ –
ناصرخسرو فرماتے ہیں –
دنیا کی مصیبتیں اور مشقتیں گرچه طویل سہی
اچھے اور برے سب کا اختتام یقینی ہے
افلاک کے شب و روز سفر میں ہیں
جو کچھ بھی گزر گیا
دوسرا اس کے عقب میں آ گیا
ھم اس سفر میں ہیں جو گزر سکتا ہے
آخر وہ سفر آ ۓ گا جس سے کوئی مفر ممکن نہیں –
آپ سب کو یہ عظیم سفر مبارک ہو !!!
Indeed, the service to humanity in general and to the marginalized and less fortunate segments of the society in particular and that without aspiring for any worldy recognition is invaluable.