گلگت بلتستان میں تعلیمی ترقی کی تاریخ
عباس علی نور ؔ گوجالی
حدیث مبارک حضورصلم
’’ علم حاصل کرو خواہ اس کے حصول کے لیے چین تک کیوں نہ جانا پڑے‘‘
تعلیم ایک خاموش قوت ہے اور دور جدید میں تعلیم کو ایک اہم اور بنیادی ذریعہ سمجھا جاتا ہے ۔ تاریخ عالم شاہد ہے کہ ہر دور میں قوموں کی عروج و زوال میں تعلیم بڑی اہمیت کا حامل رہی ہے اور دور جدید میں بھی اسکی اہمیت سے کوئی فرد انکار نہیں کرسکتا۔ گویا ہر قوم کا مستقبل تعلیم سے منسلک ہیں ۔ کسی بھی ملک کی مادی و روحانی ترقی کا مکمل انحصار اس کے نظام تعلیم پر ہے اور تعلیمی ترقی سے مرادایسی ترقی جس کے ذریعے معاشرے کے ہر شعبوں میں نشوونما کا عمل جاری و ساری ہوتا ہوا نظر آئے۔اگرچہ تعلیمی تاریخ کے آئینے میں سقراط اور اُس کے شاگرد میں سے افلاطون یعنی۳۴۸قبل میسح کے زمانے سے پہلے ہی نظام کا باقاعدہ آغاز یونان سے ہواتھا۔ لیکن اُس دور میں نظام تعلیم جدید دور کے تعلیمی اقدار سے کافی مختلف تھا ۔ بعدازاں دیگر دوسرے علاقوں میں بھی عمومی نظام تعلیم کا آغاز ہوئی تھی ۔جن میں اسپارٹا، ایتھنز،روم ،عہد وسطی اور نشاہ ،ثانیہ یعنی چودیں صدی سے سولھویں صدی کے ابتدائی دور تک یورپ میں تعلیم قابل ذکر ہیں ۔ تاہم ہمارا منشاء ارض گلگت بلتستان کے تعلیمی تاریخی و تعلیمی ترقی کے عمومی نقطہ نظر سے ہیں ۔ لہذا یہ امر مسلمہ ہے کہ دور حاضر میں ارض گلگت بلتستان دور افتادہ علاقے ہونے کے باوجود تعلیمی اُمنگوں سے لبریز اور متواتر طور پر تعلیمی مسافت کی جانب گامزن ہے اور جدید دور میں تعلیمی اہمیت کے پیش نظر مکمل طورپر تعلیمی ارتقاء کے تشنہ نظرآتا ہے۔ خطے میں تعلیمی سہولیات کے فقدان اور پسماندگی کے باوجود گلگت بلتستان میں بسنے والے لوگوں کا ایک بڑا مجموعہ اپنے آبائی گاؤں سے دور پاکستان کے مختلف علاقوں اور شہروں کی جانب بالخصوص جبکہ بیرونی ملکوں کی جانب بالعموم نقل مکانی کرکے تعلیم کی اس تشنگی کو بجھانے کے لیے کوشاں عمل ہے۔ البتہ پاکستان کے سب سے بڑا شہر کراچی کی جانب ان کی نقل مکانی کی شرح دیگر دوسر ے شہروں کے نسبت زیادہ ہے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ اس خطے میں شرح خواندگی میں بتدریج اضافہ ہوتا جارہا ہے اور چند ہی سالوں میں ان ان کی شرح خواندگی ۷۰ فیصد تک پہنچ چکی ہیں جوکہ پاکستان کے دیگر پاکستان کے دوسرے شہروں کے نسبت بہت زیادہ ہے ۔بلاشبہ اپنے جغرافیائی ساخت کے اعتبار سے یہ علاقہ نہایت ہی دشوار گزاراورسنگلاخ پہاڑوں پر مشتمل علاقہ ہیں ۔ اس لیے یہاں کے جفاکش لوگوں کی رسائی و نقل وحمل بھی نہایت ہی دشوار گزارراستے سے سر انجام پاتے ہیں ۔جبکہ ان کے زمینی راستے دشوار ہونے کساتھ ساتھ فضائی راستہ بھی کافی پیچیدہ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ راستے پے در پے مختلف واقعات و حادثات سے پُر ہیں اور حال ہی میں دہشت گردوں سے محفوظ نہیں ہے ۔ جس کے باعث لاتعداد قیمتی جانیں ان واقعات و حادثات کے نذر ہوچکے ہیں ۔ لیکن اس کے باوجود تعلیمی شعبوں میں یہاں کے لوگ شانہ بشانہ دیگر دوسرے ملکی و بین لاقوامی اقوام کے صف میں کھڑے نظر آتے ہیں ۔ تاریخ مطالعہ گلگت بلتستان سے یہ بات عیاں ہے کہ یہ علاقہ قدیم زمانے سے اپنے جغرافیائی محل وقوع کے اعتبار سے بڑی اہمیت کا حامل رہی ہے تاہم یہ علاقہ مختلف ادوار میں مختلف اقوام ، جیسے ہندوؤں ، سکھ، ڈوگراراج اور بالخصوص وادی ہنزہ میں میروں کا نظام کے زیر تسلط میں رہنے اور علاقے میں عدم رسائی نظام کی غرض سے تعلیمی میدان میں صدیوں سے دور عہد تک اپنے دائرے میں زیور تعلیم سے مکمل طور پر خود کفیل نہیں ہیں ۔ تاہم سن ۱۹۸۷ ء ؤمیں جمہوریہ چین کے کاشغر سے لیکر اسلامی جمہوری پاکستان کے شہر اسلام آباد تک متعدد قمیتی جانوں کا ضائع ہوجانے کے بعد بننے والے شاہراہ قراقرم جسے شاہراہ ریشم کے نام سے بھی جانا جاتا ہے ۔ جس سے یہاں کی شعبہ تعلیم کے مد میں انتہائی مثبت تبدیلیاں رونما ہوئی۔ گوکہ اس سے پہلے یہاں پر بسنے والے لوگ اپنے تجارتی غرض سے اپنے نقل و حمل پیدل سفر یا بذریعہ گڑ سواری طویل مدت کے مسافت طے کرکے بڑی مشکل سے تجارتی لین دین فروغ پاتے تھے۔جبکہ تعلیمی نظام کا کوئی رواج نہیں تھا ۔ گرچہ ایک طرف عام لوگوں کو تعلیم حاصل کر نے کے لیے دوسرے شہروں میں جانے کی اجازت نہیں دی جاتی تھی تو دوسری طرف مقبوضہ کشمیر سے اس خطے میں بے بنیاد الحاق کرکے ناقص سیاسی نظام کے دلدل میں دھکیل دیا تھا۔ جس سے یہ علاقہ متنازعہ علاقہ کے فہرست میں شامل ہوا اور تا حال اس کے اثر وسوخ گلگت بلتستان کے عوام پر غالب ہیں اور جہاں جس نے تمام شعبہ ہائے زندگی کو متاثر کیا وہاں تعلیم بھی ان سے متاثر ہوئے بغیر محفوظ نہیں رہ سکی۔
چنانچہ مورخین ومحققین کے مطابق بیسویں صدی کے آغاز میں گلگت بلتستان میں صرف ایک پرائمری اسکول قائم ہوئی تھی۔ تا ہم ۱۹۱۰ ء میں ایک اسکول بونجی کے مقام پر جبکہ دیگر دوسرے اسکول ضلح استوراس کے دو سے تین سال بعد یعنی ۱۳۔ ۱۹۱۲ء میں ضلح ہنزہ نگر وادی ہنزہ کریم آباد میں ایک اورپرائمری اسکول قائم ہوئی تھی ۔جوکہ اس علاقے میں اپنی تاریخ کا تیسری اسکول تھی ۔جس کے باقاعدہ انتظام وانصرام ،تعداد طلبہ و تدرسی عمل کے بارے میں سن ۱۹۲۵ء تک کوئی بہتر معلومات نہیں ملتی ہیں ۔البتہ اس کے بعد باقاعدہ طور پر اسکول کے بارے میں شواہد موجود ہیں جوکہ مستقبل میں تعلیمی تحقیقی اسناد ومطالعہ احوال کے لیے کارآمد ثابت ہوگا ۔ اس اسکول میں پہلا انچارج ہندو پنڈیت رہا ہے ۔ جبکہ عبدالعزیز سیالکوٹی بھی اس اسکول کاسربراہ اساتذہ رہا ہے ۔ اس اسکول میں تین کمرے تھے او ر علاقے میں کوئی ماہر ین تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے صوبہ پنجاب سے دو معلمین اس اسکول میں اپنے خدمت سرانجام دے رہے تھے ۔ وزیر عنایت اﷲبیگ وادی ہنزہ کا پہلا گریجویٹ تھے جس نے اپنے اعلی تعلیم جامعہ علی گڑھ سے مکمل کیا تھا ۔ جوکہ بعد میں یعنی سن۱۹۱۶ء کو اس اسکول میں بحیثیت انچارج نامزد ہوئے تھے ۔بہرحال سن ۱۹۴۰ء تک اس اسکول میں بہت سارے ناموارشخصیات کے خدمات سرفہرست ہیں ۔جن میں غنی خان، محمد نجات ،اخُون تیغون، آفیت خان اور اسکندر خان جیسے عظیم اشخاص کے نام قابل ذکر ہیں ۔یہ وہ دورتھا جس وقت گلگت بلتستان پر ڈوگروں کی حکومت تھی اور اس دور میں خواتین کی تعلیم تو بہت دور کی بات جبکہ دیگر دوسرے دور دور تک منقسم علاقوں میں تعلیم کا کوئی وجود ہی نہیں تھا ۔۱۴ اگست ۱۹۴۷ء کو مملکت پاکستان کو آزادی ملنے کے بعد گلگت بلتستان کے مسلمانوں نے بھی کپٹین مرزا خان کے قیادت میں ڈوگر افواج کے خلاف گلگت بلتستان کی المیہ آزاد ی کی آواز بلند کر دی جبکہ یکم نومبر ۱۹۷۴ء کو ڈوگر راج کے گو رنر کو گرفتار کرلیا گیا اور گلگت بلتستان کو آزاد کر دیا گیا جبکہ۱۶ نومبر۱۹۴۷ء میں گلگت کو مملکت پاکستان کیساتھ دین اسلام اور اسلامی مملکت ہونے کے ناطے الحاق کرنے کا اعلان کر دیا گیا ۔تاہم اپنے مشکلات و مصائبوں کی وجہ سے مملکت پاکستان نے نہ صرف گلگت بلتستان کو اس کے داخلی ،سیاسی و خودمختاری دینے سے محروم رکھا بلکہ گلگت بلتستان کے تعلیمی نظام پر بھی کوئی خیر خواہ توجہ نہیں دی گئی۔مملکت پاکستان کے آزادی سے ایک سال قبل آل انڈین مسلم لیگ کے صدر سر سلطان محمد شاہ آغا خان سوئم نے گلگت بلتستان میں ثانوی تعلیم کی بنیاد رکھی۔ جس سے اس خطے میں انتہائی مثبت اثرات مرتب ہوئے خصوصاً تعلیمی شعبوں میں خواتین کو اہمیت دینے اور انہیں آگے لانے میں اس کے کردار نمایاں ہیں ۔جبکہ تاحیات اس خطے میں ۱۲۶ تعلیمی ادارے آغاخان ایجوکیشن سروس کے تحت اپنے خدمات سرانجام دے رہے ہیں ۔ اور ان اداروں میں نرسری سطح سے لے کر کالج سطح تک طلبہ و طالبات زیور تعلیم سے مستفید ہورہے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تعلیمی اہمیت اور ضرورت کے احساسات بھی یہاں کے عوام المناس میں ابھرتیں گئے۔ چنانچہ انہوں نے کچھ پنے بل بوتے اور کچھ سرکاری و غیر سرکاری تعلیمی ادارے کی مدد سے علاقے میں مختلف تعلیمی ادارے قائم کیں۔البتہ تب تک دوسرے اقوام تعلیمی میدان میں ان سے کافی حدتک آگے جاچکے تھے اکیسوی صدی کے آغاز تک یہ علاقہ اعلی تعلیمی اداروں سے بھی محروم تھا ۔بعد ازاں وفاقی گورنمنٹ اسلامی جمہوریہ پاکستان نے صدر جنرل پرویز مشروف کی سربراہی میں سنہ ۲۰۰۲ء میں پہلی بارجامعہ قراقرم ا نٹر نیشنل گلگت بلتستان کے نام سے اس علاقے میں قائم ہوئی اور موجودہ عہد یعنی سن ۲۰۱۲ء میں بھی گلگت بلتستان کے ۲۰ سے ۲۲ لاکھ نفوس پر مشتمل آبادی کے درمیان جامعہ قراقرم انٹرنیشنل گلگت بلتستان چند مخصوص شعبہ جات کے زیر اثر ارض گلگت بلتستان کے طلبہ وطالبات کی تعلیمی تشنگی کو بجھانے کیجانب گامزن ہیں۔ تاہم مندرجہ بالا تذکرہ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اس علاقہ میں شعبہ تعلیم مصائبوں و مشکلات کے زد میں رہی ہیں ۔ بلاشبہ ان تمام مصاہبوں میں جکڑے رہنے کے باوجود ان لوگوں میں خود نمائی کے قوت اور تعلیمی جنون ناپید ہوجانے کے بجائے مذید مستکم ہوتی رہی۔چونکہ انہوں نے ان سے بھر پور استفادہ کرکے اپنے تمام تر تعجہ تعلیمی مسافت کی جانب مبذول کرایا اور اپنے علمی کاوشوں کو جاری رکھی۔ چنانچہ انہوں نے ان تمام تعلیمی کاوشوں کو نہ صرف اپنے اندر محدود رکھا بلکہ آنے والے نسلوں تک اس کی فروغ او رگلگت بلتستان کے تعلیمی ترقی کو بام عروج تک پہنچانے میں بھی سرگرم رہے ۔ دور عہد میں گلگت بلتستان کے چھوٹے چھوٹے خطوں میں نرسری سطح سے لے کر کالج سطح تک مختلف اور لامحدود تعلیمی ادارے قائم و دائم ہے ۔ اور چند علاقوں میں اسکول کی عمارت کے تعمیر و ترقی میں سرکاری و مختلف نجی اداروں متواتر طور پر کوشاں عمل ہیں ۔جبکہ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے جوق در جوق مختلف شہروں کی جانب انکے نقل ، مکانی تسلسل سے جاری ہے۔ نیز مملکت پاکستان کے مختلف شہروں کے ہر ایک سرکاری و نجی تعلیمی اداروں میں ارض گلگت بلتستان کے طلبہ و طالبات زیر تعلیم ہے۔اور ہر جگہ تعلیمی جنون میں گم سم نظر آتے ہیں ۔ لہذا میں انفرادی طور پر خطے گلگت بلتستان کے طلبہ وطالبات کے اس جرت مندانہ، تعلیمی جنون، امنگ و تعلیمی کاوشوں کو سلام اور خراج تحسین پیش کرتا ہوں ۔ اور بحیثیت متعلم یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ وہ اپنے اندر محبت حُب الوطنی او رسماجی و قومی محبت کو اولین ترجیع دیں اوراپنے اندر تعلیم کے اس جنون کو مذید تقویت بخشے۔ تعلیم و علم کو ہی اپنے ہتھیار بناکر دیگر دوسرے اقوام کے بالمقابل ہو اور تعلیم کو امن و امان ، عالم انسانیت کی فروغ ، ایمانداری اور سماجی مسائل کے حل کے لیے استعمال کرکے اپنے معاشرے کو امن کا گہوارہ بنانے کی کوشش کریں ۔ اور ساتھ ہی ساتھ موجودہ وزیر محکمہ تعلیم جناب ڈاکٹر علی شیر سے میر ی استدعا ہے کہ وہ ہر قدم پر گلگت بلتستان کے طلبہ و طالبات کو زیادہ سے زیادہ تعلیمی مواقع بہم پہنچائیں ۔ نیز جناب سے التماس ہے کہ وہ علاقے میں تکنیکی تعلیم ، کمرشل ادارے، پیشہ ورانہ تربیتی ادارے اور تعلیمی تحقیق ادارے قائم کی جائیں جبکہ گلگت بلتستان میں بامقصد نصاب کی ترویج جبکہ ذہین طلبہ و طالبات کو اسکالر شیپ کے موقع بھی فراہم کی جائیں ۔
abbas.ajnabi@gmail.com