گوشہ اردو

خودکشُی کی نفسیاتی وجوہات

اللہ کی دی ہوئی زندگی کوکسی وجہ یا بلا وجہ خود ہی ختم کر دینا خود کُشی کہلاتاہے۔ ”Any deliberate act which caused death and actor r knows the consequence of his act before committing is called suicide“ خودکشی کے بارے میں علوم عمرانیات میں بہت کچھ لکھاجاچکاہے۔ اِس وقت دنیا میں خودکشی کی جو لہر چل رہی ہے اِس کے بارے میں ماہرین کئی طرح کے نظریات و تجربات کرنے کے باوجود نت نئے طریقوں سے خودکشیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ کچھ ممالک میں اس کو مذہبی رنگ دیا جاتا ہے اور کچھ میں نفسیاتی عمل لیکن معمہ کچھ اور ہی ہے۔ نام نہاد سماجی تنظیمیں اس کے بارے میںچند لوگوں سے ان کی رائے لیکر اس کو پورے معاشرے پر اطلاق کرنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ محض رائے لینے سے یہ معمہ حل نہیں ہوتا کیونکہ رائے دینے والے نے کبھی اپنی زندگی میں یہ تجربہ کیا نہیں ہے۔ پاکستانی معاشرے میں بھی یہ سلسلہ عرصے سے رونما ہو رہا ہے۔ کوئی اس کی وجوہات غربت‘ جہالت‘ بے روزگاری‘ کم علمی‘ نادانی‘ گھریلوں مسائل‘ بیماری‘افلاس‘ سیاسی وسماجی رویے اور مذہب کو قرار دیتے ہیں۔ قطع نظر اس کے بعض اوقات نتائج ان وجوہات سے بھی مختلف سامنے آئے ہیں۔
گلگت بلتستان میں بھی خودکشیوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اس کے بارے میں بعض علاقوں کی خبریں ایک دم اچھالی جاتی ہیں اور بعض کے بارے میں پتہ بھی نہیں چلتا۔ ہر قسم کے اموات کو پس پردہ حقائق چھپانے کے لئے ان کو خود کُشی کا نام دیا جاتاہے۔ عدلیہ کے طویل عمل سے گریز کرنے کےلئے رشتہ دار ان اموات کو مختلف نام دیتے ہیں جیسے ”اس کا ذہینی توازن ٹھیک نہیں تھا“، ”وہ پہلے سے دماغی توازن کھوچکا تھا“، ”دیوانہ جیسی حرکات کرتا رہتا تھا“ وغیرہ وغیرہ اس عمل کو خودکشی کہتے ہیں۔ اس طرح بے جاحقائق تک جانے نہیں دیا جاتاہے۔ ایک محتاط انذازے کے مطابق گلگت بلتستان میں واقع ہونے والی خود کشیوں کی وجوہات کبھی بھی ایک نہیں جیسی رہی ہیں۔ ان میں سے اکثر اچانک اور بلاوجہ رونما ہوئے ہیں یا اچانک کے واقعات کو استقامت سے نبرد ازما ہونے کی بجائے اپنی زندگی کے چراغ کو ہی گل کر دیاجاتاہے۔ مثال کے طور پر کسی کی منگنی ایک خاص شخص سے نہیں ہوئی تو اس کا صدمہ اتنا ہوا کہ خودکشی کرلی(یا اس کو قتل کرکے خودکشی دیکھایا جاتاہے)۔ امتحان میں فیل ہونے‘ پاکستانی کرکٹ کے ولڈ کپ میں ہار جانے‘پیار و محبت کی شادی نہ ہونے‘ ساس کے طعنے‘ شوہر کی معتبریاں‘ قرعہ اندازی میں ناکام ہونے یا کسی اور کی موت کی خبر سن کر خودکشی کرنے کے کافی واقعات بھی سننے میں آئے ہیں۔ معاملہ کچھ بھی ہو یہ عمل انتہائی بزدلانہ قدم ہے۔ دین اسلام میں اِس کی کوئی کنجائش نہیں۔ اللہ کی دی ہوئی جان کو ضائع کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔ سورةُ النساءآیت ۹۲میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ ” وَلَا تَقتُلُوآا النَّسَ انّفُسَکُم ط اِنَّ اللہَ کاَنَ بِکُمرَحِیمَا ہ “
ترجمہ: اور تم اپنے آپ کو قتل نہ کرو بیشک اللہ تعالیٰ تم پر بہت رحم کرنے والا ہے“۔
اسلام میں اور پورے ادیان عالم میں خودکشی حرام اور گناہ کبیرہ ہے۔ مسلمانوں کے تمام فرقے اس کی بھرپور مذمت کرتے ہیں۔یورپ میں اس پر بہت زیادہ تحقیق کی گئی ہے ایمائل ڈرخائم(1958تا1917 (Emile Durkheim خودکشی کی وجوہات اس طرح بتاتے ہیں؛
انایت یا نفس پرستی:
یہ اس وقت واقع ہوجاتاہے جب لوگ اپنے انفرادی خواہشات پورا نہیں کرپاتے ہیں۔یہ ان علاقوں میں زیادہ واقع ہوتے ہیں جہاں سماجی رویے اور اقدار کمزور ہوتے ہیں یاسماجی ادارے انفرادی حیثیت یا خواہش کی تکمیل نہیں کرپاتے ہیں۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ سماجی آزاد خیالی بھی افراد کو اپنے لئے سوچنے کےلئے مواقع فراہم کرتی ہے بجائے کہ اجتماعی سوچ کے۔ مگر دینی اقدار اس کے برعکس ہیں وہ پہلے سے متعین ہیں جن کی تکمیل اس کے ماننے والے کو کرنی ہی ہوتی ہے کیونکہ اس نے تسلیم کیا ہے۔ مذہب میں رہتے ہوئے کوئی بھی اس مذہب کے بنیادی اقدار کو چلیج نہیں کر سکتا۔ ان اقدار پر عمل نہ ہونے کی وجہ سے بعض اوقات لوگ ناخوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ معاملہ اس وقت ہوتا ہے جب معاشرے اور ان اقدار کے درمیان ربط میں کمی ہوتی ہے۔
ایثارپسندی:
اس قسم کے سماج میں لوگ انفرادی معاملات کے بجائے اجتماعی معاملات کوترجیح دیتے ہیں۔ انفرادی حیثیت نہ ہونے کی وجہ سے چھوٹی چھوٹی باتوں میں لوگ خودکشی کرنے پر آمادہ ہوتے ہیں۔ ایسے سماج میں بہت کم لوگ اجتماعیت کے لئے جان دیتے ہیں سوائے مذہبی یا دینی وجوہات پر یا کسی قومی مقصد کے لئے جان دینا اس کی مثال ہے۔
خود غرضی:
کہاجاتاہے کہ لوگ فطری طورپر خود غرض ہوتے ہیں اور اپنی خواہش کو سب پر مقدم سمجھتے ہیں۔بعض اوقات سماج میں متعین رویے ہوتے ہیں تبدیلی کی وجہ سے ان رویوں پر عمل مشکل ہوجاتاہے اور لوگ خوکشی کی طرف مائل ہوجاتے ہیں۔
جبریت پر مبنی خودکشی:
اس قسم کی خوکشیاں زیادہ ترOppressiveسخت گیر معاشروں میں ہوتے ہیں۔ معاشرتی ناہمواریوں کو سہنے کی بجائے لوگ خودکشیوں کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس کی بہترین مثال جیل کے قیدی ہیں جو اپنی زندگی سے تنگ آچکے ہوتے ہیں۔ آج کل زیادہ بچوں کے ماں باپ‘ کم تنخواہ کے ملازمین اور بدصورتی کے حامل لوگ بھی اس قسم کے خود سوزیاں کرتے ہیں۔
ان تمام وجوہات کی اہمیت اپنی جگہ اہم ہے لیکن موجودہ زمانے میں خودکشیوں کی نوعیت ہی مختلف ہے۔ ایک زمانے میں لوگ بے روزگاری‘ جہالت‘ غربت‘ بدامنی‘ سماجی دباﺅ‘ شکل وصورت‘ مذہبی وابستگیاں‘ عشق ومحبت‘ کسی میدان میں ناکامی‘ ذات پات‘ غصہ‘ بیماری‘ معذوری‘ کاہلی اور نشے کی وجہ سے کرتے تھے۔ اب کے وجوہات ان سے بہت مختلف ہیں۔ دنیا کے مختلف حصوں میں اب قومی جمہوری حکومتوں کی وجہ سے غلامی اور ایک دوسرے پر انحصار میںکافی کمی واقع ہوئی ہے۔ اس پس منظر کے باوجود خودکشیوں کا رجحان تیزی سے جاری ہے۔ ابن خلدون فرما گئے ہیں کہ ’ہر ایک عمل کا در عمل ہے وہ اس نظریے کو علت و معلول کہتے ہیں‘۔
پاکستان میں اس رجحان کی ایک وجہ مہنگائی اور بے روزگاری ہے۔ عام آدمی کی قوت خرید میں بہت کمی آئی ہے۔ امیر بننے کا خواب دیکھنے والے شہری اپنی تنگ دستی کی وجہ سے بے بس ہیں۔ وہ ہمعصر غرور وتکبر کی وجہ سے پچھلے زندگی کے مقام پر جانے کوبھی تیار نہیں۔ چند سالوں میں زمینیں اور جائدادیں بیج کر جو نام نہاد کیفیت statusبنایا تھا وہ اس پر مضر ہیں۔ ان کے بچے عام آدمی کی طرح جینا نہیں چاہتے ہیں۔ وہ ٹاٹ سکولوں میں پڑھنا‘ روکھی سوکھی روٹی کھانا‘ زمینداری اور گھریلوں کام کرنے کےلئے تیار نہیں۔ وہ موجودہ مقام کو برقرار نہیں رکھ سکتے ہیں اور نہ ہی پچھلے کیفیت پر جانا چاہتے ہیں۔ اس ماحول میں ہمسائے‘ امیر لوگ اور میڈیا کے نت نئے فیشن ایک نفسیاتی دباﺅ کا باعث بنتے ہیں۔ یہی وہ دباﺅ ہے جو انسان کو آخری فیصلہ کرنے پر مجبور کرتا ہے۔
اس نفسیاتی دباﺅ کے دوران لوگ مذہب سے رجوع یا کسی مشغلے میں مصروف رہنے کے بجائے اس ہیجانی صورتحال پر قائم رہتے ہیں۔ اس دوران ان کے ذہن میں سینکڑوں خیالات جنم لیتے ہیں۔ ان خیالات کا زیادہ تر تعلق زندگی کے منفی پہلوﺅں سے ہوتا ہے۔ ایک عرصے تک منفی خیالات اور رجحانات انسان کو اس کی ذات کے مثبت پہلوﺅں کو بھلا دیتے ہیں۔ اس دوران کوئی اور بھی جلتی پر تیل چھڑک سکتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں ایسے سینکڑوں واقعات واقع ہوئے ہیں جن کے بارے ہمیں پتہ ہے اور ہم نے اپنے انکھوں سے دکھا ہے۔ مثال کے طور پر ایک آدمی نے محض نوکری نہ ملنے کی وجہ سے خودکشی کی۔ ایک خاتوں نے اپنے شوہر کی حوصلہ شکنی پر اپنی جان کھو دی۔ ایک نوجوان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے اچھے سکول میں داخلہ نہ ملنے کی وجہ سے اپنی جان خود لے لی۔ ایک شادی شدہ خاتون کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے محض ایک مخصوص رنگ کے کپڑے کے نہ ملنے کی وجہ سے خود کو کرنٹ لگا دی۔
پسند کی شادی‘ جائداد کی تقسیم‘ کھیل کود میں ہار‘ سکول میں کم نمبر لینے اور سہلیوں اور دوستوں کو اچھے رشتے آنے پر کئی ایک خواتین وحضرات نے اپنی زندگی گل کردی۔ بقول غالب
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے میرے ارمان مگر پھر بھی کم نکلے
اس رجحان کو کم کرنے کےلئے ہر ایک شخص کو متبادلات کی تربیت دی جانی چاہئے۔ نئی نسل کو سکولوں‘ مدرسوں‘ کالجوں‘ یونیورسیٹوں اور میڈیا پر متبادلات اور ایک وقت کئی ایک خواہشات رکھنے اور ان میں ترجیح کی بنیادکو سمجھنے کی صلاحیت سیکھانا چاہئے تاکہ لوگ ایک خواہش پوری نہ ہونے پر دوسری کے لئے تگ ودو کریں دوسری نہ ہو تو تیسری اور وہ بھی نہ تو مزید نئے خواہشات کا سوچنا چاہئے۔ کیونکہ خوہشات انسان کی سوچ کے پیداوار ہیں وہ وحی نہیں ہوتے اور نہ ہی کوئی دیتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ کپڑے لینے بازار جاتے ہیں تو آپ کے ذہن میں کم از کم چار پانچ رنگ اور قسمیں ہوں تاکہ ایک کے نہ ملنے پر دوسرا لے سکے۔ کسی گاڑی میں سواری کے وقت فرنٹ سیٹ کے ساتھ متبادل کے طور پر پہلے دوسرے‘ تیسرے اور آخری سیٹ کو بھی رکھیں تاکہ رش کی مناسبت سے کہی بھی بیٹھ کر اپنی منزل تک جا سکے کیونکہ آپ کی منزل گاڑی نہیں وہ تو وہاں جانے کا ذریعہ ہے۔ اس طرح بچپن سے ہی کسی ایک لڑکی یا لڑکے کی طرف دیہان نہ دے بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ نئے دوستوں میں اضافہ کریں تاکہ ایک کے نہ ہونے سے کسی اور کے ساتھ بھی آپ خوشی سے جی سکیں۔ اسی طرح داخلے‘ پیشے‘ کاروبار‘ مضامین کے انتخاب اور دوسرے معاملات میں ضرور متبادلات رکھیں تاکہ بوقت ضرورت آپ کے کام آسکیں اور آپ کی زندگی متاثر نہ ہو۔
ہماری زندگی میں اگر اس قسم کی نفسیاتی دباﺅ پڑ جائے تو کسی مشغلے‘ دینی احکامات‘ سیر وتفریح یا کچھ دنوں کے لئے کسی اور مقام پر جانا چاہئے تاکہ دماغ پر پریشر نہ ہو۔ اپنے آپ کو کسی اور کام میں مصروف رکھنا بھی مفید ثابت ہوسکتا ہے۔
ہمیں عقل اور سوچ سے بھی کام لینا چاہئے۔ یورپ میں اگر ایک آدمی اسی عقل سے جدید تر سائنسی ایجادات اور دریافتیں کرتا/کرتی ہے تو ہمیں بھی اپنے عقل وشعور سے مدد لینی چاہئے۔ یورپی ممالک میں اوربعض مشرقی ملکوں میں بھی لوگ اللہ کی اس زمین پر انسانیت کی خدمت کے لئے اپنی زندگی وقف کئے بیٹھے ہیں ہمیں خود کشی کرنے کے بجائے ایک سکینڈ کے لئے لوگوں کی نہیں تو کم از کم اپنے والدین اور رشتہ داروں کے بارے میں سوچنا چاہئے۔
اس مقالے کے آخر میں چند سوالات آپ کے لئے رکھ دیتا ہوں آپ سوچئے اور ان پر غور فرمائیں۔ ہم اپنی زندگی میں ایک چیز کو اپنی منزل کیوں بناتے ہیں؟ ہم جذبات کوعقل و فہم پر کیوں ترجیح دیتے ہیں؟ ہم اپنے دماغ کا استعمال کب کرینگے؟ کیا خودکشی کسی مسئلے کا حل ہے؟بقول جوش
قابل برداشت جب رہتا نہیں دردِ حیات
ڈھونڈھتی ہے تلملاہٹ زہر میں راہِ نجات
اس عمل سے عقل انسانی میں آتی ہے یہ بات
ارتکابِ خود کشی تک ہے جنون حُب ذات
آدمی جیتا ہے ساز و برگِ عشرت کے لئے
اور مرتا بھی ہے تو د فعِ اذیت کے لئے

Related Articles

Back to top button