یوم آزادی گلگت بلتستان – تاریخ کا سنہرا باب
زمان پونیالی
یکم نومبر کا روز ِ سعید ہر سال گلگت بلتستا ن کے باشندوں کے لیے ان گنت خوشیوں اور مسرتوں کا پیغام لے کر آتا ہے۔یہ دن گزشتہ چھے دہائیوں سے گلگت بلتستان کے ہر ایک شہری کا تعلق اس کے شاندار ماضی سے جوڑے ہوئے ہے۔وہ ماضی جو بیک وقت خوشی و شادمانی کا پیامبر بھی ہے اوردعوت غور و فکر بھی دیتا ہے کہ اہل شمال اپنے ماضی اورحال کے موازنے سے مستقبل کی پیش بندی کریں اور اپنے سماجی و اجتماعی رویوں میں سچائی،حق گوئی،جذبہ آزادی اور وطن پرستی کے جذبوں کو فروغ دینے کی اپنی سی کوشش کریں ۔ یہی بے لوث جذبے تھے جنھوں نے چند سو بے یار ومدد گار و بے سروسامان آزادی کے متوالوں کو آتش و آہن سے بھر دیا اور وہ قوت عطا کی کہ وہ د نیا بھر کی قوموں کے لیے شاندار مثال قائم کریں کہ جذبہ آزادی و حریت سے سرشار قومیں اپنی منزلوں کا نشاں کھوجنے کس حد تک جاسکتی ہیں۔
آج سے چونسٹھ برس قبل گلگت بلتستان کی سرزمین پر غلامی کی تاریک شب کا سایہ تھااور یہ تاریکی اس سرزمین ِ بے آئین کے ہر اک باشندے کے قلب و روح میں منجذب تھی۔مطلق العنان حکمرانی کی ننگی شمشیرتلے رعایا پابہ زنجیر تھی اور ریاستی ظلم و جبر کے بدترین دور سے گزر رہی تھی۔سلطنت ِ برطانیہ کی طرف سے مبلغ سات روپیہ فی کس قیمت پر بکنے کے بعد وہ عزت ِ نفس اور خودی کا جوہر بھی کھو چکے تھے۔گردش ِ ایام نے ان کی قسمت میں مجبوری و محرومی کا نہ ختم ہونے والا باب لکھ دیا تھا۔ جبر و استبداد ، ظلم وبربریت ، انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی اور ماورائے آئین و قانون قتل و غارت گری ایسے جرائم نے اس نام نہاد ریاستی حکومت و عمل داری کو مضبوط بنیادیں اور اساسیت فراہم کررکھی تھی۔خوف وہ واحد جذبہ تھا ،جسے وقت کے اولی الامر کی جانب سے پنپنے اور اپنی جڑیں مضبوط کرنے کی کامل آزادی تھی۔بھاری ٹیکسوں کی ادائیگی اور ریاست سے غیر مشروط وفاداری کا عوض جان کی امان کی صورت مل سکتا تھا۔گلگت بلتستان کے لوگ اس ظلم و ستم کی زندگی سے یکسرعاجز تھے، مگر المیہ یہ تھا کہ وہ سرے سے یہ شعور ہی نہ رکھتے تھے کہ وہ کبھی آزاد شہری کی حیثیت سے زندگی گزار سکتے ہیں اور معاشرے میں عدل وانصاف، انسانی حقوق اور برابری کے مواقع سے مستفید ہو سکتے ہیں۔سالہا سال کی غلامی اور مایوسی کے دبیز اندھیروں نے ان سے امید کی آخری لو بھی چھین لی تھی، مگر ہر رات کے دامن میں سپیدۂ سحر موجزن رہتا ہے اور ہر سیاہ بادل رخِ خورشید کا نقاب بن کر سرک ہی جاتا ہے۔گلگت بلتستان کی آزردہ و پژمردہ مٹی سے آزادی کے متوالوں کا خمیر اُٹھا، جنھوں نے اپنی بہادری،جوش ، ولولے اور عزم سے ریاستی جبر و استبداد کا خاتمہ کر دیا۔
گلگت سکاوٹس کے جان نثاروں نے غلامی و مایوسی کے اس مشکل دور میں یقین کی حدیں پھلانگ کر ،علاقے کے عوام کو ان کی تقدیر سے لا ملایا۔ان چند سو جانثاروں نے بے سروسامانی کی حالت میں اپنے سے کئی سو گنا طاقتور اور جدید اسلحے سے لیس دشمن کے خلاف جو کارنامہ سرانجام دیا ، وہ دنیا بھر کے عسکری ماہرین کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیتا ہے۔ایسی کامیابی عزم ِ راسخ،پختہ یقین اور اللہ تعالی کی ذات پر کامل ایمان ہی سے حاصل ہوسکتیہے۔گلگت سکاوٹس کے جوانوں نے نہایت منظم حکمت عملی سے دشمن کے خلاف پے در پے کامیابیا ں حاصل کیں۔انھوں نے اپنا لائحہ عمل اس طرح ترتیب دیا کہ ان کی محدود افرادی قوت اور وسائل کی کمی بھی ان کے رستے میں حائل نہ ہو سکی۔انھوں نے زنگ آلود بندوقوں ، کلہاڑوں اور لاٹھیوں کے ساتھ برف زاروں میں ننگے پاؤں ہمارے بقا کی جنگ لڑی اور فتح یاب ہوئے۔ان کی بہادری،دلیری اور بے خوفی لازوال ہے ۔غیرت و حمیت تو قبائل کی گھٹی میں ہے ،ان لوگوں نے جس طرح مستقبل کی پیش بینی کی اورقومی زندگی میں آزادی و خود مختاری کی اہمیت و افادیت کا ادراک کیا ،اس سے ایک خوشگوار حیرت ہوتی ہے۔آج کا دن ان تمام غازیوں اور شہدا کے جذبۂ آزادی کو خراج عقیدت پیش کرنے کا دن ہے ،جنھوں نے جان ہتھیلی پر رکھ کر اپنے مایوسیوں سے لتھڑے ہوئے کل سے ہمارا روشن آج تراشا ۔
آج گلگت بلتستان کے طول و عرض میں یوم ِ آزادی منایا جائے گا ،لیکن اس مرتبہ سطحی و رسمی تقریبات و خطبات میں احساس ِ ذمہ داری و تشکر کی گھلاوٹ بھی ہو تو سمجھنا چاہیے کہ یوم آزادی کو ہم نے یوم تجدید عہد کے طور پر منالیا۔گلگت بلتستان کے ہر ایک فرد کو یاد ہونا چاہیے کہ آج اگر وہ معاشرے کا ایک آزاد و خود مختار فرد ہے ،تو اس کی قسمت کی یہ روشن لکیر ہمارے آبا کے لہو سے کندہ ہے ۔یہ آزادی بہت ہی بیش قیمت ہے اور ہمیں اس کے تحفظ کے لیے یک دل ہو کر سعی کرنا چاہیے۔آزادی کی قدرو منزلت کا اندازہ ان قوموں کی تکالیف و اضطراب سے لگایا جاسکتا ہے،جنھیں یہ نعمت حاصل نہیں۔لہٰذا یہ قوم کے ہر اک فرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ مساعی جمیلہ سے حاصل شدہ نعمت کی قدر کرے اور اس کی مضبوطی واستحکام کے لیے اپنا فریضہ بہ احسن نبھائے۔گلگت بلتستان کے لوگوں کو آج کے دن یہ عہد کرلینا چاہیے کہ وہ اس خطے کی سلامتی اور خودمختاری کے لیے کوششیں کرتے رہیں گے ۔وہ روا داری، مذہبی ہم آہنگی،پرامن بقائے باہم ، برداشت اور صلہ رحمی کو فروغ دیں گے اور ایسے افعال اور امور کو فروغ دینے سے اجتناب برتیں گے ،جن سے علاقائی امن و سلامتی کو خطرات لاحق ہوں اور علاقہ دشمنوں کے لیے تر نوالہ ثابت ہوسکے۔یہی یوم آزادی کا دن ہماراعہد ہونا چاہیے۔