گونا گونی
گلگت بلتستان کی سرزمین جغرافیا ئی لحاظ سے٢٧ ہزار مربع میل پر محیط ایک منفرد علاقہ ہے۔ یہاں کی سنگلاخ پہاڑ جہاں قدرتی حسن بیکھرتی ہے وہی پر اپنے اندر ہزاروں قسم کی معدنیات اور جنگلی حیات کی افزئیش بھی کرتی ہے۔ قدرت کے ان دلنشین مناظر کو دیکھنے کے لئے دنیا کے کونے کونے سے سیاح اس علاقے کا رُخ کرتے ہیں، بین الاقوامی سطح پر اس علاقے کی خصوصیت اسکی دوسرے کئی ہمسایہ ممالک کے ساتھ سرحدی روابط کیوجہ سے اور بھی زیادہ بڑھ جاتی ہے، جیسے کہ شمال کیجانب چین کا صوبہ سنکیانگ، مشرق کیطرف بھارت کا لداخ اور کارگل کے علاقے اور افغانستان کی وخان پٹی جہاں سے وسطی ایشیاءکے کئی دوسرے ممالک تک رسائی انتہائی آسان ہے اسی علاقے کی مرہون منت ہے۔
اس کے علاوہ اس علاقے کی زرخیز زمین آلو کی کاشت اور کئی قسم کی میوہ جات کےلیئے نہایت موزوں ہونے کیوجہ سے ملک کے بیشتر علاقوں میں بہت مشہور ہیں جن میں سیب، خوبانی، چیری، اخروٹ، بادام کے علاوہ سردیوں میں خشک میوہ جات شامل ہیں۔
جسطرح ملک کا یہ حصہ اپنی قدرتی حسن، معدنی اور زرعی ذخایئر کے علاوہ جعغرافیائی خصوصیات کیوجہ سے نہ صرف ملکی بلکہ بین الاقوامی سطح پرنہایت اہم سمجھا جاتا ہے وہی پر اس علاقے کے لوگ شعوری طور پر اور حب الوطنی کے اعتبار سے بھی ایک اہم مقام رکھتے ہیں۔ تاریخ پر نظر دوڈایں تو کئی ایسی مثالیں ملتی ہیں جو اس علاقے کے عوام و خواص کی جواں مردی، حب االوطنی، جانفشانی اور تدبر کا ثبوت دیتی ہیں جس میں ڈوگراہ راج سے اپنی مدد آپ کے تحت جنگ آزادی سے لیکر یکم نومبر ۷۴۹۱ کو رضاکارانہ طور پر وطن عزیز پاکستان سے الحاق کا فیصلہ شامل ہے۔ اس کے علاوہ بھارت کیساتھ ۵۶۹۱ کی جنگ ہو یا ۱۷۹۱ کی، یا پھر ۹۹۹۱ کو کارگل کا معرکہ ہو، ہر میدان میں گلگت بلتستان کے پر عزم جوانوں کے کارنامے تاریخ میں سنہرے الفاظ میں درج ہیں۔
ملکی معیشت کی بہتری میں بٰھی اس علاقے کاقابل قدر کردار ہے جس میں ملکی و غیر ملکی سیاہ حوں سے کمائے جانے والی خطیر آمدن، دوست ملک چین سے شاہرریشم کے ذریعے ہونے والی تجارت، تعمراتی مقاصد کے لیے اس علاقے کے جنگلا ت کا استعمال وغیرہ سے سالانہ خاطر خواہ رقم ملکی خزانے میں جمع ہوتی ہے۔ اسکے علاوہ ملکی آبی ذخایئر کے لیے پانی کا بیشتر حصہ بھی انہی پہا ڑوں کا برف پگل کر جاتا ہے، دیامر باشا ڈیم کا قیام بھی اس سلسلے میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔
گلگت بلتستان کا قطعہء اپنی تمام تر قدرتی ریعنایﺅں اور اپنے اندر سموئی ہوئی قدرتی وسائل کے علاوہ یہاں کی ثقافتی، مذہبی، لثانی، علمی و ادبی گوناگونی اس علاقے کو اور بھی زیادہ خوبصورت اور مسرت کن بنا دیتی ہے۔ اس چھوٹی سی قتطعہ ء اراضی جسکی آبادی تقریبا دس لاکھ ہے، پر ایک درجن کے قریب زبانیں بولی جاتی ہیں جو کہ ایک دوسرے سے قطعی مختلف اوانفرادی طور پربے حد شیرین ہیں۔یہاں کی ثقافتی رنگینیاں اس علاقے کواس خوبصورت باغ کی مانند بنا دیتی ہے جس میں کئی قسم کے اور کئی رنگوں کے پھول نہ صرف اپنی خوشبو سے ماحول کو معطر کر دیتی ہے بلکہ دیکھنے والوں کے قلب کو سکون اور آنکھوں کو تسکین بخشتی ہے۔
اب یہ اس علاقے کے رہنے والوں پر منحصر ہے کہ وہ یہاں کی اس قدرتی ،معاشی ، ثقافتی و مذہبی گوناگونی کواپنی طاقت سمجھ کر اس پر رشک کرتی ہے یا پھر اپنی کمزوری سمجھ کر اپنے اور اپنے آنے والے نسلوں کے لیے اسے وبال جان بنا دیتے ہیں۔ پچھلے چند دھائیوں سے اس علاقے میںخونریز فرقہ وارانہ فسادات کے تلخ تجربے کے بعد ہر زیشعور انسان یہی کہہ سکتا ہے کہ یہاں کے لوگ اپنے اس طاقت کو سمجھنے سے تاحال قاصر ہیں۔ بدقسمتی سے اس علاقے کے سادہ لو لوگوں کو ایسے راہ پر لگا دیا گیا ہے جس پر چل کر نہ تو وہ اس گوناگونی کی متاثر کن خوشبوسونگ سکتے ہیں اور نہ ان دلفریب مناظر کا نظارہ کر سکتے ہیں جسے دیکھ کرانہیں وہ دلی سکون میسر آسکے اورآنے والے نسلوں کو ایک تابندہ امید کی کرن نظر آئے ۔ جس راہ پر اس وقت اس علاقے کے لوگ گامزن ہے اسکی نہ کوئی منزل ہے نہ اختتام بلکہ یہ پورے علاقے کو تبا ہی اور بربادی کے دھانے پر ہی پہنچاسکتی ہے۔ یہ جانتے ہوے بھی کی اس راہ پر چلنے سے تباہی اور بربادی کے علاوو کچھ نہیںمل سکتا، اپنے لیے نئے سمت کا تعین نہ کرناایک بہت بڑا المیہ اور لمحہ فکریہ ہے
ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ قوم اس گونا گونی کو اپنی اصل طاقت سمجھ کر اس کی قدر کرئیں اور ایک با شعور قوم ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے ایک دوسرے کے کندھے سے کندھا ملا کرخود اپنے اور اپنے آنے والے نسلوںکے لیے درست سمت کا تعین کرے جس کی منزل امن و خوشحالی اور بھائی چارگی کی فضاءہو جہاں پر یہ قوم ایک پر وقار زندگی گزار سکے، جہاں ہر کسی کے جان و مال کا تحفظ یقینی ہو، کسی کا عزت نفس مجرو نہ ہو اور نہ ہی کسی کے مذہبی اقدار پامال ہوں۔
The writer can be reached at; aly.ajaz@gmail.com