گوشہ اردو

صبر کا پھل

بی بی نظیر 

یہ کہانی میرے گاﺅں میں رہنے والی ایک معصوم لڑکی کی ہے ۔اس کے والدین بھی انتہائی سادہ طبیعت کے مالک ہیں ۔ عینی کے ساتھ اس کے گاﺅں والوں اور رشتہ داروں نے بہت برا سلوک کیا اور اس کو بہت رسوا کیا بے شک ہمارے ہاں تعلیم عام ہے ۔ ہر کوئی تعلیم یافتہ ہے لیکن ابھی تک لوگوں میں تنگ نظری پائی جاتی ہے ۔بے شک انسان غلطی کا پتلا ہے غلطیاں ہوتی ہیں لیکن جو لوگ امیر ہیں ان کی غلطیوں کی پردہ پوشی کی جاتی ہے اور اگر کوئی غریب غلطی کرے تو اسے سرعام رسوا کیا جاتاہے ہر کوئی اسے نفرت کی نگاہ سے دیکھتاہے۔عینی اس علاقے کی بدنصیب لڑکی ہے اس کے والدین غریب تھے ۔اپنے گھر کو مشکل سے چلاتے تھے ۔اس کا باپ محنت مزدوری کرکے گھر کو چلاتا تھا۔
عینی چونکہ پڑھائی میں اچھی تھی اور اس کے والدین کو اس سے بہت سی امیدیں وابستہ تھیں لیکن اس کے اپنے چچازادبھائی اس کے دشمن تھے ۔ کبھی اس کی اصلاح نہیں کی یہاں تک کہ ان کے گھر جاتی تو وہ اسے ڈانٹتے اور کہتے کہ یہاں سے بھاگ جاﺅ آئندہ ہمارے گھر مت آنا ۔اس سے نفرت اس لیے کرتے تھے کہ اس کا والد غریب تھا۔پھر عینی اپنے ہمسائے کے گھر جانے لگی۔اس ہمسائے کو گاﺅں والے اچھا نہیں سمجھتے تھے کہتے تھے کہ ان کا کردار اچھا نہیں ۔ عینی کا آنا جانا ان کے گھر میں ہوا تو لوگوں نے عینی کو بھی برابھلا کہنا شروع کردیا۔اس کے خلاف سازشیں کرنے لگے ۔ حالانکہ عینی اس وقت بارہ سال کی بچی تھی لوگوں نے کہاکہ عینی ان کے گھر جاتی ہے تو یہ بھی ایسی ہوگی حالانکہ ایسا نہیں تھا ان سب باتوں کی وجہ سے عینی بہت پریشان تھی ۔اس نے خود کشی کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہی ۔پھر نوبت یہاں تک آگئی کہ اس کے والدین کو بھی تشدد کا نشانہ بنانے لگے ۔کچھ لڑکوں نے اس کی ماں کی پٹائی کی اور کہاکہ عینی کو اس گھر میں کیوں جانے دیتے ہو۔اس کی ماں نے کہاکہ وہ پھر کہاں جائے گی۔تم لوگ میرے بچوں کو اپنے گھر کے قریب نہیں آنے دیتے.
 اسی دوران ہمسائے کے گھر شادی کی تقریب تھی۔شادی کی تیاریاں شروع ہو گئیں ۔عینی بھی ان کی مدد کیلئے وہاں جانے لگی۔ شادی کی تقریب کے دوران دولہے کے بھائی نے عینی کو دیکھ لیا اور اس شادی کا پیغام بھیجا ۔جب عینی نے انکار کیا تو اس نے عینی کو دھمکی دی کہ اگر تم نے یہ بات کسی سے کی تو تمہارے بھائی اور والد کو قتل کردوں گا میں تمہیں پانچ روز کی مہلت دیتا ہوں ۔ عینی مجبور ہوگئی ۔اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کیا کرے ۔اسے نیند نہیں آرہی تھی ۔سوچ رہی تھی کہ اگر میں بھاگ گئی تو گاﺅں والے کیا سوچیں گے ۔ وہ ویسے بھی غلط سوچتے ہیں ۔ اگر اس آدمی سے شادی کی تو وہ پہلے سے شادی شدہ ہے ۔ دو بیویاں ہیں گاﺅں والے کیا کہیں گے ۔ پھر عینی نے اپنے والدین سے مشور ہ کیا کہ وہ اس آدمی سے شادی کرنا چاہتی ہے ۔ابو اور امی حیران ہوگئے اور منع کیا خاندان والے کیا سوچیں گے لیکن عینی نے ضد کی اور کہاکہ میں بھی تنگ آئی ہوں ۔بس میری اسی سے شادی کروادیں نہیں کرواتے تو میں خود کشی کروں گی ۔اس کے منہ سے جب یہ بات نکلی تو اس کے والدین مجبور ہوگئے اور رونے لگے۔ کہاکہ ٹھیک ہے جیسے تمہاری مرضی۔ ہم تمہیں منع نہیں کرسکتے ۔
بی بی نظیر

آخر کار وہ آدمی مولوی کو لے کر گھر پہنچا اور نکاح ہوگیا ۔ لیکن عینی کو اندر سے غم کھائے جارہا تھا ۔ایک دن عینی اپنے گھر میں اکیلی بیٹھی رو رہی تھی ۔ گھر میں کوئی نہیں تھا کہ اچانک اس کی امی آگئی اور عینی کو روتے ہوئے دیکھ لیا اور فوراً پوچھا کہ کیوں رورہی ہو ۔تمہاری مرضی کی شادی ہوئی ہے۔آخر کیاوجہ ہے ۔مجھے لگتا ہے کہ تم خوش نہیں ہو۔مجھے سچ بتاﺅ ۔تمہیں میری قسم۔عینی مجبور ہوگئی اور کہاکہ اس شخص نے زبردستی مجھ سے شادی کی ہے جس سے میں خوش نہیں ہوں۔اس کی امی سے رہا نہیں گیا۔اس نے عینی کے ابو سے بات کی اور پھر پولیس والوں کو اطلاع دی ۔رشتہ داروں میں عینی کا ایک ماموں بہت اچھا تھا۔اس نے عینی کا ساتھ دیا۔اور کہاکہ آپ کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے ۔عدالت میں جانا ہوتو میں تیار ہوں۔پھر وہاں کے ویمن رضا کار کو بلایا اور عینی نے ساری بات اس کو بتائی۔اب انتظار اس آدمی کے آنے کا تھا ۔ایک دن وہ آگیا تو عینی نے اس سے کہاکہ وہ ساری باتیں بتا چکی ہے اب تمہاری خیر نہیں ہے ۔تم چلے جاﺅ۔تمہاری بہتری اسی میں ہے۔پھر ان لوگوں نے بھی اس سے بات کی ۔ عینی نے طلاق لے لی ۔نکاح ہوئے اڑھائی مہینے ہوئے تھے ۔عینی نے کئی بار خود کو جان سے مارنے کی کوشش کی لیکن قدرت کو کچھ اور منظور تھا۔اس کے ابو نے اس کا ساتھ دیا اور کہاکہ عینی بیٹی مجھے پتہ ہے کہ حقیقت کیاہے ۔تمہیں شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں ۔تم دنیا والوں کو چھوڑو۔بس خود پہ بھروسہ رکھو۔سب ٹھیک ہوجائے گا ۔یہاں اگر غریب کی اولاد غلطی کرے تو لوگ افواہیں پھیلاتے ہیں۔اگر کسی امیر کی اولاد غلطی کرتے تو پتہ نہیں چلتا۔یہ دنیا بھی عجیب کھیل کھیلتی ہے ۔عینی کی ہمت دیکھو اس نے جب گاﺅں کی صورتحال دیکھی کہ کوئی بھی اس سے بات کرنے کو تیار نہیں سوائے چند لوگوں کے ۔عینی کی امی کو چند اوباش لڑکوں نے تشدد کا نشانہ بنایا اور ایک دن نشے کی حالت میں چند لڑکے آئے اور عینی کی امی سے کہاکہ عینی کو نکال دو۔جب اس کی ماں نے کہاکہ ان لڑکوں کو پولیس کے حوالے کیاجائے۔

افسوس کی بات ہے کہ ان لڑکوں میں اس کا اپنا چچا کا بیٹا بھی شامل تھا ۔جس نے پہلے بھی عینی کو بدنام کرنے کی کوشش کی ۔جب پولیس والے ان لڑکوں کو پکڑنے کیلئے گئے تو ثالثی بورڈ والے عینی کے گھر پہنچ گئے اور ایف آئی آر درج کرنے اور پولیس کو بیان دینے سے روکنے اور صلح صفائی کرنے کی بات کی ۔ عینی کے والدین فوراً مان گئے لیکن ثالثی بورڈ نے ساری غلطی عینی پر ڈال دی اور لڑکوں کوبری کردیا۔
اس کے بعد عینی نے نوکری تلاش کرنی شروع کردی اور اسے وہاں نوکری مل گئی اور مکان کرائے پر لے کر گھر شفٹ کردیا۔اور اس کی ماں کو بھی نوکری مل گئی۔ان کا مقصد بچوں کو پڑھانا تھا۔عینی کا مقصد بھائیوں کی تعلیم تھی۔عینی نے ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں اپلائی کیااوروہاں اسے جاب مل گئی ۔ عینی بہت خوش تھی۔پھر دو سال بعد پڑھائی بھی شروع کردی۔میٹرک پاس کیا ۔اسی دوران عینی نے اپنی امی اور ابو کیلئے سرکاری ملازمت تلاش کی ۔ عینی کی برداشت کا یہ نتیجہ نکلا کہ ان کو نوکری مل گئی ۔ اس نے اپنے گاﺅں کے ایک پرائیویٹ کالج میں داخلہ لیا اور ایف اے پاس کیا۔ آج بھی عینی اپنی یونیورسٹی میں لائق طالبات میں شمار ہوتی ہے ۔عینی کے ارادے ہمیشہ نیک تھے ۔ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئی۔
عینی سے جب پوچھا کہ مستقبل میں کیا کرنا چاہو گی۔ کیا اپنے دشمنوں سے بدلہ لو گی تو کہنے لگی کہ ہاں ضرور لوں گی لیکن ان کے ساتھ برا سلوک نہیں کروں گی۔ اپنے علاقے کی ترقی کیلئے کام کروں گی۔ خواتین کیلئے کام کروں گی۔آخر میں عینی اپنے لوگوں سے پوچھتی ہے کہ کیا آپ نے مجھے برائی کرتے دیکھاتھا؟ اس وقت میری عمر ہی کیا تھی؟  لیکن میں ایسی نہیں ہوں۔ میری گزارش ہے کہ اپنے منصب کا غلط فائدہ نہ اٹھائیں ۔ اللہ کے گھر دیر ہے اندھیر نہیں ۔ شاہ شاہ نہیں رہتا اور گدا گدا نہیں ۔اللہ کے ہاں پکڑ ہوتی ہے۔

Related Articles

2 Comments

  1. dear …bina apka artical parah buht hi accha tha ap na . ,,humara society ka bara ma likha tha ..buht accha likhti ho allah ap ko kamiyb karga …

Back to top button