گوشہ اردو
کنجوسی کا انجام
کنجوسی ایک بیماری ہے جو کسی کو بھی لگے تو طویل عرصے تک اس سے چھٹکارہ ممکن نہیں۔ ہمارے معاشرے میں بہت لوگ اس بیماری کا شکار ہیں۔وہ اللہ کی دی ہوئی رزق اور مال ودولت رکھتے ہوئے بھی مفلسی کی زندگی گزارتے ہیں۔ آج کل اُن لوگوں کےلئے اور بھی اچھا بہانہ مل گیا ہے کہتے ہیں کہ مہنگائی کی وجہ سے ہم زیادہ خرچہ نہیں کرپاتے ہیں۔ مال و دولت کے ہونے کے باوجود نہ خود اور نہ ہی اپنے اہل و عیال کو کچھ دیتے ہیں۔ دین اسلام میں کنجوس کو شیطان کا بھائی کہاگیاہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں؛
” وَلا یَحس±َبَنََّ الَّذِیَ یَب±خَلُونَ بِمَآ اتٰھٰمُ اللّٰہُ مِن± فَض±لِہِ ھُوَ خَی±راََ لَّھُمَ بَل± ھُوَ شَرُّ لَھُم± سَیُطَوقُو±نَ مَابَِخِلُو±ابِہِ یَو±مَ ال±قِیٰمَةِ ہ(آل عمران: ۳:۰۸۱)
”ترجمہ: اور جو لوگ اللہ کے دیئے ہوئے فضل کے معاملے میں بخُل(کنجوسی) سے کام لیتے ہیں۔ وہ اِس غلط فہمی میں نہ رہے کہ اِن کےلئے اچھا ہے۔ نہیں‘ یہ اُن کے لئے بہت بُرا ہے جس مال میں انہوں نے بخل (کنجوسی) کیا اُسی کا طوق قیامت کے دِن اُن کے گلے میں ڈالا جائے گا“۔
بخل جب دل میں جڑ پکڑ جائے تو زبردستی دولت جمع کرنے کے رجحان کا باعث ہوتا ہے اور پھر آدمی بلا وجہ دولت جمع کرنے کے پیچھے لگ جاتاہے۔ ایسے آدمی کےلئے درد ناک سزا کی خبر سورة توبہ آیت ۴۳ میں دی گئی ہے۔ ان تمام اسلامی تعلیمات کے باوجود ہمارے معاشرے میں کنجوسی مزید بڑھ رہی ہے۔ آج کے کالم میں اس حوالے سے ایک مشہور کہانی پیش خدمت ہے۔ یہ کہانی”قصص العرب/ الجزءالرابع“ میں دی گئی ہے یہاں اُس کا اردو خلاصہ پیش کیا جاتاہے۔
کہتے ہیں کہ بغداد میں ایک آدمی جس کا نام ابوالقاسم تھا‘ اپنے ایک جوتے کی وجہ سے مشہور تھا۔ وہ سات سال سے ایک ہی جوتا پہنتا تھاجس کی وجہ سے پیوند لگالگاکر جوتی بہت بھاری ہوچکی تھی۔ گاﺅں کے تمام لوگ اُس کے جوتوں کو جانتے تھے۔ ایک دن وہ نہانے کےلئے حمام کی طرف نکلے۔ راستے میں اِس کا ایک دوست ملا۔ دوست نے اُس سے کہا’ارے بھائی آپ مالدار آدمی ہے اپنے لئے نئے جوتے کیوں نہیں لیتے ہو؟ اُس کے دوست نے کہا کہ اللہ نے چاہا تو وہ اُس کو لیکر دیں گے۔ ابوالقاسم بہت خوش تھا۔ وہ حمام میں نہانے کے بعد جب باہر نکلا تو حمام میں اُس کے پُرانے جوتوں کے ساتھ ایک نیا جوڈا پڑا تھا۔ وہ اُن کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور یہ سمجھ کر کہ شاید اُس کے دوست نے لیکر یہاں رکھا ہے‘ پہن کر اپنے گھر چلے گئے۔ چند دن بعد پتہ چلا کہ وہ جوتے قاضی صاحب کے ہیں۔ وہاں پر موجود لوگوں نے قاسم کے جوتے کو پہچان لیا پولیس کو اطلاع دی اور پولیس اُن کے جوتے لیکراُن کے گھر میںداخل ہوگئی۔ اُن کو جوتا چرانے کی جرم میں سزا ملی اور جرمانہ بھی ہوا۔
ایک عرصے کے بعد وہ قید سے رہا ہوئے اور اپنے جوتے کو غصے سے قریبی دریا میں پھینک دیا۔ کچھ دن بعد ایک شکاری دریا میں مچھلی پکرنے گیا اور جھال میں جوتے نکل آئے۔ شکاری نے قاسم کے جوتے پہچان لئے اور اُن کو لیکر اُن کی گھر کی جانب گئے۔ ابوالقاسم گھرمیں نہیں تھے شکاری نے اُن کے جوتوں کو کھڑکی سے اندر پھنکا۔ جوتے اندر سیدھے شیشے کے صندوق پر گرے اور وہ ٹوٹ گیا وہاں موجود کچھ شیشے کے سامان بھی ٹوٹ گئے۔ جب وہ واپس آیا تو اُس کی صندوق ٹوٹی ہوئی تھی۔ اُس کو بہت غصہ آیا اور وہ رات کو ہمسائے کے گھر کے قریب ایک گھڑا کھود کر وہاں اُن کو دفن کردی۔ اُس دوران ہمسائے نے قاسم کو دیکھ لیا اور اِس شک میں شاید وہ اُس کا مکان کوگرانے کی کوشش کر رہے تھے یا کوئی تعویز دفن کررہے تھے۔ ہمسائے نے جوتہ دیکھ کر ابوقاسم کوپہچان لیا اور حاکم کی عدالت میں لے گئے۔ عدالت میں قاضی نے آپ کو دوبارہ سزا دی اور جرمانہ کیا۔ اِس دفعہ سزا کے بعد گھر آئے اور جوتے کو غصے سے چھت پر پھینگ دیا۔ کچھ دن بعد ایک کتّا چھت پر گیا اور جوتے کو منہ سے گرایا جو سیدھے نیچے ایک راہ گیر کے سر پر لگی۔ راہ گیر زخمی ہوا اور ہسپتال میں داخل کیا گیا۔ لوگوں نے ابوالقاسم کے جوتے کو پہچان لیا اور اُن کو پکڑکر پھر عدالت کے حوالے کیا۔ عدالت نے سخت سزا دی اور جرمانہ کیا اور اُن کو سخت تنبہہ کی۔ سزا کاٹنے کے بعد ابوقاسم گھر آئے اور وہی جوتے لیکر شہرکے قاضی کے پاس گئے اور حلف نامہ پیش کیا جس میں انہوں نے جوتوں کا ”عاق نامہ“ تحریر کیا تھا۔ قاضی کو انہوں عرض پیش کی آئندہ میں اِن جوتوں کا میںکوئی ذمہ دار نہیں اور نہ ہی یہ میرے ہیں میں اِن سے لا تعلقی کا اظہار کرتا ہوں۔
آج کل ہمارے سماج میں بھی کچھ لوگ نام نہاد فقیر بنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ کوٹ‘ بوٹ‘ کپڑے‘ اور دیگر چیزیں سالہا سال پہننے کی وجہ سے وہ سب لوگوں کی نظر میں ہوتے ہیں۔ کنجوسی کی بھی حد ہوتی ہے۔ اسلام نے ہمیشہ”اعتدال پسندی“ کو سراہا ہے۔ اسلام نے نہ صرف کنجوسی بلکہ فضول خرچی کے بارے میں بھی اللہ کی خوف دلائی ہے۔ فرماتے ہیں
” وَلاَتُبَذِّرُ تَب±ذی±راََاِنَّ ال±مُبذِرِی±نَ کَانُو±آ اِخ±وانَ الشَّیٰطیِنُ وَکَانَ الشَّی±طٰنُ لِرَبِّہ کَفُو±رَا ہ( بنی اسرائیل‘ ۷۱:۶۲،۷۲)
ترجمہ: ”اور فضول خرچی نہ کرو فضول خرچ لوگ شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے“ ۔
ان تمام اسلامی تعلیمات سے واضح ہوا کہ نہ تو فضول خرچی اچھی بات ہے اور نہی کنجوسی بلکہ اسلام نے درمیانی راستے کی تعلیم دی ہے۔
وَالذین اذآاَنفَقُوا لَم یُس±رِفُوا وَلَم یَقتَرُوا وَکاَنَ بَی±نَ ذَلِکَ قَوَاماََ ہ(سورةُ الفرقان: ۵۲:۷۶)
ترجمہ: ”اور وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ بے جا اُڑاتے ہیں اور نہ ہی تنگی کے کام میں لاتے ہیں بلکہ اعتدال کے ساتھ نہ ضرورت سے زیادہ نہ کم“۔
آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا کبھی آپ نے اس بارے میں سوچا ہے؟ اگر آپ کے پاس اللہ کی دی ہوئی دولت ہے تو ضرور اپنے لئے اور اپنے اہل وعیال کے ساتھ ضرورت مندوں کا بھی خیال رکھیں اس سے پہلے کہ دولت آپ کے لئے گلے کا کانٹا یا طوق ثابت ہو۔
ہے لوگ وہی جہاں میں اچھے
آتے ہیں کام دوسروں کے