گوشہ اردو
جشن یوم امامت
محمد جان رحمت جان
مملکت پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے جہاں اسلام کا ہر فرقہ اپنے عقیدے کے مطابق زندگی گزارتا ہے۔ یہی آزادی سب سے بڑی نعمت ہے۔دین اسلام بنی نوع انسان کے لئے اللہ کی طرف سے آخری اور مکمل ضابطہ حیات ہے۔ اللہ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سلسلہ نبوت کے آخری پیغمبر بناکر انسان کی ہدایت کے لئے بیجھا۔ آپ اللہ کے آخری رسول اور بنی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی ذات پر قرآن پاک نازل فرمائی جو انسان کے لئے قیامت تک مشعل راہ ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں سورہ بقرہ آیت: ۸۴۱ اور سورہ المائدہ آیت نمبر۸۴ میں فرماتے ہیں کہ”۔۔۔ہم نے ہر ایک فرقے کےلئے ایک دستور اور ایک طریقہ مقررکردیا ہے اور اگر خدا چاہتاتوسب کو ایک ہی شریعت(طریقہ)پر کردیتامگرجوحکم اُس نے تم کو دیئے ہیں ان میں وہ تمہاری ازمائش کرنا چاہتا ہے اس لئے نیک کاموں میں جلدی کرو۔تم سب کو خدا کی طرف لوٹ کر جانا ہے پھرجن باتوں میں تم کواختلاف تھا وہ تم کو بتا دے گا“۔ اس طرح امت کی گوناگونی اور تکثیرت کو قرآن نے سورہ انعام آیت نمبر۸۰۱‘ ۹۵۱‘ سورہ الاعراف آیت نمبر۴۳‘سورة الرّعد آیت نمبر۶۳‘ سورة المومنون ۳۵‘سورة الروم ۴۱‘۲۳‘اور سورة الزخرف آیت۵۶ میں وضاحت سے بیان کیا ہے۔حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاتم النبیاءاور رحمت اللعالمین ہیں آپ کا لایا ہوا دین قیامت تک بنی نوح انسان کے لئے ہدایت کا سرچشمہ ہے۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد مسلمان اجتماعی طور پر متحد نہ رہ سکیں اور مختلف فرقوں میں تقسیم ہوگئے۔ ان میں بڑے بڑے فرقے شیعہ‘ سنی اور خارجی تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان میں اور ذیلی فرقے بنتے گئے جو آپ تاریخ اسلام کی مستند کتابوں میں تفصیل سے پڑھ سکتے ہیں۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ تاریخ میں ان تمام فرقوں نے دین اسلام کی ادبی تاریخ میں ایک بڑا علمی ورثہ چھوڑا ہے۔ چہار آئمہ اور جمہور علماءواسکالرزنے سنی اسلام میں بہت بڑا علمی کام سرانجام دیا ہے جو آج کرڑوں مسلمانوں کے لئے راہ نجات ہے۔ اس طرح شیعہ اسلام میں عید غدیر کے بعد حضرت علی علیہ سلام اور اولاد علی ؑکو شیعان علی اماموں کے طورپر تسلیم کرتے ہیں جو شیعان علی کو دین ودنیا کے بارے میں ہدایت و راہنمائی کرتے ہیں۔
حضرت امام جعفرالصادق علیہ اسلام کی وفات کے بعد شیعہ مزید دو بڑے فرقوں میں بڑ گئے ان میں سے ایک شیعہ اثناعشری اور دوسرا اسماعیلی فرقہ شامل ہے ۔امام موسیٰ کاظم ؑ اور آپ کی اولاد کو ماننے والوں کو اثناعشری کہا جاتا ہے۔اس طرح امام اسماعیل ؑ اور آپ کی اولاد کے ماننے والوں کو اسماعیلی کہتے ہیں۔ اسماعیلی فرقے کے لوگ امام مستنصرباللہ ؑ جو کہ فاطمی خلافت(909ءتا1056ئ) میں خلیفہ بھی تھے‘ کے بعد مزیذ دو بڑے فرقوں میں بڑ گئے ان میں سے ایک نزاری اسماعیلی اور دوسرے’ مستعلوی‘ جو بعد میں ’بوہرہ‘ کے نام سے مشہور ہوئے۔ اسماعیلی نزاری امامت کا سلسلہ اس طرح جاری وساری رہا۔ تاریخ میں بڑے بڑے مشکل اوقات بھی آئے۔ لیل ونہار کے کروٹوں کے باوجود یہ فرقہ اپنے ہدایت و راہنمائی کی روایات کے ساتھ آگے بڑھتا گیا۔ امام قاسم شاہ کے زمانے میں پھر دو بڑے فرقے وجود میں آئے جن میں محمد شاہی اور قاسم شاہی شامل ہیں۔ یہاں شیعہ امامی اسماعیلی نزاری‘ قاسم شاہی میں شامل ہیں۔
یوں امامت کا سلسلہ اسماعیلی نزاری عقیدے کے مطابق چلتا رہا اور آج سرکارموناشاہ کریم الحسینی آغاخان چہارم اس فرقے کے انچاسویں مورثی امام منصب امامت کا منصب سنبھالااور حاضر وموجود ہے۔ آپ گیارہ جولائی 1957ءکو اکیس سال کی عمر میںمسند امامت پر امام سلطان محمدشاہ الحسینی کی وفات کے بعد جلوہ افروز ہوئے۔ امام سلطان محمدشاہ الحسینی نے اپنے وصیت نامے میں اپنے بیٹے پرنس سلمان خان کے بیٹے یعنی اپنے پوتے کو زمانے کے امام کی حیثیت سے شیعہ امامی اسماعیلی روایات ور نص کے مطابق انچاسواں (49)امام مقرر فرمایا۔
حضرت امام آقا سلطان محمد شاہ الحسینی نے اپنے وصیت نامےwill))میں لکھاہے کہ؛”ہمارے جد امجد حضرت علی ؑامام اول کے وقت یعنی چودہ سو سال سے لیکریہ ہمارے خاندان کی روایت رہی ہے کہ ہرامام بغیر کسی مزاحمت اور وقطعی اختیارسے اپنی اولاد میں سے خواہ وہ اس کے فرزندان ہوں یا دور کی نرینہ اولادہو(بیٹا یا بیٹے کا بیٹا)اپنا جانشین منتخب کرتاہے۔۔۔ہم اپنے پوتے شاہ کریم الحسینی جو ہما رے فرزند علی سلمان خان کے بیٹے ہیں، ان کو آغاخان کے لقب اور اپنے شیعہ اسماعیلی مریدوںکے امام اور پیر کی حیثیت سے جانشین بننے کےلئے نامزد کرتے ہیں“۔ ”حا لیہ سالو ں میں دنیا میں بدلتے ہو ئے بنیادی حالات کے پیش نظر بڑی بڑی تبدیلیوں کی وجہ سے جن میں اٹیمی سا ئیس کی دریافتیں بھی شامل ہیں ہمارا یقین ہے کہ یہ شیعہ مسلم اسماعیلی جماعت کے بہترین مفاد میں ہو گاکہ ہماراجانشین ایک جوجوان آدمی ہوجس نے حالیہ سالوںکے دوران اور جدیددورمیں پرورش پائی ہواور حوش سنبھا لاہو اورجو اپنے منصب میں بحیثیت امام زندگی کا ایک جدید نقظئہ نظر لا ئے“۔(۱۱ جولا ئی ۷۵۹۱ئ) میں مزیذ معلومات کے لئے آپ دیکھ سکتے ہیں(www.iis.ac.uk)۔
آج کے دن گلگت بلتستان اور ملک کے دوسرے حصوں سمیت دنیا بھر کے اسماعیلی مسلمان اپنے زمانے کے امام کایوم امامت مناتے ہیں۔ اس خوشی کے موقع پر دوسرے مسلمان بھائی بھی اپنی تہنیت کا اظہارکرتے ہیں۔ اخبارات خصوصی اشاعت کرتے ہیںاس طرح اسماعیلی برادری کے ساتھ اظہار یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔اسماعیلی تمام جماعت خانوں میں اس دن کو خصوصی دعاﺅںکا اہتمام کرتے ہیں جس میں ملک و قوم کی سلامتی اور پاکستان کی خوشحالی کے لئے دعائیں مانگی جاتی ہے۔
شیعہ امامی نزاری اسماعیلی مسلمانوں کے انچاسویں امام حضرت امام نورمولانا شاہ کریم الحسینی صلواةُ اللہ علیہ 13دسمبر1936ءکو جنیوامیں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام پرنس سلمان خان اور دادا کانام امام سلطان محمدشاہ آغاخان سوّم تھے جو اسماعیلی مسلمانوں کے اٹتالیسویں امام تھے۔ امام سلطان محمدشاہ تحریک پاکستان کے اہم راہنماﺅں میں سے ایک تھے۔ آپ مسلم لیک کے پہلے صدر رہ چکے ہیں ۔ آپ لیک آف نیشن کے صدر بھی رہے ہیں۔ آپ نے اپنے پوتے کی تربیت بہت اعلیٰ طریقے سے کی۔ ہارڈورڈ یونیورسٹی سے اسلامک سٹیڈیز میں گریجویشن کی ڈگری لی۔ آپ بچپن سے اسلامی تعلیم کے بڑے شوقین تھے۔ آپ نے نیروبی میں سات سال کی عمر میں عید کی نماز کی امامت کی۔انگریزی‘ عربی‘ فرنچ‘ اردو اور فارسی زبانوں میں خاصی دسترس حاصل کی۔ آپ کی امامت اور تخت نشینی کے مبارک تقاریب کراچی‘ ممبئی‘ دارالسلام اور تنزانیہ میں منائی گئی۔ امامت کے منصب پر فرائض سنبھالنے کے بعد آپ نے فرمایا:
”My beloved spiritual children, I will do everything possible for your worldly and spiritual upliftment. As you were in my beloved grandfather’s heart and thoughts, you will be in mine.(Geneva, 13 July, 1957)“آپ منصب امامت سنبھالنے کے بعد کراچی تشریف لائیں اور یہاں اپنے مریدوں کو فرمایا:”Since the 11th of July 1957, all my aims and ambitions have been devoted to help and guide my spiritual children in spiritual and worldly matters. The happiness which I have gained from my work, the encouragement to carry more and more responsibility and undertake more and more projects, the continuous search for truth in all matters, all this has been due to you”. (Karachi, 13 December, 1964)“۔
یوم امامت کے اس مبارک موقع پر اسماعیلی جماعت اپنے عقیدے کے مطابق دن آغاز ملک وملت کے لئے دعا سے کرتے ہیں۔ دن میں سالگرہ کی مناسبت سے جماعت خانوں میں تقاریب ہوتی ہے جس میں زمانے کے امام کے حضور اپنے عقیدت کے ساتھ ساتھ امام علیہ اسلام کی خدمات پر روشنی ڈالی جاتی ہے۔ واعظین اور لیڈر شب کی طرف سے اہم موضوعات پر تقریریں ہوتی ہے۔ طلباوطالبات اپنے امام کے حضور اپنے عقیدت کے اظہار کے ساتھ آپ کی زندگی اور خدمات پر بولتے ہیں۔ پرامن‘ تاریخی اور ثقافتی روایات کے مطابق پورے دن کی مصروفیات شام تک جاری رہتی ہیں۔ اس دن جماعت کو AKDNاور دیگر ادروں کی خدمات کے بارے میں بھی اگاہی دی جاتی ہے۔ تعلیم اور صحت کے بارے میں زمانے کے امام کی جانب سے دی جانے والی ہدایات پر عمل کرنے کی ضرورت پر زور دیا جاتا ہے۔ ملک وملت کی خدمت‘ پرامن ماحول‘ تعلیم اور صحت کے لئے کوشش‘ مختلف شعبوں میں مہارتیں حاصل کرنے‘ تعمیر وترقی میں حکومت اور اداروں کی مدد کی اہمیت پراگاہی دی جاتی ہے۔ یوں یہ دن رحمتوں اور برکتوں کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ سالگرہ (یوم امامت)کا پیغام یہ ہے کہ جہاں بھی رہے امن‘ سلامتی‘ معیاری تعلیم‘ ملک و قوم سے وفاداری ‘ اداروں سے تعاون‘ دوسری برادریوں سے بہترین گرم جوش تعلقات‘ معیاری زندگی کے اصول اور متوازن زندگی سے رہے جس میں دین دنیا کا توازن بھی ہو اور خوشحالی بھی۔ اس طرح کے بڑے دنوں کے موقع پر خصوصی تقاریب ہونی چائیے تاکہ ہم ایک دوسرے کے بارے میں جان سکیں اور غلط فہمیاں ختم ہو۔
”عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری“
A brief but excellently articulated avowal of the history. Such account from history can help dilute disinformation, and provide source of accurate information to the readers.