گوشہ اردو

بادشاہ اور انجینئر

گزرے ہوئے زمانے کے واقعات و سرگرمیوں کے مجموعے کو عام طورپر تاریخ کہاجاتاہے۔ تاریخ کہیں اہم واقعات کا مجموعہ معلوم ہوتی ہے اور کہیں سیاسی شخصیات کے گرد گھومتی ہے۔ ماضی میں جتنی بھی تاریخ کی کتابیں لکھی گئی ہیں ان میں زیادہ ترسیاست اور مذہب کو بہت زیادہ اہمیت دیاگیا ہے۔ عام آدمی کی زندگی کے بارے میں کچھ نہیں بتایاگیاہے۔ لاکھوں عام لوگوں نے اس دنیا کو کئی اہم تخلیقی خدمات اور مہارتیں دی لیکن آج ہم ان سے ناواقف ہیں۔ ہم کتابوں میں صرف بادشاہوں اور بڑے بڑے لوگوں کے بارے میں پڑھتے رہے ہیں۔ دنیا میں سات یا آٹھ عجائبات ہیں اُن کی تعمیر کس نے کی ہے؟ وہ مزدور کون تھے؟ کتنے تھے؟ ان کو بناتے بناتے کتنے مر گئے ہمیں اس کا اندازہ نہیں ہمیں تاریخ لکھنے والوں نے صرف یہ بتایا ہے کہ فلاں بادشاہ نے فلاں قلعہ بنوایا ہے وغیرہ وغیرہ وہ بڑا مہربان تھا یا ظالم تھا۔۔۔ لیکن ان کے رعایا کاکچھ نہیں پتہ۔ بادشاہ اور انجینئر کی ایک کہانی آج آپ کی خدمت میں عرض ہے جس میں بادشاہ کے روّیے کا آپ اندازہ کرسکتے ہیں۔
ایک دفعہ کا ذکرہے کہ ایک مملوک بادشاہ نے اپنے لئے ایک بہت خوبصورت اور عظیم ترین محل یا قلعہ بنانے کی خواہش کی اور اپنے ملک کے تمام انجینئرز کو اس بارے میں حکم دیا۔ سب کے سب نے سوچنا شروع کردیا اور مختلف نقشے بناکر بادشاہ کے حضور میں پیش کر دیا۔ بادشاہ نے تمام نقشوں کو دیکھ کر اس وقت کے مشہور ومعروف انجنئیر’سنمّار‘ کے نقشے کو پسندکیا۔ اُس نے بادشاہ کے محل کو ایک خوبصورت پہاڑی چٹان کے ساتھ نہر کے اوپربنایا تھا۔ اس محل میں اُس نے باغات‘ نہریں‘ پھول‘ میوہ دار درخت اور مختلف فواروں کے ساتھ وسیع وعریض سبزہ زار بھی بنایا تھا جہاں دنیا کی تمام لذتیں فراہم کی گئی تھی۔ بادشاہ نے اُس محل کی تعمیر کا حکم دیا اور انجینئر نے اس کی تعمیر شروع کردی۔ دن رات مزدوروں نے کام کیا۔ بھاری بھاری پتھر‘ کٹائی اور نہ جانے کیاکیا تکالیف کھانے کے بعد ایک عشرے میں یہ محل تعمیر ہوگیا۔ پورے ایک عشرے تک سنما ایک دن بھی سویا نہیں۔ اپنی محنت اور زیرکی سے ایسا محل بنایا جس کی دنیا میں کوئی مثال نہیں ملتی تھی۔محل مہمان خانے‘ درباری کمرے‘ فیملی ہال‘ قمقمے‘ غسل خانے اور عیش و آسائش کے تمام سہولیات سے مزین تھا۔ ایک دن محل کی افتتاح کے موقع پر بادشاہ آئے اور محل دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ آپ نے اُس انجیئنر کو بلایا اور اپنے ساتھ محل کی سیر کو نکلے۔ محل کی چھت پر بادشاہ نے انجینئر کے ساتھ پورے محل کا مشاہدہ کیا اور بہت زیادہ مسرور ہوئے۔ انجینئر بہت خوش تھے کہ اُس کی ہنر اور زیرکی کو بادشاہ نے پسند فرمایا ہے۔ وہ دل میں بہت باغ باغ تھے کہ بادشاہ اب انعام وکرام سے نوازیگا تو میں اپنے خاندان والوں کے ساتھ خوشی کے دن گزارنگا۔وہ سوچ رہا تھاکہ اپنے لئے بھی ایک گھر بناﺅنگا جہاں میرے بچے اور فیملی بھی سکھ کے ساتھ رہ سکیں گے۔ انجینئر اپنی دنیا میںگھم بادشاہ کو محل کے بارے میں ایک ایک چیز بتاتا گیااوربادشاہ بھی بہت خوش دیکھائی دے رہے تھے۔ایک دن بادشاہ نے انجینئرکوپھردعوت پربلایا۔ انجینئرکی خوشی کی انتہانہ رہی وہ دربار میں حاضر ہوئے۔ بادشاہ نے انجینئر سے پوچھا؛کیا دنیا میں اس جیسا کوئی قیصر بناہے؟ انجینئر نے کہا’نہیں‘۔بادشاہ نے پھر پوچھا‘ ’کیا دنیا میںآپ جیسے مہارت والے کوئی اور بھی انجینئر ہیں؟‘ جواب ملا’ نہیں‘۔
بادشاہ ایک دم سوچنے لگا اگر میں اس انجینئر کو زندہ رکھونگا تو یہ کسی اور کو بھی اس طرح کا قصر یعنی محل بنائے گا۔ بادشاہ نے انجینئر سے کہا آﺅ چھت پر جاتے ہیں اور اس محل کی ایک اور سیر کرتے ہیں۔ وہ ان کے ساتھ چھت پر نکلا اور محل کے سب سے اونچے سطح پر گئے۔ بادشاہ کی نیت خراب ہوچکی تھی۔ آپ نے اپنے جوانوں کو حکم دیا کہ”انجینئر کو اس اونچے چھت سے نیچھے گرادو تاکہ نہ رہے بھانس نہ رہے بانسری“۔ انجینئر کو چھت سے نیچھے پھینک دیاگیا اور وہ زمین پر گرکر ہلاک ہوگئے اور انجینئر کو اُس کی مہارت کی جزا کے بجائے سزامل گئی۔ احسان فراموشی کی حدہوگئی۔آج کل کے ہمارے حکمرانوں کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا یہ بھی اچھے لوگوں کے ساتھ یہ سلوک کرتے ہیں؟
قارئین کرام: اس کہانی سے آپ کتنے اسباق نکال سکتے ہیں آپ خود سوچئے! ماضی میں سینکڑوں ایسے ہنرمندوں کو ہلاک کیاگیا نہ جانے کتنے مزدور لیکن ہم اب بھی بادشاہوں اور حکمرانوں کی تاریخ لکھتے رہے ہیں۔ کیا آج کل بھی ایسا تو نہیں کہ زیرک اور ہنرمند لوگ معاشرے میں کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں اور حکمرانی کے نام سے فضول قسم کے لوگ مزے لوٹ رہے ہیں۔ یہ مزدور اور یہ انجینئر بڑے بڑے محل بناکر کسی اور کے حوالے کردیتے ہیں اور خود کسی جھونپڑی میں زندگی بسر کررہے ہیں۔ایسے ہزاروں ترکھان‘ مستری‘ پینٹر‘ پلمبر‘ الیکٹریشن والے اور مزدور دن رات محنت کرکے محلات بناتے ہیں اور وہاں رہنا ان کو نصیب نہیں۔ محل میں توکیاان کو اس دنیا میں بھی رہنے کی فکر رہتی ہے۔ بقول غالب
ہوا جب غم سے یوں بے حس تو غم کیا سر کے کٹنے کا
نہ ہوتا گرجدا تن سے تو زانو پر دھرا ہوتا
ہوئی مدت کہ غالب مر گیا پر یاد آتا ہے
وہ ہر اک بات پر کہتا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا

Related Articles

Back to top button