گوشہ اردو
رمضان اور سماجی رویّے
تحریر: محمدجان رحمت جان
رمضان مبارک کا پہلا عشرہ اپنی رحمتوںکے ساتھ اختتام تک پہنچا اب دوسرے عشرے کی فیوض و برکات جاری ہیں۔کرئہ ارض میں جہاں جہاں مسلمان رہتے ہیں وہ سب اپنے اپنے منطقے کی اوقات کے مطابق سحری اور افکار کے ساتھ ساتھ دوسری عبادات بجالاتے ہیں۔ مسلم امہ رمضان شریف کے آمد کے ساتھ خصوصی طورپر اس مبارک مہینے کے لئے انتظامات کرتے ہیں۔ عبادت بندگی میں باقاعدہ رہنے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے۔ زمانہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں مومینن قرآن و حدیث کے مطابق انتہائی سادگی اور عشق ومحبت کے ساتھ اس مہینے کی عبادات بجالاتے تھے اس کے ساتھ ساتھ اپنے روزمرہ کے امور بھی اس طرح چلاتے تھے کہ روزمرہ زندگی متاثر نہیں رہتی تھی۔ دن بھر کام کاج بھی کرتے اور رات کو عبادات بھی بجالاتے تھے۔ وہ اس مبارک مہینے کی فیوض وبرکات میں دوسروں کو بھی شریک کرتے تھے اور کسی پر روزہ رکھنے کا احسان نہیں جتاتے تھے بلکہ ان کا یہ عقیدہ تھا کہ صوم صرف اور صرف اللہ اور رسول کی خوشنودی اور رضا کے لئے ہے۔ مسلمان اس مہینے عملی طورپر باقی مہینوں سے زیادہ حقوق العباد کے ساتھ حقوق اللہ کا بھی خیال رکھتے ہیں۔ رمضان محض کھانے پینے سے پرہیز کا نام نہیں بلکہ رمضان میں حقوق العباد سے لیکر حقوق اللہ کی ادائیگی ہوتی ہے تاکہ انسان کو غریبوں کی غربت کا©‘ مسافروں کی مسافت کا‘ مسکینوں کی حق کا‘ ہمسایوں کے حقوق کا‘ دعا بندگی کی حاضری کا‘ قرآنی تعلیمات کی عملی اظہار کے ساتھ ساتھ اسلام کی خدمت کا درس دیتا ہے۔
روزے کےلئے قرآن میں لفظ صوم اور صیام استعمال ہو ا ہے۔ روزے کی حقیقت سمجھنے کےلئے لفظ صوم ہی بہتر مفہوم ادا کر تا ہے اس کے متبادل کے طور پر فارسی زبان میں روزہ کا لفظ استعمال کیا جاتاہے مگر صوم کا مفہوم روزے کے دا من میں سما نہیں سکتا ہے ۔ صوم کے اصل معنی کسی کام سے رک جا نے کے ہیں خواہ اس کا تعلق کھانے پینے سے ہو یاگفتگو کرنے اور چلنے پھرنے سے ہو اس بناءپر گھوڑا چلنے یاچارہ کھانے سے رک جائے تو اُسے صائم کہاجاتاہے ۔ پس محاورتی طور پر صوم ہر بُرے کا م سے رک جا نے کے مفہوم میں آتے ہیں۔ یعنی یہ کہ ہر بُرے کام سے رک جا نا۔ عام طور پر روزے سے مراد فجرسے مغر ب تک کھانے پینے اور فعل جنسی سے اجتنا ب کرناہے ۔ روزہ ایک ایسی اسلامی عبادت ہے جس کو اسلا می کیلنڈر کے نویں مہینے رمضان المبارک میں اذان فجرسے اذان مغرب تک کے معین وقت میں کھانے پینے اوراس سبیل کے دوسرے معاملات سے رک جا نے کی صورت میں انجام دی جا تی ہے ۔ تا ریخی لحا ظ سے روزے کا فریضہ دو ہجری میں عائد ہوا اور حضور صلی اللہ علیہ و آلِ و سلم نے صوم کی عملی شکل پیش کی۔
تاریخ کے اوراق پر اگر ہم نظر ڈالیں تو اندازہ ہو تا ہے کہ روزہ نہ صرف ۲ ھجری کو فرض ہوا بلکہ ماضی میں بھی مختلف صورتوں میں رکھاجاتا تھا۔ در اصل ماضی میں کھانا ہی حاصل زیست تھا۔ جبری ترک طعام کی سزا بہت اہمیت کی حامل تھی۔مشلاََ ہندوں کی مقدس کتاب رگ وید میں لکھاگیاہے ۔”پہلے اندر دیوتا نے بستی کے لو گو ں کو بھوک کی سزا دی پھر ان کے کھیت اجاڑ دئے اور ان پر آگ کی بارش کی“۔)رگ ویدپری بڈہسٹ انڈیا ص ۸۴۲ پو لیٹیکل ہسٹری آف انشنٹ انڈیا بائی چودہری ص ۹۴)۔ اس زما نے میں برصغیر پاک و ہند میں ٹیکسلا اور مو ہنجوداڑو میں نا فرمانوں کی یہی سزا تھی کہ ان کو کھانا نہیں دیاجاتاتھا تاکہ وہ اپنے ان افعال سے دور رہے۔ اس کے علاوہ جین مت اور بدھ مت کے با نیو ںنے ہی اس عمل کو تبدیل کیا اور بھو ک کو اللہ کی رضا اور خوشنودی کیلئے استعمال کیا۔ جناب بدھانے اپنے محل اور بادشاہت کو ترک کر کے جنگلوں کا رخ کیا تاکہ تقویٰ حا صل کرسکے ۔ ان کے بعدبنی اسرائیل کے نبی حضرت مو سیٰ ؑتھے کہ جس نے کوہ طور پر چالیس روزے رکھے۔(خراج :38-34)۔حضرت عیسیٰ ؑ نے بھی چا لیس روزے رکھے تھے (متیٰ 12-14)۔ حضرت دانیال اور حضرت یحییٰ ؑنے بھی روزے رکھے۔ ( دانیال باب ۵۲، مرقس ۲۱۔۸۱) ۔
جیوش انساکلوپیڈیا جلد پانچ ص 347 میں درج ہے کہ ” یہودیوں اور عیسائیوں کا روزہ انتہائے سخت ہوتاتھا ۔ وہ اسے کفارہ یا توبہ یا اس سے بھی محدود مقاصد کیلئے رکھتے تھے قدیم وقتوں میں روزہ یا تو بطور علامت ماتم رکھاجاتاتھا یا جب کوئی خطرہ لا حق ہو تااور یا پھرجب سالک اپنے اندر قبول الہام کی صلاحیت پیداکرناچاہتاتھا۔“ اس بات کے مطالعے سے ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ روزہ ما ضی میں مختلف انداز میں رکھا گیا مگر اس کے جوہر (essence) میں کو ئی تبدیلی نہیں آ ئی۔ اس کے علاوہ جب حضر ت مریم ؑکے بطن سے حضر ت عیسیٰ ؑپیدا ہو ئے تو لوگوں نے اس با ت پر بہت اعتراضات کئے تو اللہ نے فرمایا”پس توکھاپی اور اپنی آنکھ ٹھنڈا کر اور کوئی آدمی آپ کودیکھے توکہہ دینا کہ میںنے خدا کے واسطے روزے (صوم ) کی نیت کی ہے اس لئے آ ج با ت نہیں کر سکتی“۔(القرآن 19-26)۔
قرآ ن کر یم میں صوم کے بارے میں تفصیل سے وضاحت کی گئی ہے۔ فرما تے ہیں©” اے ایما ن والوں تم پر روزے فرض کئے گئے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تا کہ تم پر ہیز گار بنو’)لبقرہ ۳۸۱)۔ اس آیت مبارکہ میں بھی روزے کے اصل جوہر کا بیان آیا ہواہے جو کہ تقویٰ اور پر ہیز گاری ہے۔ارشادہو تاہے کہ ”رمضا ن کا مہینہ وہ ہے کہ اس میں قرآن نازل کیاگیاہے جو لوگوں کیلئے ہدا یت اور ہدا یت کی واضح دلیلیں اور حق و باطل کوکھول کھول کردیکھلانے وا لا ہے پس جو شخص تم میںسے اس مہینے کو پالے اُسے چا ئیے کہ روزہ رکھے… اور اللہ تعا لیٰ تمھارے سا تھ آسانی چا ہتا ہے اور تم پر سختی نہیں چاہتا…“(البقرہ ۵۸۔۳۸۱)۔ احادیث شریف میں بھی روزے کی فضلیت اور اس کے جوہر کو بیان کیا گیاہے”من لم یدع قول الزور والعمل بہ ولیس لللہ حاجتہ فی ان یدع طعامہُ و شرابہ“ ُ ۔ یعنی” جس نے جھوٹی بات اور اس پر عمل کو ترک نہ کیا تو اس اللہ تعالیٰ کو اس بات کی کوئی حا جت نہیںکہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑدیں“۔ پھر فرما یا” کم من صائمِِ لیس من صیا مہ الا الجوع والعطش“۔ یعنی کتنے ہی روزہ دا ر ایسے ہیں جنہیں ان کے روزوں سے سوائے پیاس کے کچھ حاصل نہیں ہو تا “۔ حضرت امام جعفر الصادق ؑ نے فرما یا ”روزہ فقط کھانے پینے ہی سے پر ہیز کا نام نہیں ہے چپ رہنا بھی دا خل صوم ہے پس جب تم روزہ رکھو تواپنی زبان کی بھی حفاظت کرو اور اپنی آنکھو ں کو خدا کی منع کی ہوئی چیزوں سے دور رکھو“(تفسیر صافی ۳۱۳)۔ ان آیا ت اور احادیث سے یہ با ت واضح ہو گئی کہ روزے سے مراد صر ف فجر سے مغر ب تک کھانے پینے سے رکنے کا نا م نہیں بلکہ اس مبارک مہینے میں اپنی زبان ، ہاتھ ، دل ، پاﺅں اور آ نکھوں کو بُرائیوں سے دور رکھنا انتہائی ضروری ہے جیسا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فر ماتے ہیں کہ ”اچھا مسلمان وہ ہے جس کے ہا تھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہے“، اور فرماتے ہیں کہ افضل الجھادان تجا ہد نفسک”یعنی بہترین جہاد وہ ہے جو نفس کے خلا ف کیا جائے“۔ پھر فرما یا: اذا صمت فلیصم سمعک وبصرک و ولسانک و ید ک و کل عضو ہ ترجمہ:”جب تم روزہ رکھے تو ضروری ہے کہ تیرے کا ن، آنکھ،زبان،،ہاتھ اور تیرا ہر عضو روزے سے ہو “۔
یہی وجہ ہے قرآن میں تقویٰ کاذکران الفاظ میںکیاگیاہے۔”ان اکرمکم عنداللہ اتقاکم“یقیناََ اللہ تعالیٰ کے نزدیک زیا دہ مکرم وہ ہے جو تم میں سے زیا دہ پر ہیز گار ہے “(13-49) ۔یہی وہ بنیا دی تعلیما ت ہیں جن کا ذکر قرآن پاک‘ احادیث شریف اور فرامین آئمہ میں باربار ملتے ہیں۔
مشہور اسکالرامام الغزالی ؒروزے کے با طنی رموز اور مدارج کو درج ذیل تین قسم میں بتا تاہے ” (ا)عوام النا س کا روزہ (ب)خواص کا روزہ(ج)مخصو ص لوگو ں کا روزہ“۔ عوام کا روزہ یہ کہ کھا نے پینے اور جماع کی چیزوں سے اجتنا ب کر یں۔ یہ سب سے نچلا رُتبہ ہے ۔مخصو ص ترین بندوں کا روزہ یہ ہے کہ بلند ترین مراتب اور اپنے دل کو بجز ذات خدا وندی کی طرف متوجہ ہو۔ خاص لوگوں کا روزہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کیلئے ہی زندہ رہے۔(کیمائے سعادت از امام العزالی،ص ۰۰۲ترجمہ از نائب نقوی (۱۷۹۱ءلاہور)۔ رمضان وہ مبارک مہینہ ہے کہ جس میں قرآن کے علا وہ تمام اسمانی کتب کا نزول ہوا مشلاََ حضرت ابراہیم ؑکے صحیفے یکم تا تین رمضان،حضرت داود ؑ کو زبور ۲۱ رمضان یا ۸۱ رمضا ن کو ، حضر موسیٰ ؑ کو تورات ۶رمضان کو اور حضرت عیسیٰ ؑ کو انجیل ۲۱ یا ۳۱ رمضان کو نازل کیاگیا ۔( اسلامی ا نسائیکلوپیڈیا)۔ پس اس مبارک مہینے میں ہمیں روزے کے تمام پہلوں کاخیال رکھناچائیے۔ روزے کے اصل جوہر کو سمجھنا چا ئیے۔ تقویٰ اور پر ہیز گاری کاتقاضہ یہ ہے کہ انسان معاشرے میں اپنا عمل وکردار صحیح طریقے سے نبائے اور معا شرے کا فعال ممبر بنے دوسروں کیلئے ہمیشہ فائدہ دینے کی کو شش کریں ۔ تمام اسلامی عبادات کا یہی تقا ضا اور منشاءہے ۔ بقول اقبال:” رگوں میں وہ لہو باقی نہیں ہے ‘ وہ دل وہ آرزو باقی نہیں ہے‘ نماز و روزہ و قربان وحج‘ یہ سب باقی ہیں مگر تو با قی نہیں“
اب زرا ہم اپنے معاشرے کو دیکھتے ہیں اس مبارک مہینے میں مہنگائی آسمان پر‘جھوٹ بولنے کا رحجان باقی مہینوں سے زیادہ‘ کسی بھی آفس میں جاﺅ ملازمین مختلف بہانے بناکر غائب‘ جو وہاں موجود ہوتے ہیں وہ سائل کے داخل ہونے پر ہی کہہ دیتے ہیں کہ ”عید“ کے بعد آﺅ۔ سرکاری دفاتر میں عملہ وقت سے پہلے غائب اگر ہے تو اتنا احسان جتاتے ہیں کہ گویا وہی اکیلے روزہ دار سے ہیں۔ سکول‘ کالج‘ یونیورسٹی اور دیگر تعلیمی ادارے مختلف بہانے بناکر چھٹیاں مناتے ہیں۔ انتظامی ادارے میں بھی یہی حال ہے۔ پاکستان میں رمضان شریف کسی دفتری کام سے اللہ بچائیں۔ دکاندار سے لیکر عام آدمی تک دن بھر ایسے موٹ میں رہتے ہیں کہ سائل کا ان سے کوئی واسطہ پڑے تو شامت آئی۔ سحری اور افتاری کو بھی ہم نے اس قدر پیچیدہ بنایا ہے کہ عام آدمی کی سمجھ میں نہیں آتی کہ کیاکیا جائے۔ سینکڑوں قسم کے کھانے سجائے جاتے ہیں۔ صدقہ دینے کو کوئی تیار نہیں۔ بم دھماکے جاری ہے۔ فساد اور جھکڑے ختم نہیں ہورہے ہیں۔ انسانی جانیں اس مبارک مہینے میں بھی محفوظ نہیں۔ خوف کے بادل ہلتے ہی نہیں۔ہر چیز لوگ فشن کے طور پر کرتے ہیں۔ رمضان کا مقصد زندگی کو آسان بنانا ہے اور سنت شریف میں بھی تعلیمات موجود ہیں۔ اللہ تعالی ہم سب کو صراط المستقیم پر قرآن و حدیث کی روشنی میں رہنے کی توفیق عطافرمائیں اس مبارک مہینے میں عبادات کے ساتھ حقوق العباد کا بھی خیال رکھنے کی اعلیٰ ہمت دیں۔( آمین)