گوشہ اردو

غلطیاں ہزار نکالے, اصلاح کر نہ پائے

تحریر: محمدجان رحمت جان
کہنے کو انسان خطا کا پتلا ہے لیکن اس حقیقت کو کون مانے؟ کچھ لوگ سینکڑوں غلطیوں کے بعدبڑی بڑی ایجادات کر بیٹھیے اور کچھ غلطی پر غلطی اور معاشرے کو بگاڑ بیٹھے۔ اس زمین پر عادتاََ انسان خود کو اشرف المخلوقات کہلاتا ہے اور اس میں شک بھی نہیں لیکن اپنے ہی کوتہیوں کی وجہ سے درجات کی بجائے درکات کا شکار ہوجاتا ہے۔ درکات سے درجات پانا کوئی اسان فعل نہیں اگرچہ اس کے لئے انسان کو اعمال صالحہ کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ آج کل یہ میدان بھی سیاست کا شکار ہوچکا ہے۔ لوگ سیاسی پارٹیوں کی طرح ایک دوسرے پر اس طرح کچھڑ اچھالتے ہیں کہ ایک دوسرے کی غلطیوں کی ہی نشاندہی کرتے رہتے ہیں کبھی بھی اصلاح کی تجویز یا ترکیب نہیں بتاتے۔ یہ معاملات اب گھروں تک پہنچ چکی ہے اور گھر کے افراد ایک دوسرے کی اصلاح کے بجائے غلطیاں ڈھونڈنے میں مصروف عمل ہیں۔ یہ سب کیوں ہوتا ہے؟ اخر انسان ایک دوسرے کے پیچھے کیوں لگ جاتے ہیں؟ غرض اور مفادات کی جنگ معاشرے کی بنیادی اکائی خاندان تک جا پہنچی ہے۔ دین اسلام میں اس حوالے سے واضح ہدایت موجود ہے قرآن پاک میں کئی ایک مقامات پر اللہ تعالیٰ نے انسان کی اس کمزوری کی نشاندہی کی ہے اور انسان کو صاف صاف نصیحت کی ہے فرماتے ہیں ”(موسیٰ )ؑنے کہا کہ ہاں وہ حرکت مجھ سے ناگہاں سر زد ہوئی تھی اور میں خطاکاروں میں سے تھا“(سورة الشعرائ: ۰۲)”خدا چاہتا ہے کہ وہ تم پر سے بوجھ ہلکاکردے اور انسان (طبعاََ)کمزور پیدا کیا گیا ہے“(سورہ النساء:۸۲) ”جو ملک میں فساد کرتے ہیں وہ اصلاح کبھی نہیں کرتے ہیں“ (سورة الشعرائ:۲۵۱)۔ اور تم ناپ تول پورا کیا کرو (اور) لوگوں کی چیزیں پوری دیا کرو اور زمین میں اصلاح کے بعد خرابی نہ کرو“(سورة الاعراف:۵۸)۔ ان آیات مبارکہ کے بعد یہ بات واضح ہوگئی کہ انسان ہی خطا کا پتلا ہے اور اصلاح کے نام پر بگاڑ کرتا رہا ہے۔
اس بارے میں قارئین کی خدمت میں ایک روایت پیش ہے۔ کہتے ہیں کہ” ایک مصور شہر میں بہت مشہور تھا وہ ہمیشہ نفیس اور سنجیدہ قسم کی تصویریں بنایا کرتا تھا۔ شہر بھر میں ان کا بہت چرچا تھا۔ وہ کسی بھی اچھے انجینئر سے کم نہ تھے ایک دفعہ اُس نے اپنے ابو سے کہا ”ابا جب بھی میں کسی سے مشورہ لیتا ہو لوگ ڈھیر لگاتے ہیں اور تصویر میں اتنی غلطیاں نکال لیتے ہیں کہ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ کیا کیا جائے جب اُن سے مدد مانگتا ہو تو بہانے بنانا شروع کردیتے ہیں“۔ مصور کے ابو نے کہا کہ آپ ایک بہت بڑا تصور بناکر شہر کے چوراہے پر لگا دے اور اوپر لکھ دیں کہ” اس تصویرمیں جو بھی غلطیاں ہیں ان کی نشاندہی کی جائے“۔ تصویر لگا دیا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے پورے تصویر پر ضرب کے نشان لگ گئے یعنی پورا تصویر غلطیوں کا پالندہ نکلا۔ وہ مصور بہت مایوس ہوا اور روتے ہوئے اپنے ابو کے پاس پہنچ گئے کہنے لگے ابو میرے تصویر میں ایک چیز بھی صحیح نہیں نکلی لوگوں نے پورے تصویر کو ضرب کی نشانوں بھر دیا ہے تصویر کا ایک ایک کنارہ ہر ایک رنگ اُن کی نظر میں غلط ہے۔ موصوف کے ابو نے اُن کو بہت حوصلہ دیا اور کہا کہ” آپ اُسی تصویر کو دوبار بناکر اُسی جگہ لگا دیں اور اوپر لکھ دو کہ جس کسی کو جو بھی غلطی نظر آئے اس کی اصلاح کر دیں“۔ تصویر لگا دیا گیا لیکن ہفتے گزرے کوئی اصلاح نہ ہو سکی۔ بالا اخر تصویر مہینوں بعد وہاں سے ہٹایاگیا لیکن کوئی اصلاح کی تجویز نہ آئی“۔ اس روایت سے معلوم ہوا ہوتا ہے کہ لوگ محض غلطیوں کی تلاش میں لگے رہتے ہیں۔ ایک دوسرے کی اصلاح کرنا کوئی اسان کام نہیں یہ دل گردے والوں کا کام ہے۔
ہم اپنے ملک میں عموماََ کرکٹ میچ کے بعد ٹیلی ویژن پر دیکھتے ہیں کہ لوگ سب کس قدر کھیلاڈیوں کی غلطیاں نکالتے رہتے ہیں۔ یہی حال حکومت‘ تعلیم‘ سماج‘ خاندان‘ معیشت میں بھی ہے۔ حکمران اپنے بساد میں کام کرتے ہیں عوام اصلاح کرنے کی بجائے اُن کی غلطیوں کے پیچھے لگے رہتے ہیں جس کی وجہ سے وہ بضد ہوکر ہی ایسا کردیتے ہیں کیونکہ وہ کچھ بھی کریں کسی نے شاباش دینا نہیں۔ معاشرے کا یہ المیہ اس وقت ختم ہوسکتا ہے جب ہم ایک دوسرے کو شاباش دینا یا حوصلہ افزائی کرنا سکھیں۔ ہمارے زمانے کی سب سے بری عادت ہی یہی ہے کہ ہم اپنے علاوہ کسی کو تسلیم نہیں کرتے۔ خود کو ہر فن مولا ماننے کی وجہ سے نہ خود کچھ کر سکیں نہ کسی سے اپنے بارے میں کچھ مشورہ لے سکے۔ کسی بھی دینی‘ دنیاوی‘ سماجی‘ تعلیمی‘ فلاحی‘ ثقافتی‘ انتظامی‘ ادبی‘ تاریخی‘ علمی‘ معاشی‘ لسانی‘ ذاتی‘ تعمیراتی اور حکمرانی کے معاملات میں کوئی مسئلہ ہو تو ہر آدمی مشیر بننا پسند کرتا ہے اس لمحے ماہرین یا اس پیشے سے منسلک لوگوں سے رابطہ نہیں کیا جاتا ہے۔ ہر آدمی بولنے لگتا ہے جس کی وجہ ماہر اور عام آدمی میں فرق مشکل ہوجاتا ہے۔ ایسے معاملات میں ہر پیشے سے متعلق لوگوں سے اصلاح کی کوشش کرنی چاہئے۔ ہمارے ارد گرد امن پر تقریر کرنے والوں کی کوئی کمی نہیں لیکن امن کی عملی تعبیر کسی سے ممکن نہیں کیوں؟ انا اور غرض کی وجہ سے ہمارے جذبات ہم پر غالب آجاتے ہیں جس کی وجہ سے کوئی اور ہمیں اہم نظر نہیں آتا۔ جب کوئی اہم نہیں تو اُس کی زندگی گل کر دی جاتی ہے۔ ہم یہ بات بھول جاتے ہیں کہ اکیلے زندگی ممکن نہیں زندگی کی رنگینی تکثیریت اور اکثریت میں ہے۔
ترقی یافتی ممالک میں ہر معاملے کے لئے الگ الگ مشاوراتی کونسلات ہوتے ہیں۔ یہ متعلقہ معاملات میں اپنے مخصوص شعبوں میں لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔ ہمارے یہاں زمیندار اساتذہ کو مشورے دیتے ہیں‘ حکمران علماءکو‘ ڈاکٹر انجینئرز کو‘ تماشائی کھیلاڑی کو‘ عوام وکلاءکو‘ بچے بڑوں کو‘ مرد عورتوں کو اوران پڑھ میڈیا کو تجاویز دیتے ہیں۔ کوئی یہ نہیں کہتا کہ ”یہ میں نہیں جانتا کسی ماہر سے پوچھو“۔ بحرحال اپنے علاوہ کسی اور میں غلطی کی نشاندہی اسان ہے لیکن اس میں اصلاح مشکل مرحلہ ہے لہذا ہمیں کسی میں غلطیاں ڈھونڈنے کی بجائے اصلاح کی بھی کوشش کرنا چاہئے۔ آپ کا کیا خیال ہے؟ ہم ہر معاملے میں ایک دوسرے کے پیچھے کیوں پڑتے ہیں؟ کیا ہماری یہ عادت بدل سکتی ہے؟ ہماری ایک شاباش سے کسی کی زندگی میں تبدیلی آتی ہے تو آج سے یہ عادت بنالینی چاہئے۔

Related Articles

2 Comments

Back to top button