گوشہ اردو
یکم نومبر اور حُرّیتِ فکر
اشتیاق احمد یاد
گملے میں لگے ہوئے پودے کی نشونما، تروتازگی اور خُوشبو کے لیے جس طرح مناسب دیکھ بھال، وقت پہ پانی اور کھاد دینے اور دھوپ اور روشنی فراہم کرنے کی ضرورت ہوتی ہے بالکل اسی طرح ذہن وعقل کی نشونما، تروتازگی اور پھلنے پھولنے کے لیے اسی آزادی سے سوچنے ، غوروفکر اور تنقید کرنے کا بہترین موقع فراہم کیا جانا ناگُزیر ہے۔ گویا آزادسوچ، فکر اور تنقید ذہن وعقل کے لیے پانی ، کھاد، دھوپ اور روشنی کا کام کرتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر پودے کو مناسب پانی، کھاد، دھوپ اور روشنی سے محروم رکھاجائے تو وہ پودا لاغر، مُرجھایا ہوا اور پھیکا ہوگا۔ بالکل اسی طرح ذہن وعقل کو آزاد سوچ ، فکر اور تنقید سے دور رکھا جائے تو اس کی حالت بھی لاغر، سوکھے ہوئے اور پھیکے پودے کی طرح ہوگی۔ اور آج ہم مُوخر الذّکر صورتِ حال سے دوچار ہیں۔
یکم نومبر 1947ءکوہمارے بزرگوں نے گلگت کو ڈوگروں سے آزاد کروایا اور سولہ دنوں تک ایک آزاد ریاست کے طور پر حکمرانی کی۔ جو کہ خوش آئند بات ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ آزادی زیادہ تر جغرافیائی اور ریاستی آزادی تھی۔۔۔ذہنی اور فکری آزادی شاید خال خال ہی تھی۔ آزادی کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ کسی خطے کے لوگ محض اس خطے کو دوسروں سے آزاد کروائیںیا ایک جغرافیائی حدود پر اپنی حکمرانی قائم کریں بلکہ آزادی کا صحیح مفہوم تو یہ ہے کہ جو خطہ آزاد کروایا گیا ہووہاں لوگ ذہنی اور فکری طورپر بھی آزاد ہوں اور کائنات ودنیا کے مظاہر ، فلسفیانہ رُجحانات ، نظریات، تصورات، معاملات اور مسائل پر بِلا خوف وخطر سوچ سکتے ہوں، جانچ پڑتال کرسکتے ہوں ، کھوج لگا سکتے ہوں ، تجزیہ کرسکتے ہوںاور تنقید کرسکتے ہوں۔تب ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس خطے کے لوگ مکمل طور پر آزاد فضا ءمیں سانس لیتے ہیں اور آزادی کی نعمت سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔یہ ہمارا گہرا مشاہدہ ہے کہ ہمارے معاشرے میںبہت حد تک جسمانی ، جغرافیائی اور ریاستی آزادی تو میسّر ہے لیکن ذہن اور فکری آزادی جسے مجموعی طورپر “حُرّیتِ فکر”(Freedom of thought)کہا جاتا ہے کا شدید فقدان ہے۔ ہمارے ہاں کائنات ، دنیا اور انسانوں کے مختلف مظاہر ، فلسفیانہ رجحانات،مختلف نظریات، تصورات ، معاملات اور مسائل پر مکمل آزادی سے سوچنے ، بات کرنے اور لکھنے کی آزادی پر بہت حد تک قدغن ہے۔ بچپن سے ہی ہمیںڈرایا جاتا ہے کہ عقلی دلائل مت دو گمراہ ہوجاﺅگے۔۔۔زیادہ کتابیں مت پڑھو تمہارے نظریات خراب ہوجائیں گے۔۔۔فلسفہ پڑھنے سے عقائد پر اثر پڑے گا ۔۔۔تنقید مت کرو یہ بے ادبی کے زمرے میں آتا ہے یا اس سے لوگ اور ادارے ناراض ہونگے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو آزاد پیدا کیا ہے سوچنا، غوروفکر کرنا اور اظہار رائے اس کا پیدائشی اور بنیادی حق ہے مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ہماری سوچ، فکر اور اظہار دوسروں کے قابو میںہیں اور ریموٹ کنٹرول کی طرح انہیں استعمال کیا جاتا ہے۔ ہم اپنی مرضی ومنشا سے
انہیں مکمل آزادی سے استعمال نہیں کرسکتے ہیں گویا ہماری سوچ، فکر اور اظہاربھی دوسروں کے غلام ہیں ۔معاشرے پر نظر دوڑائیں تو یہ تلخ حقیقت آشکار ہوجاتی ہے کہ سیاستدانوں پر جتنی تنقید ہونی چاہیے وہ ہم کرنے سے قاصر ہیں ۔۔۔افسر شاہی کے کر توتوں کو طشتِ از بام کرنے میں بے تحاشا رکاوٹیں ہیں۔۔۔۔مذہبی رہنماﺅںپر جائز اعتراض اور تنقید کرنے میں بہت حد تک قدغن ہے ۔اسی طرح معاشرہ کے دیگر کئی مسائل ، معاملات اور امور پرآزادی سے سوچنے ، فکر کرنے اور اظہار کرنے پر پابندی ہے۔ یہاں تک کہ ہمارے معاشرے میں کچھ لوگوں اور اداروں کو ©”مقدس گائے”کا درجہ دیا گیا ہے جن پر لب کُشائی ناممکن ہے۔
اس آزادی کے شدید فُقدان ہی کا نتیجہ ہے کہ ہم لکیر کے فقیر ہیں ۔۔۔جو چل رہا ہے یا جو ہورہا ہے وہ ہمیں اچھا اور معمول کے مطابق لگتا ہے۔۔۔ہم اس ماحول اور معمول کے عادی ہوچکے ہیں ۔۔۔جبھی تو ہمارے معاشرہ میں تبدیلی کا عمل جمود کا شکار ہے۔۔۔تعمیر و ترقی رُک چکی ہے۔۔۔ ادارے کھوکھلے ہوچکے ہیں۔۔۔سفارش ،رشوت،اقربا پروری اور بد نظمی عروج پر ہے۔۔۔ کوئی نیا نظریہ ،نیا تصور، نئی ایجاد، دریافت، تحقےق اور تخلیق جو کہ انسانوں یہاں تک کہ دیگر جانداروں کے مفاد میں ہوسکتی ہے سامنے نہیں آرہی ہے۔اس معاملہ میں سب سے زیادہ قصور ہم اساتذہ کا ہے ۔ہم سب سے بڑے لکیر کے فقیر ہیں۔ حُرّ یتِ فکر کی ہم آبیاری کرنے سے قاصر ہیں ۔ہم اظہارِ رائے کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے، سوال اور تنقید کرنے کا کلچر پیدا کرنے میں ہم ناکام ہیں۔ےہی بنےادی وجہ ہے کہ آج تک ہم گلگت بلتستان سے کوئی قومی یا بین الاقوامی سطح کا مشہور ومعروف سائنسدان ، سماجی سائنسدان ، موجد،فلسفی ، مفکر، نظریہ ساز، سکالر، مذہبی سکالر، ماہر تعلیم ،ماہر معاشیات،ماہر زراعت، ماہر طبعیات، ماہر فلکیات، رےاضی دان، کیمیادان، جغرافیہ دان، قانون دان، سیاستدان، محقق، صنعت کار، ڈاکٹر، انجینئر، پروفیسر، صحافی، شاعر ، ادیب ،گلوکار، مصوّراور سوشل ورکر پیدا نہیں کرسکیں ہیں۔
ہم نے اپنا ایک عجیب وغریب مائنڈسیٹ بنایا ہوا ہے۔ ڈاکٹر، انجینئربن گئے تو گویا بہت بڑا کمال کیا۔۔۔اے ۔سی، ڈی۔سی کی سیٹ حاصل کی تو بہت بڑا معرکہ سر کیا۔۔۔ پی ایچ ڈی کی ڈگری لی تو گویا دنیا کا سب سے بڑا کارنامہ سرانجام دیا۔ ٹھیک ہے اس طرح کا مقام ومنزل حاصل کرنا بھی حوصلہ افزا بات ہے لیکن یہ سب تو معمول کے کام ہیں۔عام سی بات ہے اوجِ کمال تو کچھ اور ہے جس کی طرف ہماری جستجو اور جدوجہد نہیں ہے۔اگر ہم ٹھنڈے دل ودماغ سے غور کریں تو معلوم ہوتاہے کہ پچھلی چار صدیوں میں انسانوں کی فلاح وبہبود، تعمیر وترقی، خوشحالی اور آسائشوں کی فراہمی میں جو انقلاب لایا گیا ہے اس میں 95فی صد کارنامہ اور کارکردگی غیر مسلموں کی ہے۔ ہماری اس زبوں حالی کے جہاں اور کئی عوامل ہیں وہاں بنیادی اور اہم وجہ ہمارے معاشروں میں “حُرّ یت ِفکر”کا شدید فقدان ہے۔ اسی فقدان ہی کا نتیجہ ہے کہ ہم سب ،اپنی اولاداور طالب علموں کو طوطے بنانے میں مصروف ہیں یعنی Memorizationپر اکتفا کرتے ہیںبجائے Conceptualizationکے ذریعے “نئی دنیا”پیدا کرنے کے۔