شہریوں کی ذمہ داریاں
تحریر: محمدجان رحمت جان
حقوق و فرائض کا چولی دامن ساتھ ہے۔ جہاں ہم حقوق کی بات کرتے ہیں وہاں فرائض بھی شامل ہوجاتے ہیں۔ شہری علوم میں شہریوں کے ذمہ داریاں بے شمار ہیں۔ ہمارے مُلک میں حق کی بات ہر کوئی کرتا پھرتا ہے لیکن فرائض سے ہم سب رو گردانی کرتے ہیں۔ اس پس منظر میں ترقی کا خواب ادھورا ہی رہ جاتی ہے۔ ادیان عالم کی تعلیمات میں حقوق و فرائض کو عبادت کا درجہ حاصل ہے۔ اِس زمانے میں جس مُلک کے شہری اپنے فرائض صحیح ادا کرتے ہیں وہی اُن کو اُن کے حقوق بھی اُسی طرح مل جاتے ہیں۔ تاریخی اور فلسفہ کے علوم یا ماہرین عمرانیات سے ہٹ کر کوئی عام آدمی بھی اگر ایک منٹ کیلئے سوچے تو یہ بات عیاں ہوجائے گی کہ فرض نبھائے بغیر حق کا مطالبہ کرنا صحیح نہیں۔
ہم اپنے علاقے میں لنک روڈ کی بات کریں یا عوامی شہراہ کی حکومت وقت اُن کی تعمیر کر چکی ہے لیکن شہریوں کی غفلت اور بے حسی کے باعث جگہ جگہ پانی اور توڑ پھوڑ کا شکار ہے۔ گلگت بلتستان میں ایک تو جغرافیائی حالات اورموسم کی وجہ سے یہ تعمیرات ٹوٹ پھوٹ جاتی ہے دوسری طرف شہری غفلت کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔ سکول‘ ہسپتال‘ سماجی اداروں کے دفاتر اورکھیل کھود کے میدان بڑے بڑے رقوم سے بنتے ہیں لیکن قدرتی آفات کے ساتھ ساتھ زیادہ تر شہریوں کی غفلت کے باعث وقت سے پہلے ہی خراب ہوجاتے ہیں۔ عوامی دیواریں‘ جنگل اور سیر سپاٹے کی جگہیں بھی عوام ہی برباد کردیتے ہیں۔ بے جا چوریاں‘ توڑ پھوڑ علاقے کی تعمیر و ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ سٹرک کے کنارے دیواریں سماجی اور نجی اداروں کے چاکنگ سے بہت متاثر ہیں۔ خواہ مخواہ کی چاکنگ اور نفرت آمیز جملے نہ صرف بُرے لگتے ہیں بلکہ سیاحوں کے لئے خوف و حراس کا باعث بھی بنتے ہیں۔
ترقی یافتہ قومیں اپنے بڑوں اور بزرگوں کی اقوال اپنے سینوں میں محفوظ رکھتے ہیں ہم اُن کو دیواروں کی زینت بناتے ہیں۔ ہم اُن کی پرچار کے نام سے اُن کی تذلیل کرتے ہیں ترقی یافتہ قومیں اُن کو عملی شکل دیتے ہیں۔ مثلاََ یورپ کی سڑکوں اور چوراہوں پر آویزاں اُن کے بزرگوں کے خاکے خوبصورتی کے ساتھ ساتھ اُن کی خدمات کی یاد دلاتے ہیں جو اُنہوں نے تاریخ میں کردار ادا کیا ہے۔لیکن ہمارا حال قدرے مختلف ہے۔ہم عقائد میں پکے ہیں وہ اعمال میں‘ ہم جذبات کے مضبوط ہیں وہ کردار کے‘ یہی فرق اُن کی مادی ترقی کا سبب بنی ہے۔ یورپ کے ترقی یافتہ ملک تاریخ سے سبق سیکھ چکے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ وہاں بھی کچھ مسائل ہو لیکن ہمارے نسبت وہاں مادی ترقی بہت زیادہ ہیں۔ ہمارے جتنے بھی اہم شخصیات بنے ہیں وہ یورپ سے ہی پڑھے لکھے ہیں اور یہ سفر آج بھی جاری ہے۔ ہمارے شہری تعلیمات اُن سے مضبوط ہے لیکن عمل نہ ہونے کی وجہ سے وہاں جاکے سیکھتے ہیں۔ تعلیم‘ صحت‘ ثقافت‘ زبان‘ رہن سہن‘ تعمیرات‘ جمالیات اور تہذیب کے دیگر شعبے ہماری ایک نسل نے تخلیق کی اور اُس کے بعد ہم اُن کے گیت گاتے رہے اور یورپ اُن کی راہ پر گامزن ہوئی اور آج آسمان کی وسعتوں کو پہنچ گئے۔ صفائی‘ عوامی مقامات کی حفاطت اور دیگر عوامی سطح کے چیزیں عوام ہی کے فرائض میں آتے ہیں۔ ڈاکٹر پرشاد کہتے ہیں کہ’’یہ خیال کرنا بے معنی ہے کہ آیا حقوق فرائض سے پہلے آتے ہیں یا فرائض حقوق سے پہلے‘ یہ دونوں ایک دوسرے کے تکمیلی جُزو ہیں۔ اگر ہر شخص محض اپنے حق پر اصرار کرے مگر دوسروں کے حقوق یعنی اپنے فرائض کو نظر انداز کردے تو جلد ہی یہ حالت ہوجائے گی کہ کسی کیلئے کوئی حقوق نہیں ہونگے‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایاکہ’’دوسروں سے وہی سلوک کرو جس کی تم دوسروں سے خود اپنے لئے توقع کرتے ہو‘‘۔
اقوام متحدہ کے اختیار کردہ انسانی حقوق کا تعین کیاجاچکا ہے اوراسلامی ممالک کی تنظیم بھی اپنا موقف پیش کرچکی ہیں۔ ایشائی‘ افریقی‘ یوروپی‘ امریکی‘ فرانسیسی‘ چینی اوردیگر مذہبی و سماجی تنظیموں نے بھی انسانی حقوق کے منشور پیش کی ہے اور کررہے ہیں۔ موجودہ حالات میں انسانی حقوق کی پرچار عالمی سطح سے گھروں تک جا پہنچی ہے۔ انسانی حقوق پر اس قدر زور دیاجاچکا ہے کہ اب ہر آدمی ہر بات پہ اپنی حقوق کی بات کرتاہے۔ شہریوں اور انسانی حقوق کی اس قدر پذیدائی کے بعد اب فرائض کی طرف زور دیناچاہئے تاکہ دنیا میں ہر انسان کو جہاں حق حاصل ہو وہاں فرض کی ادائیگی میں بھی کوئی کسر باقی نہ رکھے۔ بحیثیت شہری فطری‘ سماجی‘ قانونی‘ بنیادی‘شہری اور سیاسی حقوق ہوتے ہیں۔ حقوق کو مذیذ اقسام ہیں لیکن آخرکار اُن کا حصول اُس صورت میں ممکن ہے جب ہم اپنے فرائض کی ادائیگی کرینگے ہر مسئلے کا حل ممکن ہے۔
’’عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی‘
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری‘‘۔